شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر
کرتے ہیں کہ دو آدمی قبرستان میں بیٹھے تھے ایک آدمی اپنے دولت مند باپ کی
قبر پر بیٹھا تھا اور دوسرا اپنے درویش باپ کی قبر پر ۔ امیر زادے نے درویش
لڑکے کو طعنہ دیا کہ میرے باپ کی قبر کا صندوق پتھر کا ہے ، اس کا کتبہ
رنگین اور فرش سنگ مر مر کا ہے اور فیروز ے کی اینٹ اس میں جڑی ہوئی ہے اس
کے مقابلے میں تمہارے باپ کی قبر کیسی خستہ حال ہے کہ دو مٹھی مٹی اس پر
پڑی ہے اور دو اینٹیں اس پر رکھی ہیں۔ ۔۔
اس پر درویش زادے نے جواب دیا یہ درست ہے لیکن یہ بھی تو سوچو کہ قیامت کے
دن جب مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس سے پہلے کہ تیرا باپ بھاری پتھروں
کے نیچے جنبش کرے میرا باپ بہشت میں پہنچا ہو گا۔ ۔۔
قارئین ! عقل والوں کےلئے سوچنے اور سمجھنے کےلئے اس دنیا میں کئی نشانیاں
موجود ہیں آج جو لوگ اس زمین پر دنیا کی تقدیروں کے مالک نظر آرہے ہیں
دراصل وہ ایک امتحان کے عمل سے گزر رہے ہیں ہر کسی کی بساط کے مطابق اس کا
امتحان ہو رہا ہے اور بےشک خدابزرگ و برتر کی ذات کسی ذی روح پر اس کی
استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی اس وقت پاکستان میں ہمارے حکمرانوں ،
سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور پبلک سرونٹس سے لیکر 18کروڑ عوام امتحان کے
ایک عمل سے گزر رہے ہیں یہ امتحان اس صورت میں بھی دکھائی دیتا ہے کہ ہم
اپنی خانگی زندگی سے لیکر پورے دن کے 24گھنٹوں میں ایک ایک لمحہ کس نیت اور
کس عمل کے تحت بسر کر رہے ہیں ۔۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے جزا و سزا کا فلسفہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور
ہمیں اس بات پر کامل یقین ہونا چاہیے کہ ایک دن تمام انسانوں کو قبروں سے
اٹھا کر دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اپنے رب کی بارگاہ میں ہمیں اپنے اپنے
اعمال کا حساب دینا ہو گا اگر اسی سزا وجزا کے فلسفہ کو پانچ آزادیوں کا
علمبردار امریکہ ، برطانیہ اور اسکے حواری بنیاد پرستی کہتے ہیں تو ہمیں یہ
کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کرہ ارض پر آباد ایک ارب سے زائد مسلمان بنیاد
پرست ہیں ۔۔
قارئین!7/7کے واقعات کے بعد برطانیہ میں آباد مسلمانوں کو بالعموم اور
پاکستانی مسلمانوں کو بالخصوص انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا گیا
اور یہاں تک کیا گیا کہ لیبر پارٹی کے دور حکومت میں جو حجاج کرام حج کر کے
واپس آئے انہیں حج کےلئے جو سہولیات برطانوی حکومت نے فراہم کیں وہ ”دہشت
گردی کے خلاف مختص کوٹہ“ سے کی گئیں اور حج سے واپسی کے بعد ان کی نگرانی
کےلئے برطانوی جاسوس ایجنسیز انکا پیچھا بھی کرتی رہیں اس بات کا انکشاف
موجود ہ حکمران جماعت کی سربراہ سعیدہ وارثی نے اخبارات میں کیا اور انہوں
نے اس بات کی مذمت بھی کی ۔۔۔
قارئین ! برطانیہ میں اسوقت آزاد کشمیر اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے دس
لاکھ کے قریب مسلمان رہتے ہیں اور یہ مسلمان تین نسلوں سے برطانیہ میں مقیم
ہیں اور برطانیہ کے ساتھ انکی وابستگی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے یہ
لوگ برطانیہ کی معیشت میں انتہائی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی
تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے ان مسلمانوں کی کثیر تعداد کا تعلق
آزاد کشمیر کے ضلع میرپور سے ہے میرپور کے رہنے والے یہ لوگ قیام پاکستان
