علم کی ضرورت کے تعلق سے بلا
تمہید یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ انسان پیدائشی طور پر اسکی
ضرورت کو محسوس کرنے والا ہوتا ہے ،چونکہ تخلیق انسانی پر غور کرنے سے جو
صورت ابھر کر سامنے آتی ہے ،وہ ہی کہ ابن آدم فطرتاً سننے والا ،دیکھنے
والااور سمجھنے والا واقع ہوتا ہے ۔اس بات کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس کلام
سے ہوتی ہے :"اس نے تمہا رے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے،واقعہ یہ ہے
کہ تم اس کا بہت کم شکر ادا کرتے ہو "۔٬
اس آیت کے اندر حصول علم کے ذرائع کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے ،جیسے:کان
،ا س کی مدد سے ہم دوسروں کی باتیں اور مواعظ ونصائح سن کر اپنی علمی ضرورت
پوری کرتے ہیں۔آنکھ ،انسان اس کے ذریعہ مناظر قدرت کا مشاہدہ اور کتابوں کو
پڑ ھ کرعلم حاصل کرتا ہے۔دل ،یہ تخلیق کائنات کے ذرے ذرے میں غور وفکر کرنے
کااہم آلہ ہے،جد کے ذریعہ انسان سوچتا اور فیصلے کرتاہے ۔انہیںذرائع میںسے
زبان وقلم بھی ہے جسے ثانوی درجہ نہیںدیاجاسکتا،بلکہ کان ،آنکھ ،اور زبان
وقلم سبھی آپس میں ایک دوسرے کے معاون و مددگارہیں،اگر ان میںسے ایک کاتعلق
بھی دوسرے سے کمزورہوا تو یقینی طور پر تحصیل علم کی راہ میںمشکلیںپیدا ہوں
گی۔
علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:علم کی ضرورت غذا ہی
نہیں،بلکہ سانس لینے سے بھی زیادہ اہم ہے ،چونکہ غذا اور سانس کے نہ ہونے
سے زیادہ سے زیادہ جو چیز گم ہو سکتی ہے وہ جسم کی زندگی ہے،مگر علم کے
فقدان سے تو قلب اور روح کافقدان لازم آتاہے اور ایسا انسان گدھے اور
چوپایوں سے زیادہ بدتر ہے ۔
علم کی فضیلت
کسی چیزکی فضیلت اور اسکی شرافت کبھی اس کی عام نفع رسانی کی وجہ سے ظاہر
ہوتی ہے اور کبھی ا سکی شدید ضرورت کی وجہ کر اس سے بے نیاز نہیں ہوا
جاسکتا ،چنانچہ انسان کے لئے پیدائش کے معا بعد سب سے پہلے علم کی ہی ضرورت
کو محسوس کیا گیا،اور علم ہی کی عنایت کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :"تم میں
سے جو لو گ ایمان لائے اور جنہیں علم عطاکیا گیا اللہ ان کے درجات کوبلند
کر ے گا"۔پھر اللہ کے نزدیک علم ہی تقویٰ کامعیار بھی ہے ۔
تحصیل علم :
اس بابت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے :"علم کا حاصل
کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے "۔رہی بات عو رت کی تویہ بات ذہن نشیں ہونی چاہئے
کہ "الام ھی المدرسةالاولیٰ لتربیتہ الاطفال"یعنی : تربیت کے لئے ماں(کی
گود )بچوں کا پہلامدرسہ ہے۔اب یہ بات بڑی نامعقول ہو گی کہ کوئی شخص عورت
کی تعلیم کاانکار کرے اور اس کی تعلیم کو غیر ضروری اور دوسرے نمبر کی
چیزتصور کرے ،چونکہ نظریاتی اور علمی اعتبار سے احکام الٰہی کا علم حاصل
کرنا مردو عورت دونوں پر فرض ہے ،اور اس لئے بھی کہ شرعی تکالیف اور ذمہ
داریوں کے باب میں عورت ومرد اپنے حدود میںبرابر ہیں،اور تاریخ کے اندر بھی
مسلمان عورتوں کی تعلیم کی بہت ساری مثالیںملتی ہیں۔علامہ بلاذری رحمہ للہ
نے فتوح البلدان میں ذکر کیا ہے :مسلمان عورتیںپڑھنالکھناسیکھتی تھیں،انکی
مشہو رتعداد تعلیم یافتہ لوگوں کے نصف تعداد کے برابر پہنچ گئی تھی ۔امام
نووی رحمہ اللہ ،ام درداءفقیہ کے بارے میںلکھتے ہیں :”لوگوں کاان کے فقہ
اور عقل وفہم کے ساتھ متصف ہونے میں اتفاق ہے “۔یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے
زمانہ تک بقید حیات رہیں۔علامہ حافظ ابن حجرکے گھروالے علم کے نہایت ہی
بلند مرتبہ پر فائز تھے ،ان کی بہن پڑھنے لکھنے میںماہر اور ذہانت وفطانت
میں عجوبئہ روزگار تھیں،بیوی اور بیٹیاںبھی عالمہ تھیں۔
مگر افسوس !کیاآج کی ان جاہل ماﺅںسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ان کی گودوںسے
تعلیم یافتہ اور باشعور افراد معاشرے اور سوسائٹی کاحصہ بن سکیں گے؟
اسی کمی کااحساس دلاتے ہوئے دنیا کے عظیم سالار نپولین بوناپارٹ نے اپنی
قوم سے کہا تھا:"give me good mothers and i shall you good nation"
مقصد تعلیم:
اس بارے میںدانشوران ومفکرین کے مختلف نظریات وخیالات ہیں۔اشتراکی نظریہ
تعلیم کے ماہرین کادعویٰ یہ ہے کہ ”تعلیم وتربیت کے ذریعہ ہم افراد کو
’سماج کا بے نفس خادم ‘بنانا چاہتے ہیں“۔جمہوریت کے علم برداروںکے نزدیک
تعلیم کا مقصدافراد کو ’مملکت کااچھاشہری ‘بناناہے“۔
مذکورہ دونوںنظریہ تعلیم کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ اس کااصل مقصد تعلیم
کی روح کا گلہ گھونٹنا،طلبہ کو مادہ پرست ،مذہب دشمن اورباغی بناناہے ۔اگر
بات کریں اسلامی نظریہ تعلیم کی تو اس کامقصد صرف صالح معاشرہ کی تشکیل اور
سماج میں امن وسلامتی پیداہے۔چنانچہ ماہرفن تعلیم وتربیت افضل حسین(ایم اے
ایل ٹی )اپنی کتاب ’فن تعلیم وتربیت ‘میںلکھتے ہیں:”تعلیم کا صحیح
مقصد’اللہ کاصالح بندہ بناناہے‘۔یعنی:”طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کر
نا،ان کے طبعی رجحانات کو صحیح رخ پر ڈالنااور انہیںذہنی،جسمانی ،علمی
اوراخلاقی اعتبار سے بتدریج اس لائق بناناکہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بن
کر رہیں۔کائنات میں اپنی انفرادی ،عائلی اوراجتماعی زندگی میںاللہ کی مرضی
کے مطابق تصرف کریں“۔
حصول علم کے مناسب و معقول طریقے :
ماہرین فن تعلیم و تربیت نے اصولی طور پر اس کے تین بنیا دی قوانین وضع کئے
ہیں۔(1)قانونی آمادگی (2)قانونی تاثیر (3)قانونی مشق۔
(1)قانونی آمادگی:چونکہ سیکھنے کاکام اسی وقت انجام پاسکتا ہے ،جب سیکھنے
والا اس کےلئے آمادہ ہو اور اس کے اندر جذبہ اور لگن اس کام کیلئے اسے
حوصلہ دے رہاہو ۔
(2)قانون تاثیر :کوئی کام دلچسپی سے اسی وقت انجام دیا جاسکتا ہے ،جب اس سے
بہتر نتائج کی امید کی جاسکے ،اور اس کام کے کر نے والوں کو معلوم ہو کہ اس
کا بہتر بدلہ ملنے والا ہے ۔
(3)قانون مشق :یہ بدیہی بات ہے کہ کسی کام کو بار بار کرنے سے اس میں مہارت
پیداہوجاتی ہے اور وہ عمل بحسن وخوبی آسانی کے ساتھ انجام پانے لگتاہے ۔اس
ضمن میںبہت ہی مشہور اور سچاواقعہ ہے کہ کسی نے امام المحدثین امام بخاری
سے ان کی قوت حافظہ کے بارے میں پوچھا ،تو امام موصوف نے جواب میں جو جملہ
کہا وہ طالب علم کیلئے کسی نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔’نھمةالعلم وادامةالنظر‘
فوائد وثمرات :
دنیاوی اعزاز وافتخار تو اس کے ضمنی فوائدہیں،اس کا اصل فائدہ یہ ہوتا ہے
کہ انسان کو اس کی تخلیق کا مقصد حقیقی معلوم ہوجاتاہے ۔رب کریم کی صحیح
معرفت حاصل ہوتی ہے،شرط ہے کہ اس نے حق جاننے کی کو شش کی ہو ،جس کی واضح
دلیل بڑ ے بڑے غیر مسلم اسکا لرز اور دانشوران کااسلام لانا ہے،اگر وہ جاہل
ہوتے تو کیوں کررب کی معرفت حاصل کر پاتے ۔پھر ایسا شخص دنیا میں بھی عزت
کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور آخرت میں بھی اس کےلئے بلند درجات ہیں۔اللہ
ہمارے سینوں کو علم کے نور سے بھر دے اور نیکی کی راہ پر لگائے ۔ |