یاراں نال بہاراں
ملک عبدالرزاق۔ مین آف سٹیل
وہ میرا دوست بھی ہے اور بھائی بھی ،وہ بھائیوں سے بڑھ کر مجھے عزت دیتا ہے
تحریر:محمد اسلم لودھی
زندگی کی شاہراہ پرچلتے چلتے جب ہم مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور کے بوسیدہ
مکان میں شفٹ ہوئے تو مجھے کسی ایسے با اعتماد اور باوفادوست کی ضرورت تھی
،جو آزمائش کی ہرگھڑی میں کندھے سے کندھا ملا کر نہ صرف کھڑا ہو بلکہ مکان
کی تعمیرکے حوالے سے میری عملی طور پر مدد بھی کرے ۔اگریہ کہاجائے تو غلط
نہ ہوگا کہ مکہ کالونی والے گھر کی تعمیرمیں اس کے دانش مندانہ مشوروں کا
عمل دخل بھی شامل ہو۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ
نومبر1984ء کی شام جب ہم والدین سے علیحدگی کے بعد ایک ایسے کھنڈر نما مکان
میں شفٹ ہوئے جسے گھر بنانے کے لیے نہ تو میرے پاس مالی وسائل تھے اور نہ
ہی کوئی خاص تجربہ تھا۔ حسن اتفاق سے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر
تھیں ۔میرا شروع ہی سے رجحان مسلم لیگ ن کی جانب تھا جس کے سربراہ میاں
محمد نواز شریف تھے۔جواس وقت وزیراعلی پنجاب کے عہدے پر فائز تھے ۔جبکہ
مرکز میں محمد خاں جونیجووزیراعظم تھے اور منصب صدارت پر جنرل محمد ضیاء
الحق براجمان تھے ۔جب میں نے سیاسی میٹنگوں میں شریک ہونے لگا توکتنے ہی ہم
خیال لوگوں سے میری شناسائی ہوئی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب مکہ کالونی
گلبرگ تھرڈ کا حصہ ہونے کے باوجود کسی پسماندہ گاؤں کا منظر پیش کررہی
تھی،نہ یہاں سیوریج کا رواج تھا، نہ بجلی کی مین لائنیں تمام گلیوں میں
موجود تھیں ۔پینے کا پانی بھی ہینڈ پمپوں سے حاصل کیا جاتا تھا ۔جو ہر
دوسرے ،تیسرے گھر میں نصب تھے ۔سیوریج کی بجائے گرکی سسٹم کا عام تھا جبکہ
گندے پانی کا نکاس گلی کے درمیان میں بنے ہوئے کچے نالے کے ذریعے ہوتا۔
ایسے نالے مکہ کالونی کی ہر گلی میں موجودتھے۔ اس نالے کے دونوں اطراف کچا
اور ناہموار راستہ موجود تھا ۔سوئی گیس کا تو تصور بھی نہیں تھا ،گھروں میں
مٹی کے تیل کے چولہوں پر کھانا پکایا جاتا یا لکڑیوں کے چولہے جلائے جاتے
تھے ۔
1985ء میں ایک جانب مکان کی سلسلہ وار تعمیر کا کام شروع ہوچکا تھا تو
دوسری جانب سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں ۔ جیسے ہی مکہ کالونی سے
ابوبکر کریم چوہدری نے مسلم لیگ کی جانب سے کونسلر کے الیکشن لڑنے کا اعلان
کیا تو بلوچ روڈ پر واقع مسلم لیگی آفس میں اکثر میرا آنا جانا ہوتا ۔آصف
خورشید آفس سیکرٹری کے فرائض سنبھالے ہوئے تھے ، ملک عبدالرزاق ، آصف
خورشید کے قریبی دوستوں میں شامل تھا، وہ بھی کبھی کبھار وہاں آجاتا تو ان
سے بھی دعا سلام ہوجاتی ۔مکان کا ڈھانچہ تو ے سسرصوفی بندے حسن خان نے کھڑا
کردیا تھا، اس ڈھانچے میں کھڑکیاں اور دروازے لگانے کا مرحلہ ابھی باقی
تھا۔ایک دن میں نے آصف خورشید سے کہا کہ مجھے لوہے کی دو کھڑکیا ں بنوانی
