تحریر:افشین درانی،گلشن اقبال، کراچی
ہر کوئی اس تلخ حقیقت کو محسوس کر رہا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت بڑھ گئی
ہے۔اس کے مظاہر آئے روز نظر آتے ہیں۔ انفرادی سطح پر معمولی باتوں کو لے کر
نوبت قتل و غارت گری تک آ جاتی ہے اور اجتماعی سطح پر طبقاتی جنگ اپنے پورے
عروج پر نظر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں یہ صورتِ حال حد درجہ تشویش کا
باعث ہونی چاہئے، مگر یہاں تو کیا سیاسی اشرافیہ، کیا علمائے کرام، کیا
دانشور اور کیا عمالِ تجارت سب عدم برداشت کو فروغ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
کسی زمانے میں صرف مسالک کی دوری ہوتی تھی،اب طبقاتی دوری اس کی جگہ لے چکی
ہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور میں وکلاء اور ڈاکٹروں کا معمولی تنازعہ بھی شرمناک
شکل اختیار کر گیاتھا، وہ بھی بد ترین عدم برداشت ہی کی ایک شکل ہے۔ تھوڑی
سی بھی برداشت دونوں طرف ہوتی تو جھگڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ
اتنا سنگین نکلتا۔ المیہ یہ ہے کہ اس بڑے واقعہ کے باوجود عدم برداشت کے
روّیے کو ختم نہیں کیا گیا اور آج بھی ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘
والا منظر ہے۔
یورپ میں جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تھی تو وہاں حکومت سمیت سب نے سر
جوڑ لئے تھے، حتیٰ کہ نسلی فسادات پر بھی خاموش ہو کر نہیں بیٹھ گئے
تھے،بلکہ ہم آہنگی کے لئے مل جل کر کوششیں کی گئی تھیں۔ آج بھی وہاں اگر
کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو پورا معاشرہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ایسے
عناصر کی بیخ کنی کے لئے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں ایک عجیب قسم کی لا
تعلقی نظر آتی ہے، عدم برداشت کو پھلنے پھولنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے،
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شعبے میں انتہا پسندی داخل ہو چکی ہے، یوں لگتا ہے
کہ ہم خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔سب سے بڑا جنگ و جدل کا سماع تو
ہمارے سیاست دانوں نے پیدا کر رکھا ہے۔ایک دوسرے سے نفرت، بول چال بند، میل
ملاقات ختم اور اوپر سے سخت زبان، حتیٰ کہ گالم گلوچ، خاندان پر حملے،
کردار کشی، دشنام طرازی غرض وہ سب کچھ جو عدم برداشت کو بڑھاتا ہے، ہماری
سیاست میں روا رکھا جاتا ہے۔ اس کے اثرات نیچے تک مرتب ہوتے ہیں۔ جب بات
کارکنوں کی سطح تک آتی ہے تو جان لیوا شکل اختیار کر لیتی ہے۔ سیاست نہ
ہوئی نفرت کی جنگ ہو گئی۔
|