قُرآن اور ذکرِ ذُوالقرنین !! { 5 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب . سُورةُالکہف ، اٰیت 93 تا 101 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
حتٰی
اذا بلغ بین
السدین وجد
من دونہما قوما
لا یکادون یفقھون
قولا 93 قالوا یٰذاالقرنین
ان یاجوج و ماجوج مفسدون
فی الارض فھل نجعل لک خرجا
علٰی ان تجعل بیننا و بینھم سدا 94
قال ما مکنی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوة
اجعل بینکم و بینھم ردما 95 اٰتونی زبرالحدید
حتٰی اذا ساوٰی بین الصدفین قال انفخوا حتٰی اذا
جعلہ نارا قال اٰتونی افرغ علیہ قطرا 96 فمااسطاعوا ان
یظھروہ وما استطاعوالہ نقبا 97 قال ھٰذا رحمة من ربی فاذا
جاء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقا 98 وترکنا بعضھم
یومئذ یموج فی بعض ونفخ فی الصور فجمعنٰھم جمعا 99 وعرضنا
جھنم یومئذ للکٰفرین عرضا 100 الذین کانت اعینھم فی غطاء عن ذکری
و کانوا لا یستطیعون سمعا 101
ذوالقرنین جب اپنی پہلی دو جنگی مُہمات کے بعد کا کیشیا کی طرف بڑھا تو وہ دو کو ہستانی دیواروں کے درمیان گھری ہوئی اُس وادی میں جا پُہنچا جس کے باشندے اُس کی زبان سے اَنجان تھے لیکن جب ترجمہ کاروں کی مدد سے وہ لوگ کُچھ کہنے سُننے کے قابل ہوۓ تو اُنہوں نے کہا کہ ھم ایک زمانے سے یاجُوج اور ماجُوج نام کے اُن دو شُعلہ مزاج قبائل کے ستم کا شکار ہیں جو آۓ روز آندھی اور طُوفان کی طرح وادی میں آتے ہیں اور لُوٹ مار کر کے واپس جاتے ہیں لیکن ھم اُن کے خلاف کُچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں ، اگر آپ اُن کے اور ھمارے درمیان ایک حفاظتی دیوار بنا دیں گے تو ھم آپ کے شُکر گزار ہوں گے اور اگر آپ چاہیں تو اِس کام کے بدلے میں ھم آپ کے لیۓ کُچھ خراج بھی جمع کر لیں گے ، ذُوالقرنین نے کہا کہ میرے رَب نے مُجھے جو دے دیا ھے میرے لیۓ وہی بہت اور وہی بہتر ھے لہٰذا تمہیں خراج جمع کرنے کی تو کوئی ضرورت نہیں ھے لیکن اِس کام کے لیۓ تُم مُجھے اپنی اَفرادی قُوت ضرور فراہم کردو تاکہ میں تُمہارے اور اُن لوٹ مار کر نے والے قبائل کے درمیان ایک مضبوط حفاظتی دیوار قائم کر دوں اور اِس کام کے لیۓ تُم ھمارے ساتھ مل کر پہلے اِس دَرّے کے درمیان لوہے کے بڑے بڑے تختے ایک ترتیب کے ساتھ لگادو ، ذُوالقرنین کے حُکم کے مطابق جب اُس دَرّے کے درمیان لوہے کے تختے لگا دیۓ گۓ تو اُس نے دُوسرا یہ حُکم دیا کہ اَب تُم لوہے کے اِن تختوں کے اِرد گرد آگ کا اتنا اَلاؤ بھڑکاؤ کہ لوہے کی یہ دیوار آگ کا انگارا بن جاۓ اور جب یہ کام بھی اُس کی خواہش کے مطابق مُکمل ہو گیا تو اُس نے کہا کہ اَب تُم اِس پر پگھلا ہوا تانبہ ڈال دو اور پھر جب اُس آہنی دیوار پر پگھلا ہوا تانبہ بھی ڈال دیا گیا تو آتش و آہن کے اِس عمل سے وہ دیوار اتنی مضبوط ہوگئی کہ اُس کو پھلانگ کر آنا یا اُس میں کوئی سُرنگ لگانا کسی طور پر بھی مُمکن نہ رہا ، جب حفاظتی دیوار کا یہ مرحلہ پایہِ تکمیل کو پُہنچ گیا تو ذُوالقرنین نے کہا یہ کام میرے رَب کی مہربانی اور رہنمائی سے مُکمل ہوا ھے اور جب میرا رَب اِس قوم کے خروج کا فیصلہ کر دے گا تو یہ دیوار خود بخود زمین میں دَھنس کر زمین کے برابر ہو جاۓ گی اور ایک نہ ایک دن میرے رَب کا یہ ہونے والا فیصلہ بہر طور ہو کر رھے گا ، یاجُوج اور ماجُوج کے اِس خروج کے بارے میں ذُوالقرنین جو کُچھ کہا ھے وہ ایک ایسا "نوشہِ مُستقبل" ھے جس نے پردہِ غیب سے ظاہر ہو کر رہنا ھے ، سَو جس روز ھم اُن دیوار گیر وحشی قبائل کو کُھل کھیلنے کے لیۓ کھول دیں گے تو زمین پر جنگ کا نقارہ بَج جاۓ گا اور وہ وحشی قبائل اَمواجِ سمندر کی طرح بلندیوں اور پستیوں کو روندتے ہوۓ ایک عالَمگیر تباہی لانے والی جنگ کے لیۓ میدانِ جنگ میں آجائیں گے جس کے بعد خالقِ جہان کے بیان کیۓ ہوۓ اِن حقائقِ جہان سے چشم پوشی کرنے والے لوگوں پر جہنم کے جان جلانے والے دھانے کُھل جائیں گے !
