أ.د. صلاح الدين سلطان
شام کا قصّاب الاسد حجّاج بن یوسف سے بھی اس حد تک بازی لے گیا کہ اگر لوگ
حجّاج بن یوسف کے جرائم اور اسد کی بہیمیت کا موازنہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ
حجّاج کے بارے میں کہا گیا شاعر کا یہ قول ان کی زبان پر آجائے :
رب يوم بكيت منه
فلما مضى بكيت عليه
{اس کی وجہ سے میں نہ جانے کتنے دن رویا، اور جب وہ چلا گیا تو میری آنکھوں
نے اُس پر آنسو بہائے﴾۔
حجاج بن یوسف حافظِ قرآن تھا، وہ ایک فصیح و بلیغ شخص تھا، ساتھ ہی اس کے
ہاتھ خون سے رنگین تھے۔ اور قصّاب اسد تو اپنی بات بھی نہیں کہہ پاتا ہاں
ہر وقت لوگوں کی جان سے کھیلنا اس کا شیوہ ہے۔ حجاج اپنی تمام تر سنگ دلی
کے باوجود کبھی کبھی قرآن کی بات توجّہ سے سنتا تھا ، منقول ہے کہ ایک بار
وہ قید خانہ میں داخل ہوا۔ اس نے ایک شخص سے اُس کا جُرم پوچھا۔ اس نے جواب
دیا کہ میرا کوئی جرم نہیں ہے ، تمہارے افراد میرے چچا زاد بھائی کو گرفتار
کرنے کے لئے آئے، وہ اُسے نہ پا سکے تو انہوں نے مجھے پکڑ لیا۔ حجاج نے کہا
نہیں بلکہ تمہارے اوپر تمہارے چچازاد بھائی نے ظلم کیا۔ اس کے بعد اس نے
ایک شعر پڑھا:
" ظالم تو وہ ہے جس کی وجہ سے تو گرفتارِ بلا ہے، کبھی کبھی کھجلی زدہ
اونٹنیوں کی وجہ سے صحت مند اونٹنیاں بھی کھجلی کا شکار ہو جاتی ہیں"
قیدی نے فوری کہا:لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان اس کے برعکس ہے، حجّاج نے کہا
: بتاؤ اللہ تعالیٰ کا فرمان کیا ہے؟ اس شخص نے کہا : یوسف علیہ السلام کے
بھائیوں نے کہا : "قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا
شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ
الْمُحْسِنِينَ * قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ
وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ" (يوسف:78-79)
﴿انہوں نے کہا "اے سردار ذی اقتدار (عزیز)، اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے،
اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان
پاتے ہیں"یوسفؑ نے کہا "پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں
جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم
ظالم ہوں گے"﴾۔ حجّاج نے فی الفور کہا کہ اس کو رہا کر دیا جائے، اور اس نے
اُس مظلوم مسکین کو آزاد کردیا۔
لیکن قصاب اسد نے اپنے ٹینکوں، جہازوں، میزائلوں، فضائی فوج، اور دیگر
دستوں کے استعمال سے جو بربریت مچائی ہے اُس سے وہ حجّاج کی پوری زندگی کی
سفّاکیوں سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ حجّاج نے اعلانیہ کفر کی دعوت نہیں دی
لیکن قصّاب اسد کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کے
فوجی، اور کارندے زمین پر اس کی تصویر پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو دعوت دیتے
ہیں کہ وہ اس کو سجدہ کریں۔
جوانوں، مردوں، اور بچوں کو تختہء مشق بنایا جاتا ہے تاکہ وہ لا الٰہ الّا
اللہ کہنے سے توبہ کر لیں اور لا الٰہ الّا "بشار"! کا اعلان کریں۔ نستغفر
اللہ، اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے۔ نصیریوں علویوں کا یہ عقیدہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ آواگمن کے ذریعہ علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں حلول کر چکا ہے
اور آواگمن کا یہ سلسلہ جاری ہے یہاں تک کہ اللہ کی روح حافظ الاسد کے اندر
حلول کر گئی اور اس کی ہلاکت کے بعد اللہ کی روح بشّار یعنی "قصاب" الاسد
کے اندر حلول کر گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کرایہ کے مظاہرین شام کے قصّاب کے حق میں نعرے لگاتے ہیں کہ
