اردو اسکولوں کی زبوں حالی٬ ہے کوئی اسکا پرسانِ حال؟

حصولِ تعلیم یاترقی کے نام پر اردو زبان اوراردو مڈیم اسکولوں کی بھینٹ۔۔۔
قوتِ فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے؛ پھر کسی قوم کی شوکت پے زوال آتا ہے

آج کے اس دور کوہم تعلیمی دور یا تعلیمی انقلابی دور سے موسوم کر سکتے ہیں اور زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے ہمارے معاشرہ میں بھی تعلیمی بیداری پیدا ہو رہی ہے ؛دراصل یہ ایک طرح کا شعور ہے جو صرف جاگ چکا ہے ؛لیکن مدہوش ہے ؛بیداری اسی وقت کہی جاسکتی کہ صحیح علم یا غلط کی پہچان یا تمیز ہو؛ یہاں تو اندھا دھن تقلیدہے ؛ اوریہ بیداری یا تڑپ دین اسلام یا اللہ و رسول کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف حصولِ دنیا ہے جو حبّ دنیا کا نتیجہ ہے؛اور آج ہمارے اندر یہ بات اس طرح رچ بس چکی ہے کہ دنیاوی علوم کے بغیراپنی زندگی کی گاڑ ی یا نیّا چلنا بے حددشوارہے ؛اسی لیے آج ہم اس دنیوی علوم کے لیے بڑی سی بڑی قربانی دینے کے لیے کمر بستہ ہیں ؛ یہاں تک کے اپنی مادری زبان اور اپنی تہذیب و ثقافت تک کو چھوڑنے پر بھی آمادہ نظر آ رہے ہیں؛انگریزی زبان کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ ؛ہم میں سے اکثراپنی مادری زبان کے مضبوط قلعوں کو بھی مسمار کرنے کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں؛ جو ایک خطرناک رجحان ہے ؛کل تک اغیار کو اس کے لیے کافی کوششیں کرنی پڑی تھیں؛ لیکن ایک آج وہ صرف تمشائی بنے ہوئے ہیں کیونکہ جو کام ان کو سر انجام دینے صدیاں لگی تھی ؛لیکن آج وہ کام اپنے آپ ہو تے ہوئے دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے ہیں؛ کیونکہ انہوں نے جو بیج بویا تھا وہ نہ صرف پھل دار درخت بن چکا ہے؛بلکہ اس درخت سے پھل کاٹ کر دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہم مسلمان ہی ہیں؛اغیار کی کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کسی طرح ان کی مادری زبان اُردو سے کاٹ دیا جائے؛ اور اس کے لیے انہوں نے جو حربہ استعمال کیا ؛ وہ لارڈ میکالے والا نظام ِ تعلیم تھا؛ اُسی نے ایک موقع پر کہا تھا؛: میرے اس تعلیمی نظام (سسٹم )سے کوئی٬ عسائی بنے یا نہ بنے لیکن اس نظام سے مسلمان ؛مسلمان نہیں رہیگا: اب ہم زرا ہمارے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے بلا شبہ ہمارا معاشرہ اس فاسد نظام سے بری طرح متاثر ہے اور سوچ اور فکروں میں بھی نمایا تبدیلی آ چکی ہے؛یعنی وسائل پر حد درجہ بھروسہ یا اعتبار جو حقیقت میں اسلامی عقیدہ کی ضد ہے لیکن مسلمان نہ صرف اس جھانسے میں آچکے ہیں بلکہ اسی کے علمبردار بنے بھی بنے ہوئے ہیں جو کہ افسوسناک بات ہے؛ مگر یہ اسے اپنی ترقی اور مسقبل کی خوشحالی کا ضامن قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے یہ اپنی تہذیب اور روایات سے تک کٹنے کو تیار ہیں اور ہم میں سے بعض تو اس مقصد کے خاطر غیروں کے علاقوں میں رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں؛جہاں عزت وناموس بھی محفوظ نہیں رہ سکتی؛یہاں تک کہ ان کی عورتوں کی عفت یا پاکدامنی بھی خطرے میں ہے؛ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر وقت بے پردگی کے ساتھ غیر مردوں سے اختلاط کیا نتائج لائے گا؟اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے ؛اور سمجھ سکتا ہے کہ آج ہمارہ معاشرہ کس مقام پر کھڑا ہونے جا رہا ہے،کیا ہم چاہتے ہیں کہ ایسی خبروں میں مزید اضافہ ہوجو آج کل اخبارات کی سرخیاں بن چکی ہیں ؛ جسے سننے اور پڑھنے کے بعد ایک غیرت مند مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ؛ زیادہ تر ایسے واقعات جدید تعلم یافتہ یا روشن خیال یاآزاد خیال طبقہ کے یہاں رونما ہوتے ہیں اور یہ سب تعلیم اور آزادی کے نام پر ہورہا ہے مگر ہم میں سے اکثر جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں اور سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہیں؛ اور سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام ان کی اولاد کی تعلیم کے لیے ناگزیر ہے؛حقیقت میں یہ حصولِ تعلیم کے نام پر بے راہ روی کا دروازہ کھول رہے ہیں ؛جو بہت جلد ان کے لیے ا فسوس ؛ ندامت و شرمندگی کا باعث بنے گا؛ہمیں معلوم ہونا چاہے کہ یہ علوم نہیں فنون ہیں؛ جو کہ وقتی ضرورت ہے لیکن مقصد نہیں ؛ کیونکہ مسلمان کا مقصد اُخروی سعادت اور نجات ہے؛ جو اس طریقہ کار سے مشکل ہے؛ لیکن ہم میں سے اکثر اس دھوکہ میں آ چکے ہیں ؛ اور اس مادی چیزوں کے پیچھے پڑ کر اپنی آ خرت کو برباد کر رہے ہیں ؛حالانکہ ہم بھی اس کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ علوم کے ساتھ فنون لازم و ملزوم چیزیں ہیں ؛اسلیے اس کو ضرور حاصل کرنا چاہیے اور فی نفصہ اس میں کوئی برائی نہیں؛بلکہ احسن ہے ؛لیکن اگر یہ کام اپنی زبان ؛اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت سے ہٹ کر ہوتا ہے تو یہ نہ صرف برائی ہوگی بلکہ بغاوت یا غداری تصوّر کی جائیگی، کیونکہ اس سے نہ صرف ہمارے تعلیمی ادارے و یران ہو رہے ہیں؛ بلکہ اس کے مسقبل پر ہمیشہ کیلیے مہر لگنے کا بھی امکان پیدا ہو چکاہے؛ ا دوسری طرف غریب طلبہ مایو سی کا شکار ہو رہے ہیں؛اور خطرہ ہے کہ مسقبل قریب میں یہ غریب بچے ابتدائی یا بنیادی تعلیم سے ہی محروم ہو جائیں گے؛ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ غریب طبقہ تعلیم سے دوری اختیار کرے گا؛ اور ہماری شرح ناخواندگی میں مزید اضافہ ہی ہوگا؛اور اسطرح تعلیمی معیار کے نام پر امیر و غریب کے بیچ ایک ایسی دیوار کھڑی ہوگی؛ جو ناقابل ِ عبور ہوگی یا ایک ایسا امتیاز ہوگا جو ہماری ناعاقبت اندیشی کا کھلا ہوا ثبوت پیش کریگا؛اس وقت تک یہ غریب طبقہ کے بچے کم از کم اپنے اپنے علاقوں میں ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک تعلیم حاصل کر پاتے تھے؛لیکن ہمارے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ سے ہمارے تعلیمی ادارہ نہ صرف کمزور ہو رہے ہیں ؛ بلکہ ان کے مسقبل پر سوالیہ نشا لگ گیا ہے ۔

