اجالا بانٹ دینے سے اجالا کم نہیں ہوتا

اﷲ بخشے!ہمارے والدین کو جنہوں نے خاندانی روایات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروا دیا۔ سارے مضامین ہی مشکل تھے پر ''بے حساب'' جس نے تنگ کیا وہ ''حساب'' تھا۔تین کے پہاڑے نے وہ ''کھپایا ''کہ نہ پوچھیں۔ استانی صاحبہ بضد ہوا کرتی تھیں کہ گھر سے یاد کر کے آؤمگر ہمیں گھر میں کوئی یاد کروا دینے والا میسر ہی نہ تھا۔ ایک دن ہماری معلمہ کو غصہ آگیا اور انہوں نے پوری جماعت کو تنبیہہ کر دی جو کل یاد کر کے نہیں آیا اس کی خوب پٹائی ہو گی۔ ان کی پٹائی کے بڑے چرچے تھے، ماہر نشانہ باز کی بندوق سے نکلنے والی گولی تو چوک سکتی ہے مگر ان کے ہاتھوں سے نکلنے والے تھپڑ ہر گز نہیں۔

اگلے دن متوقع پٹائی نے اسکول میں اوسان خطا کیے رکھے، گھر میں بھی دل پریشان کبھی ادھر پھر رہے کبھی ادھر۔ ایک ہی دھن کسی طرح کل ''دھلائی'' سے بچ جائیں۔

اس دن والدِ محترم کی منہ بولی بہن ہمارے لیے رحمت کا فرشتہ بن کر گھر آئیں تو دماغ نے کہا ان کو پہاڑا نہیں آتا ہوگا مگر دل تو بضد تھا کہ ان کی شکل ''ٹیچر'' جیسی ہے،یقیناً آتا ہو گا۔باقی سب بہن بھائی سلام دعا کر کے ادھر ادھر ہوگئے اورہم ان کے ساتھ ساتھ۔ وہ ہمارے چپکنے سے خوش ہو گئیں۔بڑے لاڈ سے ہمیں کندھے پہ لٹکا کے جھلاتے ہوئے پوچھا'' کونسی کلاس میں ہو'' اور ہم نے جواب کے بجائے دریافت کیا '' آپ کو تین کا پہاڑا آتا ہے؟''ان کا بے ساختہ قہقہہ جتلا گیا کہ ہمارا راز فاش ہو چکا اور اندھیرے میں مارا ہوا تیر ٹھیک نشانے پہ لگا تھا۔ یقین کیجیے ان کی مدد سے آدھ پون گھنٹے میں مکمل پہاڑا یاد کیا تھا اور وہ بھی درست۔ استاد کی ذرا سی توجہ ہمیں بچا گئی اور پھوپھو جب بھی ملتیں مجھے دیکھتے ہی پہلا سوال یہی ہوتا تھا'' تن دا پہاڑا یاد ای؟''
خیر پڑھنے کے معاملے میں جو جھیلناپڑا جھیلا مگر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے میدان صاف کر دیا۔ ان کو سکھانے اور بتانے کے لیے ہم ہر پل ہر دم موجود ہوا کرتے۔ اسی سیکھنے سکھانے میں ہم ٹیچر بن گئے۔
پہلے پہل پڑھانے کا باقاعدہ تجربہ نہ ہونے کے باعث ہمیں نرسری جماعت دی گئی۔ بعد میں ہمارے ناتواں کندھوں پر ہر قسم کی جماعت کا بوجھ ڈال کے پرکھا گیا۔ کئی سال تعلیم و تعلم نے ایک حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں کر دی کہ
''اجالا بانٹ دینے سے اجالا کم نہیں ہوتا ''

ہم سکھانے جایا کرتے مگر روز کچھ نہ کچھ نیا اور مفید سیکھ کے آتے، ہم عمر کے کسی حصے میں بھی ''استاد'' نہ بن پائے''،شاگردی'' نے کبھی دامن ہی نہیں چھوڑا۔ لہذا ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ''منجھے'' ہوئے شاگرد ہیں۔