ہیں کوئی اچھا اور واقف کارویلڈر ہو تو مجھے بتانا ۔حسن اتفاق سے اس لمحے
عبدلرزاق وہاں ہی موجود تھا۔ آصف خورشید نے کہا یہ رزاق صاحب یہ ویلڈنگ کا
ہی کام کرتے ہیں۔ ان سے بات کرلیں ۔چنانچہ عبدالرزاق نے مجھے بازار سے سستی
اور معیاری کھڑکیا ں بنا کر نہ صرف دیں بلکہ فکس بھی کردیں ۔چونکہ رزاق کو
تعمیراتی کام کا بھی خاصا تجربہ تھا اس لیے میں اس کی دکان (جو اس وقت مکہ
کالونی کی گلی نمبر 5میں تھی ) پر جانے لگا ۔ ابتدائی ملاقاتوں میں ہی ،میں
نے محسوس کیا کہ وہ عقل و فہم کے معاملے میں خاصاتجربہ کارہے اس کی ہر بات
میں وزن محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح دوستی کا رشتہ دن بدن مضبوط ہونے لگا ۔اس کا
ایک جگری دوست (بیرا) ہماری گلی کے آخر میں رہتاتھا رزاق جب اسے سے ملنے
آتا تو واپسی پر میرے پاس بھی آ جاتا ۔ خو ب گپ شپ ہوتی ۔وقت گزرتا رہا اور
اور دوستی اپنی معراج کو پہنچتی رہی اور ایک دوسرے پر اعتماد بڑھتا رہا۔
ایک مرتبہ رزاق نے کسی شخص سے پیسے لینے تھے ،وہ دے نہیں رہا تھا ،اس کے
پاس کافی گرلیں پڑی تھیں۔رزاق وہاں سے پرانی گرلیں اٹھا کر اپنے گھر لے
آیا۔ دوسری جانب مجھے ایسی ہی گرلوں کی ضرورت تھی ، رزاق نے پیسوں کی بات
کیے بغیر مجھے کہا یہ گرلیں میں آپ کے مکان کی چھت پر لگا دیتا ہوں جب پیسے
ہوں گے، دے دینا۔میرے لیے یہ بات نعمت غیر مترقبہ کے مترادف تھی ۔ میں نے
اسی وقت رضامندی کا اظہار کردیا اور اگلے دن رزاق ملک نے وہ گرلیں لاکر
میری دونوں بالائی چھتوں پر کچھ اس انداز سے لگادیں کہ ان گرلوں کی وجہ سے
میرے مکان کی خوبصورتی میں حد درجہ اضافہ ہوگیا اور گرمیوں میں چھت پر سونے
والے بچے بھی محفوظ ہوگئے ۔ میرے دل میں پہلے ہی ملک عبدالرزاق کا بے حد
احترام تھا ، اس فیاضانہ کام کی وجہ سے احترام میں اور بھی اضافہ ہوگیا ۔
توصیف احمد خان میرا بہت اچھا دوست تھا لیکن ایک ناگہانی واقعے کے بعد وہ
مکہ کالونی سے مکان فروخت کرکے رحمان پورہ شفٹ ہوگیا اسکے جانے کے بعد میں
تنہائی کا شکار ہوگیا تھا، اﷲ تعالی نے ملک عبدالرزاق کی شکل میں مجھے ایک
باوفا اور فنی مہارتوں کا حامل دوست عنایت فرما دیا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں
کہ کہ ملک عبدالرزاق اس قدر باصلاحیت شخص ہے وہ جس کام کا ارادہ کرتا ہے،
اسے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے ۔ ملک رزاق ایک دن لاہور سے بذریعہ
ٹرین کوئٹہ گیا پھر کچے پکے راستوں سے ہوتا ہو ا طویل سفر طے کرکے سرحد ی
شہر تفتان تک جا پہنچا اور وہاں سے نہ جانے کس طرح وہ ایران میں داخل ہوا ۔
کئی ایرانی شہروں کا نہ صرف اس نے دورہ کیا بلکہ ایک چوتھائی فارسی بھی اس
نے سیکھ لی ۔"کوچہ رفتی "تم کہا ں جارہے ہو۔یہ الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں ۔
ارادہ تو اس کا ترکی جانے کا تھا لیکن باامر مجبوری وہ ایران او رترکی کی
