#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیات 102 تا 108
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افحسب
الذی کفروا ان
یتخذوا عبادی من
دونی اولیاء انا اعتدنا
جھنم للکٰفرین نزلا 102 قل
ھل نبنئکم بالاخسرین اعمالا 103
الذین ضل سعیھم فی الحیٰوة الدنیا
وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا 104
اولٰئک الذین کفروا باٰیٰت ربھم ولقائہٖ فحبطت
اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیٰمة وزنا 105 ذٰلک
جزاؤھم جھنم بما کفروا واتخذوااٰیٰتی ورسلی ھزوا
106 ان الذین اٰمنوا وعملوا الصٰلحٰت کانت لھم جنٰت
الفردوس نزلا 107 خٰلدین فیہا لایبغون عنھا حولا 108
اے ھمارے رسُول ! اَندھوں کو بینائی اور نادانوں کو دانائی دینے والے اِن
واقعاتِ عبرت و بصیرت کے بعد اَب آپ مُنکرینِ حق پر یہ بات بھی واضح کر دیں
کہ اگر اِن لوگوں کو یہ گمان ھے کہ وہ ھمارے فرماں بردار بندوں کو ھمارے
بناۓ ہوۓ مُشفقانہ قوانین سے ہٹا کر ھمارے غیر کے بناۓ ہوۓ وحشیانہ قوانین
پر چلائیں گے تو اِن کے خلاف ھماری سزا کا تازیانہ حرکت میں نہیں آۓ گا تو
یہ محض اِن کا ایک گمان ھے ، حقیقت یہ ھے کہ ھم نے اپنے قوانین سے بغاوت و
سرکشی کرنے والوں کے لیۓ جھنم کی وہ وادی تیار کر رکھی ھے جو اِن جیسے
بدترین لوگوں کے لیۓ ایک بدترین ٹھکانا ھے ، ھم نے جھنم کے راستے پر گامزن
ہونے والے جن لوگوں کا ذکر کیا ھے وہ اپنے اِس خیال کے تحت نظامِ اِلٰہی سے
نکل کر نظامِ کفر شاہی میں داخل ہوۓ ہیں کہ وہ حیاتِ دُنیا میں جو کُچھ کر
رھے ہیں وہی اُن کے حق میں بہتر ھے ، آپ اِن لوگوں سے کہیں کہ تُمہارے لیۓ
سب سے بہتر بات تو یہ ہوتی کہ تُم غور و فکر کر کے خود ہی راہِ حق پر آجاتے
لیکن خیر تُم غور و فکر کرو یا نہ کرو ھم تُم پر یہ بات واضح کیۓ دیتے ہیں
کہ ھماری دُنیا کے سب سے زیادہ خسارہ کار لوگ وہ ہیں جنہوں نے ھماری اٰیات
کا انکار کیا ھے اور جنہوں نے اللہ کے سامنے اپنے اعمالِ بَد کی جواب دہی
پر بھی یقین نہیں کیا ھے ، اِن لوگوں کے اِس غیر منطقی خیال کے باعث اِن کے
اعمالِ خیر کُچھ اِس طرح سے نیست و نابُود ہو چکے ہیں کہ یومِ حساب کے
موقعے پر اِن کے اعمال کا وزن کرنے کے لیۓ ترازُو قائم کرنے کی بھی ضرورت
نہیں ہوگی کیونکہ اِن کا یہ غیر منطقی طرزِ عمل بذاتِ خود ہی اِن کے خلاف
اِن کی ایک فردِ جُرم بن جاۓ گا ، جس کی وجہ سے یہ لوگ اُس وادی جھنم میں
جانے اور رہنے کے حق دار ہو جائیں گے کیونکہ اِن لوگوں نے ھماری بہت ہی
واضح اٰیات کا بہت ہی واضح انکار کیا ھے اور ھمارے رسولوں کی بھی تضحیک کی
ھے بخلاف اِس کے کہ جن لوگوں نے ھماری اٰیات کا یقین کیا ھے ، ھمارے رسولوں
