پی ایس بی کے ڈائریکٹر جنرل کے نام

سال 2005 میں سکواش کے کھلاڑیوں کو سپورٹس کٹس ' ریکٹ اور بال تک ملتے تھے اوریہ تعداد دس کھلاڑیوں تک محدود تھی کھلاڑیوں کو کٹس اور سہولیات دینے کا یہ سلسلہ 2015 تک ہی جاری رہا ' بعد میں کم قیمت چیزیں زیادہ قیمت پر دئیے جانے پر بند کرنا پڑا اور کھلاڑیوں سے یہ سہولت واپس لے لی گئی لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان دس کھلاڑیوں میں بھی بیشتر سکواش کے بڑے بڑے ناموں کے بچوں اور رشتہ دار شامل تھے جنہیں سرکا ر کی طرف سے سہولیات بھی ملتی تھی لیکن یہ بھی اللہ تعالی کا کرم ہے کہ ان میں کوئی بھی ٹاپ پوزیشن پر نہیں آیا.
پشتو زبان میں ایک مثل ہے چہ دا "مڑو مال دے"یعنی کہ مردوں کا مال ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ' جس کی اردو میں مثال مال مفت اور دل بے رحم ہی ہے.اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں سرکار کے مال کو ہر کوئی مال مفت سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کام کیلئے ایسے ایسے قانونی راستے نکالے جاتے ہیں کہ پہلی نظر میں فائل پر دستخط کرنے والے بھی دھوکہ کھاتے ہیں اور پھر سرکار کے مال پر قبضے ہو جاتے ہیں پھر اگرسرکاری ادارہ اپنے زمین یا دفتر واپس لینے کیلئے کوشش کرتا ہے تو پھر کیس عدالتوں میں جاتے ہیں اور یوں سالہا سال تک کیس عدالتوں میں چلنے کے بعد حال یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ دفتر والے بھی پریشان ہوتے ہیں کہ سرکاری املاک سے محبت مشکل میں ڈال گئی ہیں اب جان ہی چھوٹے تو بہتر ہے ـ
ملک بھر میں کھیلوں کے میدان کو کھلاڑیوں سے سجانے والا پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان سپورٹس بورڈ ہی ہے وفاق کی سطح پر کام کرنے والے اس ادارے نے اپنے وقت میں بڑے بڑے پروگرام کروائے- نامور کھلاڑی پیدا کئے لیکن پھر اس ادارے پر جمود گی طاری ہوگئی - اٹھارھویں ترمیم کے بعد اس جمودگی میں مزید پختگی آئی اور پھر صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ اس ادارے کے پاس ملازمین کی کمی ہوگئی اور مختلف کیڈر اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد کوصرف جی حضوری کی بناء پر انتظامی عہدوں پر تعینات کیا گیا جس کا اثر یہ ہواکہ یہ ادارہ صرف نام کی حد تک قائم ہے صوبوں میں اس کے بڑے بڑے دفاتر اور عملہ تو موجود ہے لیکن ان کی کارکردگی فائل ورک تک کی ہی محدود ہے.
زیادہ دور جانے کی ضرورت بھی نہیں پشاور میں قائم پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر کا رخ کریں اور یہاں کی صورتحال کا جائزہ لیں- وہ سنٹر جس میں صر ف ایک کھیل "سکواش" کو برہمن ہونے کی حیثیت حاصل ہے کی گذشتہ دو دہائیوں کی کارکردگی کیا ہے باقی سارے کھیل شودر ہیں. جس طرح ہندو معاشرے میں برہمن ٹاپ پر ہوتا ہے اور شودر تھرڈ کلاس ہوتے ہیں بس یہی صورتحال پاکستان کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر پشاور میں بھی ہے.سکواش کو برہمن اس بناء پر اہمیت حاصل ہے کہ اس سنٹر کے ڈائریکٹر سکواش کے کوچ ہیں اور صرف اپنے کھیل پر توجہ دیناجانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور اس میں ان کا بھی فائدہ ہے کیونکہ پی ایس بی انتظامیہ نے اسلام آباد نے ایک کوچ بھی یہاں پر تعینات کیا ہے لیکن اس کوچ کی پریکٹس تو کم ہوتی ہیں لیکن سرکار کے بلڈنگ میں پرائیویٹ بندے آکر سکواش کی کوچنگ کرواتے ہیں اور ہر کھلاڑیوں سے دو سے چار ہزار روپے تک وصول کئے جاتے ہیں- مزے کی بات تو یہ ہے کہ چالیس سے زائد مرد و خواتین کھلاڑی یہاں پر تربیت حاصل کرتے ہیں لیکن ظاہر بیس اور پچیس کے مابین کئے جاتے ہیں.بقایا بچوں سے حاصل ہونیوالی رقم کہاں پر جاتی ہیں .
یہ وہ سوال ہیں جس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے حیران کن بات یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیسے ایک پرائیویٹ کوچ آکر سکواش کی کوچنگ کرنے والے بچوں سے پیسے وصول کررہا ہے.یہ سلسلہ آج سے نہیں کئی سالوں سے جاری ہے لیکن کوئی پوچھنے کی جرات بھی نہیں کرتا کیونکہ بقول ایک ملازم کے اس میں حصہ اسلام آباد تک جاتا ہے. اس لئے خاموشی ہے.
سال 2005 میں سکواش کے کھلاڑیوں کو سپورٹس کٹس ' ریکٹ اور بال تک ملتے تھے اوریہ تعداد دس کھلاڑیوں تک محدود تھی کھلاڑیوں کو کٹس اور سہولیات دینے کا یہ سلسلہ 2015 تک ہی جاری رہا ' بعد میں کم قیمت چیزیں زیادہ قیمت پر دئیے جانے پر بند کرنا پڑا اور کھلاڑیوں سے یہ سہولت واپس لے لی گئی لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان دس کھلاڑیوں میں بھی بیشتر سکواش کے بڑے بڑے ناموں کے بچوں اور رشتہ دار شامل تھے جنہیں سرکا ر کی طرف سے سہولیات بھی ملتی تھی لیکن یہ بھی اللہ تعالی کا کرم ہے کہ ان میں کوئی بھی ٹاپ پوزیشن پر نہیں آیا.