مطالب و اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ سابق و ماسبق اور اٰیاتِ بالا کے جن تین مقامات پر ذُوالقرنین کے عُرف سے معروف ہونے والے جس بادشاہ کا ذکر آیا ھے اُن تین مقامات میں سے اُس بادشاہ کے ذکر کا پہلا مقام اِس سُورت کی اٰیت 83 ھے جس میں پہلی بار قُرآنِ کریم کے نقل کیۓ ہوۓ ایک سوال میں اُس بادشاہ کا ذکر آیا ھے جس کی عُرفیت ذُوالقرنین ھے اور اِس ذکر کے بعد قُرآنِ کریم نے ذُوالقرنین کا وہ پُورا اَحوال بیان کیا ھے جو قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں موجُود ھے ، ذُوالقرنین کی عُرفیت کے ساتھ معروف ہونے والے اُس بادشاہ کے ذکرِ ثانی کا مقامِ ثانی اِس سُورت کی اٰیت 86 کا وہ مقام ھے جہاں پر اللہ تعالٰی نے اُس عظیم بادشاہ کو { قلنایٰذاالقرنین } کے عظیم خطاب سے مُخاطب کر کے اُس کے صاحبِ نبوت ہونے کی خبر دی ھے اور اِس بادشاہ و نبی یا نبی و بادشاہ کے ذکر کا تیسرا مقام اٰیاتِ بالا کا یہی مقام ھے جس مقام پر ذُوالقرنین سے ذُوالقرنین کی تیسری جنگی مُہم کے دوران ایک قوم نے مدد کی درخواست کی ھے اور ذُوالقرنین نے اُس قوم کی مدد کی درخواست پر اُس قوم کی مدد کی ھے ، ذُوالقرنین کی عُرفیت کے ساتھ معروف ہونے والا یہ بادشاہ چونکہ اللہ تعالٰی کا ایک نبی بھی ھے اسی لیۓ ھم نے عُلماۓ روایت کی اُس روایت کو رَد کیا ھے جس روایت میں عُلماۓ روایت نے پہلے تو قرن کا معنٰی سینگ کیا ھے اور پھر ایران کے ایک بادشاہ خورس کے سر پر دوسینگ سجا کر اُس بادشاہ کو ذُوالقرنین بنا دیا ھے حالانکہ وہ صرف ایک بادشاہ تھا نبی ہر گز نہیں تھا ، عُلماۓ روایت نے ذوالقرنین کی نبوت کی نفی کرنے کے لیۓ اگر چہ یہ تاویل بھی کی ھے کہ قُرآنِ کریم نے مُحولہ بالا اٰیت میں ذُوالقرنین کی جس وحی کا ذکر کیا ھے وہ اللہ تعالٰی کی ایسی ہی ایک خیالی وحی ھے جیسی خیالی وحی اللہ تعالٰی نے ایک پُختہ خیال کی صورت میں مُوسٰی علیہ السلام کی والدہ کی طرف کی تھی لہٰذا جس طرح مُوسٰی علیہ السلام کی والدہ اللہ کی طرف سے ایک نبیہ خاتون نہیں ہیں بلکہ صرف ایک خاتون ہیں اسی طرح ذُوالقرنین بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک نبی بادشاہ نہیں ہیں بلکہ صرف ایک بادشاہ ہیں لیکن عُلماۓ روایت کی یہ دلیل بھی ایک احمقانہ دلیل اور یہ تاویل بھی ایک سفیہانہ تاویل ھے کیونکہ وحی کے مِن جُملہ لُغوی معانی میں سے ایک لُغوی معنٰی اللہ تعالٰی کی طرف سے دل میں آجانے والا ایک پُختہ خیال بھی ہوتا ھے جیساکہ مادرِ مُوسٰی علیہ السلام کے دل میں اللہ تعالٰی نے ایک پُختہ خیال قائم کیا تھا اور مادرِ مُوسٰی کے اِس قلبی خیال کے لیۓ بھی وحی کا وہی لفظ استعمال کیا تھا جس کا ایک لُغوی معنٰی دل میں پیدا ہونے والا ایک پُختہ خیال ہوتا ھے لیکن قُرآنِ کریم کا یہ اَکلوتا وہ استعمال ھے جس کو نقلِ واقعہ کے طور پر جب کوئی پڑھنے والا قُرآن میں پڑھتا ھے تو اُس کے فہم و خیال میں اِس کا وہی مفہوم آتا ھے جو قُرآن کا مقصد و مَنشا ھے کیونکہ قُرآنِ کریم نے اُمِ مُوسٰی کے دل میں ڈالے گۓ اِس پُختہ خیال اور اِس اَکلوتے استعمال کو اُمِ مُوسٰی کے ساتھ خاص کر دیا ھے اور