: "يا الله حلَّك حلَّك، نحط بشار محلك"، یعنی اللہ ۔۔ تعالٰی اللہ عمّا
یقولون علوا کبیرا۔۔ کے ليے ضروری ہے کہ وہ رخصت ہو جائے تاکہ بشار اللہ
تعالیٰ کی جگہ لے! یہ صریح کفر تو ہے ہی، لیکن شام کی آزاد خواتین کا ہتکِ
ناموس بھی اپنے گھناؤنے پن میں اس سے کم نہیں۔ یہ بات بھی تواتر کے ساتھ آ
رہی ہے کہ اس نظام کے سپاہی، فوجی اور امن کے ٹھیکیدار، خواتین کی اجتماعی
عصمت دری کرتے ہیں۔ پامال ناموس کا انتقام لینے کے لئے صرف شام میں ہی
خصوصی جمعہ کا اہتمام کیا گیا۔ ابن علی، مبارک، قذافی، اور علی "فاسد"اپنی
تمام خباثتوں، اور گھناؤنے پن کے باوجود شامی نظام کی دناءت، خسّت، جبر ،
اس کی بربریّت،اور ایران اور اس کے حاشیہ نشینوں سے مدد طلبی نا قابلِ تصور
حد تک تمام حدیں پار کر چکی ہیں۔ انہوں نے علماء کو دھمکیاں دیں جس کے
نتیجہ میں کچھ نے گو گھٹنے ٹیک دئیے، کچھ نے منافقت کی روش اختیار کی، اور
بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی آواز اور بھی بلند کی جیسے شام کے شیخ
القرّاء شیخ کریم راجح، وہ سلسلہء رواة میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم
سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ انہوں نے جمعہ کی نماز میں منبر سے اس نظام سے
اپنے قطعِ تعلق کا اعلان کیا۔ ان کا یہ اعلان شیخ بوطی کے خلاف ایک کھلی
حجّت ہے۔ کاش شیخ بوطی خاموش رہتے تو ان کے بارے میں ہمیں یہ تو گمان ہوتا
کہ ان کو دھمکی دے کر خاموش کر دیا گیا ہے۔
لیکن اس صورتِ حال کی جواب دہی صرف شام کے علماء پر عائد نہیں ہوتی بلکہ
پوری امّت کے لئے ضروری ہے کہ جو بھی اُن سے قریب ہیں اُن کے لئے جدّو جہد
کریں۔ قریبی لوگ دور والوں کو بھی اس کا احساس دلائیں۔ ایران اپنے حاشیہ
نشینوں کے ساتھ میدان میں آگیا ہے ، کیا اہلِ سنّت، کمینوں کی خون آشامی کے
مقابلے میں یتیم ہو گئے ہیں۔ کیا وہ قتل گاہوں، اجتماعی ہتکِ ناموس، نہتّے
نوجوانوں کی ذلّت، مونچھیں اکھاڑے جانے کے مناظراور الیکٹرک شاک کو یوں ہی
تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے؟ وہ اس کے تماشائی بنے رہیں گے کہ ان کے منہ پر
جُوتے رکھے جائیں، ان کے کپڑے اتارے جائیں اور انہیں ایسے گھناؤنے کام کا
حکم دیں جسے لکھنے سے قلم بھی شرمندہ ہے؟!!.
کیا امّت میں ہیں ایسے لوگ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ" (هود: من
الآية116)؟!! ﴿ ایسے اہل خیر جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے
روکتے؟﴾ یا پھر ہم ہر طرح کی خبریں سننے کے باوجود اس بات پر راضی ہو گئے
ہیں کہ ہماری مردانگی، مروّت، بلکہ انسانیّت کو بھی پامال کر دیا جائے، اور
حجّاج بن یوسف کے ہاتھوں مسلمانوں نے جو اذیتیں جھیلی تھیں اس سے درجہا
زیادہ اذیّت میں مبتلا اپنے بھائیوں کی مدد سے ہم کنارہ کش ہو جائیں۔
میں علماء سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ایک واضح موقف اختیار کریں۔ ہم قصّاب
اسد کے جرائم کو جمعہ کے خطبے کا موضوع بنائیں ہم پوری دنیا میں موجود شامی
سفارت خانوں کے سامنے ڈٹ جائیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو یاد رکھیں کہ
حقّ کے معاملے میں خاموش رہنے والا شيطانِ أخرس ہے۔ "وَسَيَعْلَمُ
الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ" (الشعراء: من
الآية227)، ﴿اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام
سے دوچار ہوتے ہیں﴾۔ یہاں تو صرف دو فریق ہیں یا تو ظالمین ہیں یا ان کے
ظلم پر خاموش رہنے والے ہیں۔ !. |