خالدمحمود،کراچی
آج کا عالمی بحران مذہبی، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کو
بری طرح متاثر کر رہا ہے جس کے باعث مختلف معاشروں میں بے چینی، نفرت اور
اضطراب کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے اس لئے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے
کو دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہاں
یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہر مذہب کی اپنی زبان اور روایات ہوتی ہیں
جو عوام کو بنیادی انسانی قدریں عطا کرتی ہے۔ جس سے انسانی معاشرہ بہتری کی
طرف بڑھتا ہے اور یہ قدریں اس سوسائٹی کے نگران کا کردار ادا کرتی ہیں۔
دنیا Global Village بن گئی ہے، کسی بھی ملک میں ہونے والے واقعات کو بیک
وقت پوری دنیا میں دیکھا جاتا ہے اور یہ دنیا کی مختلف تہذیبوں کے افراد پر
اثر انداز ہوتے ہیں۔ جہاں شعور و آگہی دیتے ہیں وہاں یہ مختلف مذاہب اور
تہذیبوں کے پیروکاروں کے بارے مثبت یا منفی رویوں کو بھی جنم دیتے ہیں اس
لئے ایسی کوششوں کی عالمی سطح پر ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے تمام
مسالک اور مذاہب کے درمیان مثبت رابطہ پیدا کر کے دنیا میں اس حوالے سے
پائی جانے والی مشکلات کو انتہائی کم کیا جا سکے۔
ماضی میں مذہبی طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مختلف کوششیں
ہوئیں مگر اس کے مثبت اثرات پیدا نہ ہو سکے۔ مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے بنائے
ہوئے ’’دین الٰہی‘‘ کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کی سعی کی
مگر یہ طریقہ غیر فطری تھا اس لئے ناکامی سے دوچار ہوا، اسی طرح بھارت میں
’’رام اور رحیم‘‘ کے فلسفہ کو بھی کامیابی نہ مل سکی اس کی وجہ یہ تھی کہ
دونوں کوششوں کا حقیقت پسندانہ اپروچ سے دور کابھی واسطہ نہ تھا۔
مذہبی طبقات میں ڈائیلاگ کا دروازہ کھولنے کے لئے اسلام کا فلسفہ نہایت
حقیقت پسندانہ ہے۔ اسلام نظریاتی اختلاف کو قبول کرتا ہے۔ برداشت، احترام
اور محبت کی پالیسی کو تبھی تشکیل دیا جاسکتا ہے جب آپ دوسرے کے نظریات کو
احترام دے کر اختلاف کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ
اچھے معاشرے کی تشکیل کے لئے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پر
امن معاشرے کی تشکیل کے لئے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے، اختلافات کو
سمجھنے کے بعد ہی دوسرے عقائد اور مذاہب کا احترام جنم لیتا ہے اور اس طرح
ہی مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔
اسلام نے اس حوالے سے جو نہایت اہم اصول وضع کیا ہے، اس میں مذاہب کی بجائے
مذہبی افراد کے مابین Harmony کی ضرورت ہے کیونکہ مذاہب کے درمیان فرق کو
ختم نہیں کی جا سکتا۔ اسلام کے دیئے ہوئے اس زریں اصول کی آج دنیا کو ضرورت
ہے۔ ہر مذہب کے پیروکاروں کے اپنے عقائد ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا
کہ وہ دوسرے کے مذہب یا عقائد کے حوالے سے زبان کھولے۔ اختلافات کو سمجھ کر
مذاہب کے مشترکات کو جمع کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ آج تعلیم، اٹانومی،
مذہبی و روحانی اخلاقیات، مذہبی اور سماجی خدمات، گلوبل آؤٹ لک، ماحولیاتی
تبدیلیوں، سوشل سکیورٹی، سائنس و ٹیکنالوجی، شخصی آزادی، ملٹی کلچرل ازم
اور امن کے قیام جیسی درجنوں مشترکات پر مل کر کام کیا جانا چاہیے۔
|