سرحد سے ہی واپس آگیا ۔جب مجھے اس کی واپسی کی خبرملی تو میں ان کے گھر
واقع گلی نمبر 9میں گیا تو اس نے مجھے تحفے کے طور پر ایک نئی ایرانی جرسی
دی ۔وہ جرسی اس قدر پائیدار تھی کہ اسے پہنتے پہنتے میرا دل بھرگیا لیکن وہ
پھٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔مجھے زبردستی اسے اتارناپڑا۔
ملک عبدالرزاق کو اﷲ تعالی نے دوست بھی ایسے دیئے ہیں جو میعار زندگی اور
خاندانی سٹیٹس کے اعتبار سے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ
وہ سب کسی نہ کسی طرح ملک رزاق کی فنی مہارت کے محتاج ہیں ۔پہلی مثال میں
یہاں تہاور خان کے بیٹے کامران کی دوں گا جو امیرترین باپ کا بیٹا ہے بلکہ
پورا خاندان ہی شکارکا بے حد شوقین ہے۔گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر اس کی دو
کینال کی کوٹھی تو ہوگی لیکن کامران اپنی جیپ پر سوار ہوکر رات کے پچھلے
پہر کبھی تین بجے تو کبھی دو بجے رزاق کے گھر آتا۔ جب رزاق نیند سے بیدار
ہوکر اسے ملنے کے لیے گھر سے نکلتا تو کامران اس سے تین سو روپے ادھار کا
تقاضہ کرتا ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس جیپ میں کامران پیسے مانگنے آیا
کرتا تھا اتنے پیسوں سے زیادہ اس کی جیپ کا پٹرول لگ جاتا ہوگا لیکن نہ
رزاق نے کبھی اس کو پیسے دے کر واپس لیے اور نہ کامران کو کبھی پیسوں کی
واپسی کا خیال آیا۔ کامران کے ساتھ رزاق کو بھی شکار کا شوق پیدا ہوا۔ شاید
دو تین بار وہ بھی کامران کے ساتھ شکارکے لیے کہیں گیاتھا ۔ ملک عبدلرزاق
کاجگری دوسرا دوست حجازی تھا ،جو اب امریکہ جا چکا ہے۔وہ پاکستان ایئر فورس
کے سکوارڈن لیڈر کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا اور میڈاس ایڈورٹائزنگ کمپنی
میں جنرل منیجرکے عہدے پر فائز تھا وہ بھی ملک عبدالرزاق کانہ صرف اچھا
دوست تھا بلکہ اس کے گھر میں معمولی سا بھی کام ہوتا تو وہ رزاق کوبتاتا
۔حالانکہ کئی مرتبہ رزاق اس کی بات کو سنی ان سنی کردیتا لیکن مجال ہے وہ
ناراض ہوا ہو۔وہ کہا کرتا تھا جو کام رزاق کرتا ہے وہی دیرپا ہوتا ہے ۔اس
لیے کئی کئی مہینے اسے رزاق کے آنے کا انتظا رکرنا پڑتا۔
پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب رزاق نے مجھے بتایا کہ اس کی شادی ملک پارک کے
کسی اچھے اور معزز خاندان میں ہونا قرار پائی ہے ۔چونکہ رزاق میرے اچھے
دوستوں میں شامل تھا اس لیے حجازی سمیت میں بھی اس کی بارات میں شریک تھا
،ماشا اﷲ دولہابن کے رزاق بہت ہی خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ حقیقی معنوں
میں وہ جس نئی زندگی کا آغاز کرنے جارہا تھا، وہ رشتہ حقیقی معنوں میں اس
کے زندگی میں انقلاب کا باعث بننے والا تھا ۔ آسیہ بیگم کے آنے کے بعد ملک
رزاق اور اس کی بیگم، ایک اور ایک گیارہ بن چکے تھے ۔ دونوں کا ذہن
کاروباری تھا ۔جو بھی فیصلہ کرتے سوچ سمجھ کر کرتے، پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں
،اگر وہ فیصلہ غلط ثابت ہوتا تو دونوں ایک دوسرے پر طعنہ زنی کی بجائے
برابر ذمہ داری قبول کرتے ۔میں اکثر ان دونوں کو بزنس پارٹی کے نام سے
پکارتا ہوں۔ چونکہ میاں بیوی کا مزاج کاروباری ہے، اس لیے وہ میری اس بات
کا برا نہیں مانتے۔ملک عبدالرزاق سے میری جتنی دوستی شادی سے پہلے تھی
۔آسیہ بیگم کے آنے کے بعد اس میں چار گنااور اضافہ ہوگیا۔آسیہ بیگم میری
اہلیہ کو اپنی بڑی بہن کا درجہ دیتی ہیں ،ہم ان کے گھر بے دھڑک اور خوشی سے
جاتے ہیں اور وہ ہمارے گھر آنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے میں
رزاق کو اپنا چھوٹا بھائی ہی سمجھتا ہوں بلکہ وہ بھائیوں سے بڑھ کر میری
عزت کرتا ہے۔اسی عزت اور احترام کے رشتے نے ہمیں دوستی کے مضبوط میں باندھ
رکھا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ رابطہ رہے تو غیر بھی اپنے لگتے ہیں اور
اگر رابطہ نہ ہو تو اپنے بھی بیگانے نظر آتے ہیں ۔
اور ایک بات بتاتا چلوں کہ رزاق کا مکہ کالونی کی گلی نمبر 8 میں چار مرلے
کا تین منزلہ گھر تھا ۔ایک دن اچانک دونوں میاں بیوی نے اس مکان کو دو دو
مرلے کا الگ الگ پورشن بنانے کا ارادہ کرکے کام بھی شروع کردیا ۔جب مجھے
خبر ملی تو میں نے کہا رزاق ایک ایسے الجھن میں پھنسنے جارہا ہے جہاں سے
نکلنا شاہد ممکن نہ ہو۔لیکن مجھے اس وقت حیرت ہوئی کہ اس نے چارمرلے اور
تین منزلہ مکان کو دو دو مرلے کے الگ الگ پورشن بنا کر دکھا بھی دیا اور
فروخت بھی کردیا۔ جس انداز سے اس نے یہ کام کیا وہ دونوں پورشن پہلے سے
زیادہ خوبصور ت دکھائی دینے لگے ۔اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ زندگی کی
گاڑی کا ڈرائیور ملک عبدالرزاق ہے تو آسیہ بیگم اس گاڑی میں گارڈ کے فرائض
سنبھالے ہوئے ہیں ۔آسیہ بیگم سبز جھنڈی دکھاتی ہے تو رزاق انجن کو سٹارٹ
کرکے گاڑی کو چلاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سودا بیشک گھاٹے کا ہی کیوں نہ ہو
لیکن دونوں کی بہترین پلاننگ سے وہ فائدہ مند ہوجاتا ہے ۔اس لیے کہا جاسکتا
ہے کہ آسیہ اور رزاق یہ دونوں میاں اور بیوی ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں بلکہ
یہ دونوں ایک دوسرے کا عکس بھی ہیں ۔
اﷲ تعالی نے ملک عبدالرزاق کو اولاد بھی اچھی اور باوقارعطا فرمائی ہے ۔ سب
سے بڑا بیٹا حمیم ہے جس کے نام کا مسئلہ بچپن ہی سے متنازعہ چلاآرہا ہے ،
کبھی حمیم کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے تو کبھی سیف الرحمن کے نام سے ۔حسن
اتفاق سے دونوں ہی نام اس کی شخصیت سے میچ نہیں کر پارہے ۔جس کی وجہ سے اس
کی شخصیت کی خوبیاں نمایاں نہیں ہو پارہیں۔کبھی اس بچے کو فنی مہارت حاصل
کرنے کے لیے کسی دوکان پر بٹھادیا جاتا ہے تو کبھی جامعہ اشرفیہ کے دینی
مدرسے میں عالم دین بننے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ایسا کرتے وقت آسیہ اور رزاق کا
