توہین رسالت پر فرانس کی اشتعال انگیزی

وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ مغربی حکومتوں، جنہوں نے ہولوکاسٹ پر منفی تبصروں کو غیرقانونی دیا ہے، سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اسی معیار کو اپناتے ہوئے ان انتہا پسندوں کو سزا دے جو جان بوجھ کر نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے اندرنفرت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم مسلمان نبی کریم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت و احترام کرتے ہیں جو ہمارے دلوں میں بستے ہیں، ہم انکی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ مغرب کے انتہا پسند وں کو توہین رسالت پر دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سارا قصور فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کا ہے جس نے یہ کہا کہ ہم گستاخانہ خاکوں کی مذمت نہیں کریں گے کہ اس عمل کے خلاف بولنا آزادی رائے کے خلاف ہے۔ حالانکہ یہ نہ جمہوریت ہے اور نہ اظہار رائے، پوری دنیا میں کسی بھی جمہوری ملک یا کسی میڈیا ہائوس کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ کسی ایک شخص کی نا جائز طور پر توہین کرے۔ پیغمبرﷺ کا تو معاملہ الگ ہے کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں آتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ مغربی حکومتوں، جنہوں نے ہولوکاسٹ پر منفی تبصروں کو غیرقانونی دیا ہے، سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اسی معیار کو اپناتے ہوئے ان انتہا پسندوں کو سزا دے جو جان بوجھ کر نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے اندرنفرت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔ اس موقع پر میں یہ بھی کہوں گا کہ حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اور سفارتی سطح پر فرانس کو گستاخانہ خاکوں کا جواب دے۔ مذہبی جماعتوں کو بھی اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ قہر درویش، برجانے درویش والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے، مسلمانوں کے جذبات کو مسلمان دشمن مجروح کریں اور اس کے بدلے میں ہم اپنے ہی مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچائیں اور اپنے ہی مسلمانوں کو قتل کریں یہ سمجھداری والا معاملہ نہیں ہے اور اس مسئلے کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کل جو لوگ احتجاج کی کال دینے والی تحریک کو شیخ رشید کی صورت میں اچھا کہہ رہے تھے آج اُسے کالعدم قرار دے رہے ہیں۔ اس طرح کے دوہرے معیار بھی نہیں ہونے چاہئیں اور مزاحمت کرنے والی تحریکوں کو بھی کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ مسلم اُمہ اور اپنے ملک پاکستان کی بہتری کے لئے سوچ بچار کر کے خود فیصلے کرنے چاہئیں۔

مغربی ممالک مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سب سے بڑے دہشت گرد مغربی ممالک خود ہیں اور ان کا سرپرست امریکہ۔ دیکھنا یہ ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے کون ہے۔ ہم اگر زیادہ د ور نہ جائیں اور تاریخی کتب کی ورق گردانی بھی نہ کریں صرف افغان ایشو کو لے لیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے امریکہ اور اُس کے اتحادی یورپی ممالک نے روس کے مقابلے کے لیے مجاہدین تیار کئے۔ اُن کو پیسہ اور اسلحہ دیا۔ افغانستان میں جنگ لڑی گئی، امریکہ اور اُس کے اتحادی افغان مہاجر کیمپوں میں آکر تقریریں کرتے رہے کہ مسلم مجاہدو آپ جہاد کررہے ہو، مگر جونہی روس کو شکست ہوئی اور روس کا افغانستان سے انخلاء ہوا تو اُسی امریکہ نے انہی مجاہدوں کا قتل عام کیا۔ اگر اب بھی امریکہ اور مغربی ممالک یہ کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں تو پھر برملا کہنا ہو گا کہ اُن سے بڑے دہشت گرد وہ ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے غریب لوگوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تاریخ اٹھا کر دیکھئے کہ ہالینڈ میں گستاخانہ خاکے تیار کئے گئے جس کے خلاف احتجاج چلتے رہے مگر انتہا پسند، گستاخ باز نہ آئے اور ہالینڈ میں رکن پارلیمنٹ اور پارٹی فارفریڈم کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے ایک بار پھر خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرمت رسولؐ پر حملہ آور ہونے کی ناپاک جسارت کی۔ سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک نے اس کا کیا ایکشن لیا؟ یہ ٹھیک ہے کہ فرانس میں ایک گستاخ کے قتل کا واقعہ پیش آیا اس کے لیے قانون موجود ہے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ فرانس کا صدر اور پوری ریاست مسلمانوں کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ یہ بھی دیکھئے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے ایک سفید فام دہشت گرد نے 15مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 50مسلمانوں کو شہید اور اس سے زیادہ افراد کو زخمی کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ فرانس کے صدر نے اس کا کتنا نوٹس لیا؟

توہین رسالت پر فرانس کی اشتعال انگیزی اور اس کے رد عمل میں پھوٹنے والے ہنگاموں نے بہت بڑا پیغام دے دیا ہے کہ ہمیں خبردار ہونا چاہیے اور اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد اور خود مختار بنانا چاہیے اور نہ صرف خارجہ پالیسی بلکہ داخلی ا ور معاشی پالیسیوں کے سلسلے میں بھی ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا، اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی ضرورتوں کے تحت ترتیب دینا ہوں گی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کی معاشی منصوبہ بندی مکمل طور پر آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی سامراج کے ہاتھ میں ہے۔ FBRجو ریونیو اکٹھا کرتا ہے، اسٹیٹ بینک جو معاشی پالیسی ریگولیٹ کرتا ہے وہ عالمی سامراج کو دئیے جا چکے ہیں۔ اس کے بدلے پیسے ملتے جا رہے ہیں اور یہ کھاتے جا رہے ہیں۔ ان کے بتائے گئے اصولوں پر چل کر عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر خود بھی عیاشی کررہے ہیں اور عالمی مالیاتی سامراج کی دولت میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مختصر دور میں کتنے وزیر خزانہ تبدیل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ کا منصب اُس وقت تک کسی کو نہیں مل سکتا جب تک آئی ایم ایف اجازت نہ دے۔ اس صورت حال کو بھی ہر صورت ختم کرنا ہو گا۔ ہم یہ بھی کہیں گے کہ غریب عوام کی بہتری کے لیے مظلوم اقوام اور طبقات ملکر جدوجہد کریں۔ بلا شک آپ ایک پارٹی میں آنے کو تیار نہیں ہیں اصولاً تو ایک جگہ اکٹھا ہونا چاہیے کیونکہ یہ قوتیں ہماری آپس کی لڑائی کروا دیں گی۔ لہٰذا ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کوئی حکمت ترتیب دینی چاہیے۔
 
ASIM AHMED
About the Author: ASIM AHMED Read More Articles by ASIM AHMED: 2 Articles with 1204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.