اُمِ مُوسٰی کے بعد زمین پر کسی بڑے سے بڑے انسان کے کسی الہامی خیال کو یہ درجہ حاصل نہیں ھے کہ اُس کو بُنیاد بنا کر اُس شخص کو مُرشد و شیخ کا درجہ دیا جاۓ اور اُس کے کسی پُختہ خیال کو اللہ تعالٰی کا کوئی کشفی یا الہامی حُکم سمجھا جاۓ لیکن جہاں جہاں تک ذُوالقرنین کی وحی کا تعلق ھے تو ذُوالقرنین پراللہ تعالٰی نے وہ وحی اپنے حرفِ قال کے ساتھ نازل کی ھے جو اُمِ مُوسٰی کے دل میں پیدا ہونے والے ایک وقتی خیال کی طرح کی چیز نہیں ھے بلکہ مُوسٰی علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحیِ نبوت کی طرح کی ایک وحیِ نبوت ھے ، مزید براں یہ کہ قُرآنِ کریم نے اٰیات بالا میں ذُوالقرنین کی مُجرد نبوت کا اعلان ہی نہیں کیا ھے بلکہ اٰیات بالا میں ذکرِ ذُوالقرنین کے ساتھ اُس لوہے اور اُس تانبے کے صنعتی استعمال کا بھی ذکر کیا ھے جو سلیمان علیہ السلام کے عھدِ سلیمانی کے ساتھ خاص تھا تاکہ جب بھی قُرآن کی اٰیاتِ بالا کو پڑھنے والا انسان قُرآن کی اٰیات کو پڑھے تو اُس کا خیال اپنی علمی و فکری جہالت کی بنا پر ایران کے بادشاہ خورس مُتوفٰی 529 قبل مسیح پر ہی نہ رُک جاۓ بلکہ اُس کا قُرآنی طائرِ خیال 992 تا 924 قبل مسیح تک بھی جاۓ اور پھر اُس کو اپنے خیال میں اللہ تعالٰی کا وہ نبی سلیمان بھی نظر آۓ جس کے بارے میں قُرآنِ کریم نے سُورةُالاَنبیاء کی اٰیت 78 و 79 ، 81 و 82 ، سُورہِ نمل کی اٰیت 15 ، 16 ، 17 ، 18 ، 30 ، 36 ، 44 ، سُورہِ سبا کی اٰیت 10 ، 12 اور سُورہِ ص کی اٰیت 30 ، 34 اور 38 میں وہ ساری کی ساری تفصیلات بیان کردی ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کے کاریگر لوہے کو اور تانبے کو پگھلانے کا کام کس طرح کرتے تھے ، وہ اپنے بناۓ ہوۓ ہوائی جہازوں پر بیٹھ زمین کے ایک گوشے سے دُوسرے گوشے تک کس طرح جاتے تھے اور اُن کی مادی ترقی کا یہ عالَم تھا کہ اُن کو عالَمِ موجُود کی بیشتر مخلوق سے یہ سارے کام لینے کا ہُنر بھی آتا تھا ، عُلماۓ تاریخ و آثار کے مطابق قدیم زمانے کے مقامِ ایلات اور بعد کے زمانے کے شہر عقبہ سے ماہرین کو کُھدائی دوران سلیمان علیہ السلام کے وہ کارخانے بھی مل چکے ہیں جن میں اُن کے کاریگر تانبا بھی پگھلاتے تھےاور سامانِ تَماثیل بھی ڈھالا کرتے تھے ، اگر قُرآن کریم نے اپنی مُتعدد اٰیات میں لوہے و تانبے کے ایک عظیم قومی صنعت کار کے طور پر سلیمان علیہ السلام کا نام لیا ھے اور اٰیاتِ بالا میں لوہے و تانبے کے ایک عظیم استعمال کار کے طور پر ذُوالقرنین کا ذکر کیا ھے تو قُُرآنِ کریم نے اُس ایک ہی ہستی کا ذکر کیا ھے جس کا نام سلیمان اور لقب ذُوالقرنین تھا ،آخر اِس اَمر کے مان لینے میں کیا رکاوٹ ھے کہ سلیمان و ذُوالقرنین ایک ہی شخصت کے دو پر تَو تھے اور اِس اَمر پر بضد ہونے کا کیا جواز ھے کہ خورس و ذُوالقرنین ایک ہی انسان کے دو جُداگانہ نام تھے سواۓ اِس کے کہ پہلی بات قُرآن کی اٰیاتِ بینات سے ثابت ہوتی ھے اور دُوسری بات کو روایاتِ باطلہ کی سان پر چڑھا کر سیدھا کیا جاتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457718 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More