پر اعتبار کیا ھے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق بہترین اعمال اَنجام
دیتے رھے ہیں وہ ھماری اُس جنتِ فردوس کے مُستحق ہیں جس میں اُنہوں نے جانا
اور رہنا ھے ، یہ ھماری وہ حسین جنت ھے کہ جو انسان ایک بار اِس جنت میں
چلا جاۓ گا اُس کو اِس جنے سے نکلنے کا کبھی بھی خیال نہیں آۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے سُورةُالکہف کے حرفِ اَوّل سے اَب تک انسان کو انسانی تاریخ
کے جو دو چھوٹے اور تین بڑے واقعاتِ عبرت و بصیرت سُناۓ ہیں اُن پانچ
واقعاتِ عبرت و بصیرت کے بعد اَب اِس سُورت کے اِس مُنتہاۓ کلام میں قُرآن
نے انسان کو انسان کے اُن اجزاۓ ایمان و یقین کی طرف متوجہ کیا ھے جو
اَجزاۓ ایمان و یقین انسان کی حیات بالخیر اور نجات مع الخیر کا باعث ہوتے
ہیں ، انسانی ایمان و یقین کے اُن ہی اَجزاۓ خیر کا ایک معروف جُزوِ خیر
انسان کا حیات کے بعد موت اور موت کے بعد ملنے والی ایک حتمی حیات کا وہ
ایمان یقین ھے جس ایمان و یقین کے ساتھ ہر ایک انسان ایک عارضی جہان کی
عارضی حیات سے ایک دائمی جہان کی دائمی حیات کی طرف بڑھ رہا ھے ، قُرآنِ
کریم نے مُحوّلہ بالا اٰیات کے مجموعی و تاثراتی مضمون میں سب سے پہلے
انسان کو انسان کے اِس سفر اور زادِ سفر کے حوالے سے یہ بات بتائی ھے کہ
عالَم کی ہر مخلوق اللہ تعالٰی کے ایک اَزلی و اَبدی قانون کے مطابق اَزل
سے اَبد کی طرف محوِ سفر ھے اور اللہ تعالٰی کے اُسی قانونِ فطرت کے تحت
مَحوِ سفر ھے جس قانون کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ وقتاً فوقتاً اللہ تعالٰی
کے مُختلف اَنبیا و رُسل اہلِ زمین کی طرف آتے رھے ہیں اور جس کتابِ جہان
کے ذریعے عھدِ حاضر کے انسانِ حاضر کو یہ اَحوالِ جہان سُناۓ جا رھے ہیں وہ
اللہ تعالٰی کے اُس قانونِ موجُودکی اُس آخری کتابِ موجُود میں موجُود ہیں
جو ہر انسان کو اِس قانونِ موجُود کی تعلیم دیتی ھے جس قانون کے مطابق
انسان نے حیات سے موت اور موت سے اپنی اُس حتمی حیات تک عمل کرنا ھے جو اُس
کے ارتقاۓ حیات کی ایک طویل اور جلیل منزل ھے لیکن عالَم میں بَدی کی جو
مزاحمت کار قوتیں موجُود ہیں وہ قوتیں انسان کو اِس قانون سے برگشتہ کرنے
کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں تاکہ انسان اپنی منزلِ مقصود تک پُہنچنے سے
پہلے ہی راستے کے کسی تاریک مقام پر اِس طرح گر جاۓ کہ اِس کے اُٹھنے اور
اُٹھ کر آگے بڑھنے کی نوبت ہی نہ آۓ ، قُرآنِ کریم کی یہ اٰیات اور اسی
مفہوم کی حامل دُوسری بہت سی اٰیات بتاتی ہیں کہ جو لوگ اپنے نفسِ اَمارہ
کی تحریص ، شیطانِ رجیم کی ترغیب یا روایت پرستی کے مرض کے باعث اِس سفر کے
جس مقام پر گر جاتے ہیں وہ اُسی لَمحے اور اُسی مقام پر جہنم کی اُس وادی