سے قبل اپنے علاقے میں پائے جانے والی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وطن چھوڑ
گئے اور کراچی کے راستے ہوئے بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کی اور مختلف
بندرگاہوں سے ہوتے ہوتے برطانیہ جا پہنچے اور وہیں بسیرا کر لیا ان لوگوں
کی ایک خاص تعداد منگلا ڈیم بننے کے بعد 1964ءمیں معاہدے کے تحت برطانیہ
ترک سکونت اختیار کرتے ہوئے پہنچی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستقل شہریت
اختیار کر لی ۔ آج ان لوگوں کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ
لوگ بریڈ فورڈ، سٹوک ، برمنگھم ، لندن، مانچسٹر سے لیکر پورے برطانیہ میں
پھیلے ہوئے ہیں 7/7واقعات کے بعد یہ تعاون اور خوف ابھرا کہ یہ مسلمان
اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ساتھی بن کر برطانیہ کی سالمیت کو نقصان
پہنچا سکتے ہیں اس سلسلہ میں برطانیہ نے پاکستان سے خصوصی مدد طلب کی اور
برطانوی وزیراعظم سے لیکر ان کی مختلف وزارتوں سے متعلق لوگ پاکستان کے
دورے پر بھی آئے آج 7/7کے واقعات کو چند سال گزر چکے ہیں لیکن بنیاد پرستی
کا یہ خوف ابھی بھی برطانوی ایڈمنسٹریشن کے اعصاب پر طاری ہے اور اس کا
ڈراپ سین مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستانی طالبعلموں کو سٹوڈنٹ ویزہ دینے
میں سختی سے ہوا۔ آج پاکستانی سٹوڈنٹس آسانی کے ساتھ برطانیہ میں تعلیم
کےلئے نہیں جا سکتے لیکن ان تمام حربوں کے باوجود یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے
کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں میں اسلام کی
تعلیمات سیکھنے کی جانب رغبت میں بے انتہاءاضافہ ہوا ہے اور برطانیہ میں
آباد مسلمانوں سے متاثرہو کر اور اسلامی تعلیمات کا براہ راست مطالعہ کر کے
شاہی خاندان کے افراد سمیت برطانوی نسل انگریز بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو
رہے ہیں ۔یہ دین حق کی فتح ہے ۔۔بقول اقبال ؒ
تونہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشئہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش ِتاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
قارئین !امریکہ برطانیہ اور ان کے حواری یہ یاد رکھیں کہ وہ بھی امتحان کے
ایک عمل سے گزر رہے ہیں ۔ عراق ، افغانستان ، پاکستان سے لیکر پوری دنیا کے
مسلمان ممالک اور رنگدار نسلوں کے خلاف بھڑکائی جانے والی آگ اس وقت ان کے
اپنے دامن تک پہنچنے والی ہے اور برطانیہ کی طرح امریکہ میں بھی اسلام
ریکارڈ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے ۔۔۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ایک دفتر میں سیکرٹری نے باس کو بتایا کہ ملازمت کےلئے آنے والے نوجوانوں
میں سے ایک نوجوان کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی منیجر کی پوسٹ کےلئے وہ موزوں
ترین ہے کیونکہ وہ اتنا بہادر ہے کہ اس نے ایک دفعہ شیر کے منہ میں بھی
ہاتھ دے دیا تھا ۔
باس نے کہا ویری گڈ اسے فوراً نوکری پر رکھ لو ۔
سیکرٹری نے بیچارگی سے جواب دیا ۔
”لیکن سر اب اسکا ہاتھ اسکے جسم کے ساتھ نہیں ہے ۔“
امریکہ برطانیہ اور نیٹو ممالک بہت بہادر ہیں لیکن ان کے ہاتھ اور پاﺅں
افغانستان کی دلدل میں دھنس چکے ہیں مسلمانوں کو سزا وجزا کے فلسفہ سے لیکر
ارکان اسلام پر عمل کرنے سے ہر گز اجتناب نہیں کرنا چاہیے چاہے امریکہ اور
نام نہاد ترقی یافتہ دنیا انہیں کتنے ہی بنیاد پرستی کے طعنے دے ۔ |