مذہبی منافرت اور اقبال کا پیغام

 ڈاکٹرنزہت جاوید،کراچی
مذہبی منافرت کے خاتمہ کے لیے آج بھی شاعر مشرق کی محبت اوررواداری کا پیغام پاکستان اورہندوستان دونوں کے اندر پائی جانے والی مذہبی بنیاد پر زہر افشانی کے سد باب کے لیے ایکاکسیر نسخہ ہے۔ ویسے تو ان کے پورے کلام میں انسانیت سے محبت کا درس ملتا ہے مگرہم یہاں ان کی شاعری کی سب سے پہلے دور کی ایک نظم نیا شوالہ کے چند اشعار زیر بحث لاتے ہیں۔ جس میں اسلام کی آفاقیت کے پر چار کے ساتھ ساتھ ہندو ذہنیت میں تبدیلی لانیکی بات کی گئی ہے جس میں علامہ صاحب نے ہندو اورمسلم شدت پسندی دونوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے بلکہ اس نظم کے پہلے مخاطب تو ہندوبرہمن ہیں جو مسلمان تو کیا نچلی ذات کے ہندو کو بھی اپنا حصہ نہیں مانتے۔شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ سے کسی نے پوچھا کہ عقل کی انتہاء کیا ہے آپ نے جواب دیا کہ عقل کی انتہاء حیرت ہے۔ سوال کرنے والے نے دوبارہ پوچھا کہ حیرت کی انتہاء کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ حیرت کی انتہاء عشق ہے۔اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عشق کی انتہاء کے بارے میں سوال کر دیا کہ جس پرعلامہ صاحب نے زور دے کر کہا کہ عشق بے انتہا و بے کنار ہوتا ہے،اسکی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ اس پر اس شخص نے آپ کو یاد دلاتے ہوئے آپ ہی کے شعر کاحوالہ دیا اورکہاکہ عشق اگر بے انتہاء ہے تو پھر آپ نے اپنے شعر میں یہ کیا کہا ہے کہ تیرے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں، علامہ صاحب مسکرائے اورکہاکہ شعر کے دوسرے مصرے میں اس کا جواب موجود ہے آپ نے غور نہیں کیا کہ میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں منافرت کے خاتمہ کے لیے آج بھی شاعر مشرق کی محبت اوررواداریکا پیغام پاکستان اورہندوستان دونوں کے اندر پائی جانے والی مذہبی بنیاد پر زہر افشانی کے سد باب کے لیے ایک اکسیر نسخہ ہے۔ ویسے تو ان کے پورے کلام میں انسانیت سے محبت کا درس ملتا ہے مگرہم یہاں ان کی شاعری کی سب سے پہلے دور کی ایک نظم نیا شوالہ کے چند اشعار زیر بحث لاتے ہیں۔ جس میں اسلام کی آفاقیت کے پر چار کے ساتھ ساتھ ہندو ذہنیت میں تبدیلی لانیکی بات کی گئی ہے جس میں علامہ صاحب نے ہندواورمسلم شدت پسندی دونوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے بلکہ اس نظم کے پہلے مخاطب تو ہندوبرہمن ہیں جو مسلمان تو کیا نچلی ذات کے ہندو کو بھی اپنا حصہ نہیں مانتے۔سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو بْرا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پْرانے علامہ صاحب نے نئے دور کا خواب دیکھا تھا اس میں انہیں شدت پسندی عقیدے کی بنیاد پر خون ریزی ایک فرسودہ بات لگتی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے بر ہمن کو کہا کہ تمہاے بھگوان پرانے ہو گئے اب یہ نہیں چلے گا انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ مودی کے ہندوستان کے بت خانوں کی انتہاء پسندی کم ہونے کی بجائے پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ اگلے شعر میں انہوں نے بر ہمن کے ساتھ ساتھ مْلا کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا’’اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا،جنگ و جدل سکھایا ،واعظ کو بھی خدانے’‘ اس میں انہوں نے شدت پسندی اورمنافرت پر چوٹ کی ہے کہ مذہب تو انسانوں سے محبت سکھاتا ہے مگر ہندوستان میں مذہب کے نام پر جنگ و جدل کا بازار گرم ہے۔ ان کا مطلب ہے کہ جنگ جغرافیائی بنیاد پر ہوتی ہے ،ایک ہی ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے پیروکار اپنے ہی ہوتے ہیں، علامہ صاحب پرتنقید کے لیے لبرل اورمذہبی انتہاء پسند اکھٹے ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا کہا ہے حالانکہ یہ اسلام کے عین مطابق ہیکہ ایک اسلامی ملک میں رہنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو شہریت کے برابر حقوق حاصل ہوں گے اورانہیں اپنے مذہبی عقائد کی پوری آزادی ہو گی۔
 

Sara Farooqi
About the Author: Sara Farooqi Read More Articles by Sara Farooqi: 3 Articles with 2436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.