مغرب نے اس راستہ سے جو جراثیم چھوڑے تھے ؛ وہ مہلک بن چکے ہیں کہ اب ہمارامعاشرہ پوری طرح اس کے زد میں آکر تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے ؛ جہاں سے نکلنا محال بن چکاہے؛ ان حالات کے سب سے بڑے ذمہ دار اہل ثروت ہیں اور ان کو دیکھتے ہوئے متوسط طبقہ بھی اسی طرف مائل نظر آرہاہے؛ اور اکثریت نہ چاہتے ہوئے بھی عیسائی مشنری اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں؛جہاں صبح و شام مشرکانہ فکروں کو پروان چڑھایا جاتا ہے ؛جو ان کا مشن بھی ہے لیکن والدین یا سرپرست اس سے بے خبر رہ کر اس زعم میں ہیں کہ ان کے لاڈلے یہاں سے کچھ بن کر ان کے لیے سہارہ بنیں گے؛لیکن یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوگی؛کیونکہ سب سے پہلے یہ بے دین ہوکر اخلاق کی گراوٹ کے تازہ نمونے لے کر آئیں گے ؛ اور لاڑد میکالے کی بات سچ ثابت ہوگی پھر اس کے بعد ان سے کوئی اچھی توقع رکھنا ہی بے معنی ہوگا اور اقبال ؒ کا یہ شعر اپنی مہر ثبت کر دیگا::وضع میں تم ہو نصار یٰ توتمدن میں ہنود؛ یہ مسلمان ہیں جنہیںدیکھ کے شرمائیں یہود::چنانچہ تعلیم کے نام پر ہم اپنی محنت کی کمائی لٹا کر ایک نئی مصیبت مول لے رہے ہیں؛ کیا ہی اچھا ہوتا ؛ اپنی اسی کمائی یا دولت کو تعلیم کے نام پر اس چکر میں لٹانے کے بجائے اپنے اداروں کی اصلاح اور اسے مضبوط کرنے کرانے پر خرچ کرتے ؛اس سے نہ صرف اپنے ادارے مضبوط ہوتے بلکہ سب سے پہلے اپنا دین محفوظ ہوتا ؛اپنی عزت وناموس بھی داؤ پر نہ لگتی؛اور یہ ایک دینی فریضہ کی ادائیگی بھی ہوتی جس کے صلہ میں خالق دو جہاں کے دربار میں بہت بڑے اجر وثواب کے مستحق ہوتے؛ لیکن افسوس آ ج معاملہ اس کے برعکس نظر آرہا ہے، ٓآج وقت کا تقاضہ ہے کہ علماءاسلام ودانشوران ِ قوم س مسئلہ پر کھل کر بات کریں اور مسئلہ کی سنگینی کو عوام کے سامنے اجاگر کرائیں ، اور اپنے تعلیمی اداروں کو مظبوط اور مستحکم بنانے اور وقت یا زمانے کے جدید تقاضوں کو نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل واضح کرائیں؛ورنہ وہ دن دور نہیں ہمارا معاشرہ پوری طرح تباہ ہو کر غیروں کے رنگ میں رنگ کر اپنی شناخت تک کھو دیگا؛ اور نئی نسل صرف نام کی مسلمان رہ جائیگی ؛اور ہم اس دلدل یا جال سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہونگے ؛لیکن اس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں رہیگی؛ جبکہ ذلّت و رسوائی ہمارہ مقدر بن چکی ہوگی اور اس کی ذمہ داری ہم تمام پر ہوگی؛ لیکن علماءہند بھی اس سے بری الزّمہ نہیں ہونگے۔۔ ۔۔۔
Mohammad Mukhtar Ahmed
About the Author: Mohammad Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mohammad Mukhtar Ahmed: 28 Articles with 37739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.