دل ماں اور باپ کا نہیں ہوتا بلکہ یہ دونوں شیر کی طرح مشکل سے مشکل فیصلے
کر گزرتے ہیں ۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ حمیم بیٹا ذہین بہت ہے جو بھی کام کرنا چاہتا ہے،
کرگزرتا ہے۔میں کئی مرتبہ کہتا ہوں حمیم تم اپنے باپ سے بھی بڑے پراپرٹی
ڈیلر بنو گے ،وہ تو کسی جگہ بیٹھ کر پراپرٹی کی خرید و فروخت کرتا لیکن تم
چلتے پھرتے ہی دو چار کوٹھیاں آسانی سے بیچ دیا کرو گے تو وہ ہنس پڑتا
ہے۔وہ پیدائشی طور پر ہمارے خاندان سے مانوس ہے ۔جب ہم عمرے کی سعادت حاصل
کرنے کے لیے ارض مقدس گئے تھے زیارتوں کے دوران میں کئی مرتبہ راستہ بھول
جاتا تھا لیکن حمیم ماشا اﷲ میرا ہاتھ پکڑکر اپنی بس تک لے آتا۔ مکہ میں
قیام کے دوران ہوٹل کے منیجراور جدہ ایئرپورٹ پر بھی اس کی معاملہ فہمی
دیکھنے کوخوب ملی ۔ جب ہم مکہ کالونی میں رہا کرتے تھے ،انسہ اور نیکو
دونوں بچیاں اپنے گھرمیں کم ہمارے گھر زیادہ رہتی تھیں ۔اگراپنے گھر جاتیں
تو دیوارپر بیٹھ کر تائی ، شاہد بھائی ،زاہد بھائی کی آوازیں اس محبت سے
لگاتیں کہ ہمارادل بھی ان سے مانوس ہوتاچلا گیا ۔حمیم تو زمین پر رینگتاہوا
ہمارے گھر تک پہنچ جاتا تھا پھرہلکی ہلکی دروازے پر دستک ہوتی تو ہم سمجھ
جاتے کہ حمیم آیا ہے ۔دروازہ کھولتے تو وہ زمین پر رینگتا ہوا گھر میں داخل
ہوتا اوراپنی تائی سے کہتا ۔ تائی تائی مجھے پراٹھا پکادو............مزے
کی بات تو یہ ہے میری بیگم بھی رزاق کے چاروں بچوں کو دل سے پیار کرتی ہیں
۔رزاق میری بیگم کو باجی کہہ کر پکارتا ہے اور میری بیگم بہن کے اس مقدس
رشتے کو ہرحال میں قائم رکھنا چاہتی ہے ۔جب سے یہ لوگ فارمانائٹس ہاوسنگ
سوسائٹی گئے ہیں اور وہاں انہوں نے ایک کینال رقبے پر ملک پیلس کی تعمیر کا
کام جو 15فروری2021 کو شروع کیاہے ۔بھائی اور دوست ہونے کے ناطے میں نے اس
گھر کا سنگ بنیاد رکھا اور جب اس گھر پر لنٹر ڈالا گیا تومیری بیگم نے رزاق
کی بہن ہونے کے ناطے گانہ باندھا اور دو کلو مٹھائی بھی لے کر مبارک باد
دینے گئیں ۔قصہ مختصرملک رزاق سے دوستی کا جو رشتہ 1985ء سے شروع ہوا تھا،
وہ نسل در نسل چلتا ہوا اس نہج پر آپہنچا ہے کہ میرے بچوں کے ساتھ ساتھ ملک
رزاق کے بچے بھی اب جوان ہوچکے ہیں اور ہر گزرے ہوئے دن دونوں خاندانوں کی
دوستی مضبوط سے مضبوط ہوتی جا رہی ہے ۔اریب ملک جو سب سے چھوٹا اور رزاق کا
لاڈلہ بیٹا ہے۔ میں اسے غریب ملک کہہ کر پکارتا ہوں تو وہ آگے سے مسکرا
دیتا ہے ۔نیکو شہزادی کی تو بات ہی کچھ اور ہے وہ انسہ ،حمیم اور اریب سے
بھی زیادہ ہم لوگوں کو چاہتی کرتی ہے۔آخر میں اس دعا کے ساتھ میں اس آرٹیکل
کا اختتام کرتا ہوں کہ ملک عبدالرزاق اور اس کی چھوٹی اور پیاری سی فیملی
ہمیشہ خوش و خرم رہے ۔اﷲ تعالی زندگی کی ہرخوشی عطا فرمائے ۔دکھ ، تکلیف
اورپریشانی انہیں چھو کر بھی نہ گزرے۔دوستی اور بھائی چارے کا رشتہ یونہی
چلتا رہے۔آمین
|