سنتے تھے کہ سرکار ی عمارات میں دکانیں نہیں بنتی لیکن یہ اعزاز بھی پشاور کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر کو جاتا ہے کہ یہاں پرسرکاری زمین پر بلڈنگ کے اندر بغیر کسی این او سی کے دکان قائم کردی گئی ہیں جہاں پر پاپڑ سے لیکر مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں اب اسی ادارے کی بلڈنگ میں نیا تربیتی سنٹربنایا جارہا ہے جس کیلئے بلڈنگ پی ایس بی نے فراہم کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ اتھلیٹس کو سرکار کی زمین دی جاسکتی ہیں اور کیا ضم ہونیوالے اضلاع سے تعلق رکھنے والے سرکاری کوچ وفاق کے زیر انتظام ادارے میں کام کرسکتے ہیں یعنی ایک کوچ صبح میں صوبے کا ملازم اور شام میں وفاق کا ملازم ' کا دو ملازمتیں کی جاسکتی ہیں اور کیا ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ افراد کو سرکاری بلڈنگ دی جاسکتی ہیںاس بار ے میں قانون میں شائد لچک ہے کیونکہ "من پسند" افراد سے حصہ بھی لینا ہوتا ہے . اور کیا وفاق کے زیر انتظام ادارے کے ڈائریکٹر کو ان کے نام سے اکائونٹس میں رقم دی جاسکتی ہیں یا پھر ادارے کے اکائونٹ میں براہ راست جاتی ہیں.یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان سپورٹس بورڈ کے نئے آنیوالے ڈائریکٹر جنرل کے کرنے ہیں کیونکہ اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو پھرسرکار کے مال کو ہڑپ کرنے کا سلسلہ نہیں رکے گا ..


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420323 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More