رمضان المبارک کے تقاضے ۔مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔۔لمحہ فکریہ !

 اذان حق۔۔۔۔ ابو فیصل محمد منظور انور

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان نابود۔۔۔۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود ( اقبال)

۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت ہے اور ( اس میں)ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی نشانیاں ہیں پس تم میں سے جو کوئی اس کوپائے تو وہ ضرور اس کے روزے رکھے ۔ سورۃ البقرہ۔۔آیۃ ۱۸۵۔

رمضان المبارک فیوض و برکات کامہینہ ہے۔ جس میں نزول قرآن ہوا اور اس میں روزے رکھنا فرض کیا گیااور روزہ دراصل ایک روحانی تربیت ہے۔ارکان اسلام میں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کو تما م عبادات کا سردار کہا جا سکتا ہے ۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ۔کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے کسی ایسے کام کا حکم دیجئے کہ جس کے کرنے سے اﷲ تعالیٰ مجھے نفع دے۔آپ ﷺ نے فرمایا ،، تم روزوں کو لازم پکڑوکیونکہ اس جیسا کام کوئی نہیں ،،(سنن نسائی) ۔

روزہ کے مقبول ہونے کیلئے ضر وری ہے کہ انسان حلال روزی کمائے محض کھانے پینے کو ترک کر دینے کا نام روزہ نہیں بلکہ آنکھ ،دماغ ،منہ اور ہاتھ پاؤں سمیت تمام اعضاء کی حفاظت کی جائے تو روزہ درست ہوتا ہے۔ لہٰذا روزہ دار کو چاہیے کہ اپنے جسم کے ہر عضو کو کنٹرول کرے ماہ رمضان کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں روزہ دارکی فرض نمازوں کا ثواب 70گنازائد کر دیا جاتا ہے ۔سنتوں کا ثواب فرائض اور نوافل کا ثواب سنتوں کے برابر کر دیاجاتا ہے ۔ماہ مبارک کے پہلے عشرے میں رحمت دوسرے میں مغفرت اور آخری عشرہ دوزخ سے نجات کاہے ۔صرف افطاری کے وقت ایسے ہزاروں افراد بخش دئیے جاتے ہیں جن پر دوزخ واجب کر دی گئی ہو ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا وہ شخص بڑا بد نصیب ہے جس نے اپنی زندگی میں رمضان المبار ک کا مہینہ پایا اور جہنم سے نجات نہ پاسکا۔۔ رمضان کا پہلا عشرہ گزرنے کو ہے اورچند دن بعدعید الفطر کی آمد آمد ہے۔اور ہمارے ہاں رحمتوں ،بخششوں اور معافیوں کا سامان لیکر آنیوالے ما ہ صیام میں کیا ہو رہاہے ۔ آمد رمضا ن المبارک کے ساتھ ہی ملکی سطح پر مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے جسے کنٹرول کرنے کی ناکام کوششیں جارہی ہیں ۔ بد دیانت عناصر اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ ایک کافر ملک آسٹریلیا کے تاجروں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے رمضان المبارک کے مہینے میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں50% تک کمی کا اعلان کر دیا ہے۔مگرکلمہ طیبہ کا ہمہ وقت ورد کرنے والے ایک مسلمان ملک کے تاجروں نے حسب روایت عام حالات کے مقابلے میں ماہ صیام کے آنے سے قبل ہی اشیائے خورد و نوش اور اشیائے صرف کی قیمتیں ا نتہائی حد تک بڑھا دیں۔مجھے اس وقت بڑا تعجب ہوا جب گوالے نے رمضان کے پہلے ہی دن دودھ کی قیمت دس روپے فی لیٹربڑھانے کی اطلاع کر دی۔اسی مہینے درزیوں نے ایک سو روپے فی جوڑا سلائی بڑھانے اور مٹھائی فروشوں نے بھی قیمتیں بڑھانے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اس مقدس مہینے اور عیدالفطر کے اسلامی تہوار کو ہمارے تاجروں اوردکانداروں نے کمائی کا سیزن بنا رکھا ہے۔کراچی کے ایک تاجر رہنماء کی ویڈیو موجود ہے جس میں وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ اس ایک مہینے اور عیدالفطر کے ایام کی کمائی سارے سال کی آمدنی سے زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ سن کر تعجب ہواکہ ہمارا تاجر طبقہ ہوس زر میں کس قدر گر چکا ہے کہ وہ سارے سال کے عام دنوں کے مقابلے میں ماہ مبارکہ اور اسلامی تہوار عیدالفطر کے ایام میں ناجائزمنافع خوری کرکے اپنی جیبیں بھرتا ہے ۔اﷲ کی پناہ! خاص و عام یہ کیسے مسلمان ہیں جو ناجائز منافع خوری کرکے دوسروں کی جیبیں کاٹ کر اور انھیں اَذِیتیں دے کراس ناجائز کمائی پر خوش ہوتے ہیں۔ ان کا ضمیر انھیں ملامت نہیں کرتا۔عاقبت نااندیش بد دیانت تاجروں کی یہ روش برسوں سے جاری ہے۔ ہر سال ماہِ صیام میں پہلے کی نسبت اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور امسال بھی ایسا ہی ہو رہاہے ۔ہمارے ایمان و اسلام کا معیار کیا ہے ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ حرام و مردارجانوروں کے گوشت فروخت کئے جا نے کے قصے زبان زد خاص عام ہیں، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کم تولنے، جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت، چوریاں، ڈکیتیاں ،لوٹ مار ،قتل وغارت کرنے اورکمسن بچوں،بچیوں اور حوا کی معصوم بیٹیوں کو بے آبرو کرکے قتل کئے جانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہمارے معاشرتی اخلاقی انحطاط کا عکاس ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی لادین معاشرے کا حصہ ہیں جہاں جنگل کے قوانین نافذ ہیں اور عدل وانصا ف فراہم کر نے والے ادارے موجود ہی نہیں ہے۔ رمضان المبارک ہمیں صبروتحمل ،غمگساری، برداشت، بر دباری اور ایثار کا درس دیتا ہے مگر ہم عملی طور پر ان اوصافِ حمیدہ کو اپنانے سے دور ہی رہتے ہیں اور وہ سارا کچھ کر گزرتے ہیں جس سے منع فرمایا گیا اور اس طرح رمضان المبارک کی روح کے منافی ہی سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ عوام کی اکثریت ماہِ صیام کی برکتیں، رحمتیں، بخششیں اور مغفرت سمیٹنے کی بجائے جہنم کے دروازے پر دستک دینے کو بے چین نظر آتی ہے۔افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ ،اداکار( میراثی اور کنجر ) قسم کے لوگوں اور ناچنے گانے والی طوائفوں کو، آئیڈل بنا کر پیش کیا جا تا ہے اور انھیں وی آئی پی کا درجہ دیکرپروٹوکول دیا جاتا ہے ۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف اور صدر پاکستان ایسے اعلیٰ منصب پر فائز رہنے والے مسٹر آصف علی زرداری اینڈ کمپنی کی لوٹ مار کے خلاف درج مقد مات اور عدالتوں میں پیشیوں پر مکمل وی آئی پی پرو ٹوکول، عدالتی ٹرائل کا ڈرامہ اور پھر اعلیٰ عدلیہ کی آشیر باد سے سزا یافتہ کئی بڑے مجرموں کی بغیر زر ضمانت بیرون ملک روانگی ہمارے نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے ؟۔ کہ یہاں امیر وغریب افراد کے لئے عدل و انصاف کے پیمانے الگ ہیں۔موجودہ احتسابی ڈرامہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہے۔ جس کا کئی سال گزرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ مجرموں کی اکثریت ضمانت پر رہاہو چکی ہے اور اکثر مجرم لوٹی ہوئی دولت کے سہارے ملک و بیرون ملک عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں یا پھر اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں۔حالیہ عدالتی فیصلوں سے عیاں ہوتا ہے کہ ہم نظام عدل وانصاف کے اعلیٰ معیار اور اسلامی اخلاقی اقدار سے کوسوں دور ہیں ۔ بد معاش و بدکردار عناصر کی عدالتوں میں پیشیوں پر ان پر پھول نچھاور کئے جانے کے مناظر ٹی وی پرمیں ملک کی عوام مزے لے لے کر دیکھتی ہے اور واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔سنگین جرائم میں ملوث عناصر کو عزت واحترام دینے والا پروٹوکول دینے پر بھی پورا معاشرہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہو تو ایسے بے حس معاشرے زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔ کاش ایسے گمراہ عناصر کو اس ماہ مبارکہ میں توبہ تائب ہونے کی توفیق مل جائے کہ ملک و ملت کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس کرکے اپنی عاقبت سنوار لیں۔ برسوں سے روایت چلی آرہی ہے کہ ماہ صیام میں کرکٹ کے میچز کے لئے فنڈنگ کر نے والے اسلام دشمن سپانسرز اس مقدس مہینے کے شب وروزکو کھیل تماشے کا رنگ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔الیکٹرانک میڈیا چینلز اورکیبل والوں کا تو شاید خدا کے احکامات پر ایمان ہی نہیں ہے ۔عوام کو دین ومذہب سے بیزار کرنے کاکوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں ہونے دے رہے رمضان ٹرانسمشن میں شوبز دنیا کی اداکاروں کو جو سارا سال رقص و سرود کی محفلیں سجاتی ہیں کودین اسلام کی تشریح کیلئے بٹھا دیا جاتا ہے اس طرح عریانی اور فحاشی کے مناظر دکھاکر مقدس لمحات ضائع کر ا دئیے جاتے ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مصنوعی مہنگائی، برائی، بے حیائی اور عریانی وفحاشی پر سنجیدہ حلقے اور مذہبی طبقہ بھی خاموش تماشائی بنا بیٹھا چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ یہ صورت حال پوری قوم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں ان مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھا کر ا پنے طور طریقے بدلنے چاہئیں ۔ حکمران قانون وانصاف کی بالا دستی قا ئم کرکے احتسابی عمل کو نتیجہ خیز بنائیں ۔فضول قسم کے شغل میلوں اور لغویات کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کریں۔تاکہ ہماری نوجوان نسل اس مہینے کے فیوض وبرکات سے فیضیاب ہو سکیں ۔ ہم ماہ صیام میں اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔تلاوت قرآن مجید کو معمول بنائیں پیغام قرآن کوسمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا عزم کریں ۔ہر معصیت اور گناہ سے دور رہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال سے صدقہ وخیرات کریں۔ دینی کتابوں کا مطالعہ کریں، فرائض کے ساتھ ساتھ سنتوں اور نوافل کا بھی اہتمام کریں اور اس ماہ مبارکہ میں اپنی اصلاح کے لئے حتی المقدور کوششیں کریں تاکہ جہنم کی پرخاروادی سے دور رہ کرابدی زندگی کی لذتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔ اس وقت کثرت سے اور اجتماعی توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔ اپنی غلطیوں لغزشوں اورگناہوں کی معافی ما نگیں اور استغفار کریں تاکہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کودرپیش مسائل اورا غیار کی غلامی سے نجات دلائے، آمین۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود ۔۔۔۔ یہ وہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

 

Muhammad Manzoor Anwar
About the Author: Muhammad Manzoor Anwar Read More Articles by Muhammad Manzoor Anwar: 3 Articles with 1295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.