ہر وہ فرد جس نے ہمیں کوئی ایک خیر کا بول، کوئی حرف بہتری کا سیکھایا وہ ہمارے لیے انتہائی محترم ہے۔ وہ ہمارا استاد ہے۔ تمام عمر ان کے شکر گزار بھی رہیں گیاور دعا گو بھی۔سیکھنے کے عملِ مسلسل کا دوسرا نام زندگی ہے۔ اسی لیے تو مہد سے لحد تک علم کے حصول کے لیے کوشاں رہنے پہ زور دیا گیا ہے۔ سیکھنے اور سکھانے والوں کے لیے مختلف اعزازات بتائے گئے ہیں۔

پچھلے دنوں سیکھنے کا ایک اور معتبر و بہترین پلیٹ فارم ''پاسبان بزمِ قلم'' ملا۔اس سے پہلے اخبارات میں لکھنے کے حوالے سے بہت سے مسائل اور خدشات تھے مثلاً اصول و قواعد کون بتائے گا؟نوک پلک سنوارنے کی ٹریننگ کیسے ملے گی؟اچھا لکھ لیا تو اخبارات کے دفاتر کے چکر کون لگائے گا؟وہاں الٹی سیدھی نظروں کا سامنا کیسے کریں گے؟وغیرہ وغیرہ

مگر اس تنظیم نے ہمیں ان تمام مشکلات سے بچا لیا اس کا کہنا ہے آپ ملک و ملت کے لیے اچھا اور مفید لکھیں، اشاعت کروانا ہمارا کام ہے۔ آپ اپنی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے خدمات سر انجام دیں۔ باہر کے کام ہم پہ چھوڑ دیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے جو کہ اس ٹیم کے اپنے منشور اور ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہو نے کی بہترین دلیل ہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو ''دل'' جلا کے ''سرِ راہ'' رکھ دیا

معلمی وہ خوش نصیب پیشہ ہے جسے خود رب نے اپنے ساتھ منسوب کیا،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:مہربان ہیوہ ذات جس نے قرآن سکھایا(الرحمن)

تمام انبیاء نوعِ انسانی کو ''سکھانے'' کے لیے ہی ''مبعوث ''فرمائے گئے۔اسی اہمیت کے پیشِ نظر ہی استاد کا رتبہ والدین تک سے بڑھایا گیا ہے۔

مگر ہماری نالائقی کہ آج کا استاد دکھی اور نا خوش ہے۔ شاگردوں کے سیکھنے کے عمل سے غفلت،غیر موجودخوبیوں پہ گھمنڈ،معلم سے مقابلے کی فضول سوچ اور صلاحیت نہ ہوتے ہوئے برتری کی چاہ ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد کرنے پہ تلی ہوئی ہے۔

ہم بیک وقت استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی، ضروری ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کے''بچگانہ ''رویوں سے چشم پوشی کریں کیونکہ جس دور میں جینا'' مشکل'' ہو اس دور میں جینا ''لازم'' ہے۔

اپنے کام کے ساتھ پر خلوص ہوں۔اگرہماری معمولی کوشش، خیال، توجہ سے کسی کا مستقبل سنور جائے، تو یہ اس کی نسلوں کے ساتھ نیکی ہے۔ہمیں کسی کام میں مہارت حاصل ہے یا کچھ مفید جانتے ہیں تو دوسروں کو ضرورسکھائیں یہ بہترین صدقہ جاریہ ہے۔بحیثیت شاگرداپنے اساتذہ کا حقیقی احترام کریں۔

وہ ماحول پیدا کریں کہ ہر''قابل ''شرفِ استاد کو دستارِ فضلیت کی طرح سر پہ سجائے نہ کہ اس سے گریزاں ہو۔ معلم کو عزت اور مان دیتے ہوئے اپنے معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط اور توانا کیجیے۔

اگر یہ نہ ہوا تو یقین مانیے کتنی ہی کلیاں بن کھلے مرجھا جائیں گی کہ انہیں مشکل سبق یاد کروانے کے لیے'' پھوپھو'' میسر نہ آسکی اور''مستقبل'' کے استادخود ''نا خواندہ ''رہ جائیں گے۔ نتیجتاً پھیلنے والی ''جہالت'' کی تاریکی ہمارا وہ جرمِ عظیم ہو گا جس کی معافی دارین کی کسی بھی عدالت میں نہیں ہو گی۔
 

Nosheen Ramzan
About the Author: Nosheen Ramzan Read More Articles by Nosheen Ramzan: 3 Articles with 1732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.