میں گِھر جاتے ہیں جس وادی میں ملنے والی ہر سزا ، ایک سزاۓ لازوال ھے اور
جو لوگ اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کی اتباع کرتے ہوۓ اپنے ایمان و یقین
کے ساتھ بِلا تردد و بِلا تکان دَم لیۓ بغیر اپنے راستے پر مُسلسل چلتے
رہتے ہیں وہ جنت کی اُس وادی میں پُہنچ جاتے ہیں جس وادی میں ملنے والی ہر
جزا ، ایک جزاۓ لازوال ھے ، ہر چند کہ جزا و سزا کا یہ مضمون قُرآنِ کریم
کی بہت سی اٰیات کا ایک مُشترکہ مضمون ھے لیکن اٰیاتِ بالا میں بیان ہونے
والے اِس مضمون کی مُنفرد بات انسان کو دی جانے والی یہ اطلاع ھے کہ دُنیا
اور آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اُٹھانے اور سب سے زیادہ سزا پانے والے وہ
لوگ ہیں جو غیراللہ کے اَحکام کو قبول کر کے اپنے اَچھے اعمال کو بھی ضائع
کر دیتے ہیں اور جو لوگ اپنی اِس گُمراہی سے اپنے اَچھے اعمال ضائع کر دیتے
ہیں قیامت کے روز اُن کے اعمالِ خیر و شر کی جانچ پرکھ کے لیۓ کسی میزانِ
وزن کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ اعمال کی جانچ پر کھ کے اِس قانون
کا اطلاق اُن لوگوں کے اعمال پر ہوتا ھے جن کے کھاتے میں اَچھے اور بُرے
دونوں طرح کے اعمال ہوتے ہیں اور اُن اعمال کو میزان کے اَوزان سے اِس لیۓ
گزارا جاتا ھے تاکہ اُس انسان کو وزنِ میزان کی دلیل سے بتایا جاۓ کہ اُس
کے اَچھے اعمال زیادہ ہیں اور اِس بنا پر وہ وادیِ جنت میں جانے کا حق دار
ھے اور جس انسان کے بُرے اعمال زیادہ ہوتے ہیں اُس انسان کو وزنِ میزان کی
دلیل سے سمجھایا جاتا ھے کہ اُس کے اعمال میں خیر کا توشہ کم ھے اِس لیۓ
وادیِ جہنم میں جانے کا مُستحق قرار پایا ھے لیکن جس انسان نے ترکِ اٰیات و
اختیارِ روایات کی معصیت کر کے اپنے اعمالِ خیر ضائع کر دیۓ ہوتے ہیں وہاں
پر اُس کو کسی وزنِ میزان کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ کوئی تاخیر کیۓ
بغیر ہی دُنیا کی چھوٹی جہنم سے نکل کر عُقبٰی کی بڑی جہنم میں جانے کے لیۓ
بیتاب ہوتا ھے ، قُرآنِ کریم نے اُن گُم راہ لوگوں کی جو علامت بیان کی ھے
وہ یہ ھے کہ یہ لوگ دین کے نام پر گُم راہ ہوتے ہیں اور دین کے نام پر ہی
دُوسرے انسانوں کو بھی گُم راہ کرتے ہیں کیونکہ وہ اِس گمھنڈ کا شکار ہوتے
ہیں کہ وہ جو کُچھ کر رھے ہیں وہ سب درست ھے اور دُوسرے لوگ جو کر رھے ہیں
وہ سب کا سب غیر درست ھے ، اِن کی اِس کُھلی گُم راہی کا کُھلا کُھلا سبب
یہ ھے کہ وہ اللہ تعالٰی کی اُن زندہ اٰیات پر ایمان و یقین نہیں رکھتے جو
زندگی دیتی ہیں بلکہ یہ انسان سے انسان تک پُہنچنے والی اُن مُردہ روایات
پر ایمان و یقین رکھتے ہیں جو مردُود اور مُردہ روایات انسان کو مُردے سے
مُردہ تَر کر دیتی ہیں !!
|