رسائی اور پارسائی

 معاشرے کاایک مادرپدرآزاد طبقہ ہمارے علما ء کوانتہاپسندوبنیادپرست کہتا اوران سے انتہائی نفرت کرتا ہے، مجھے علم نہیں اس طبقہ کو ایسا منفی پروپیگنڈاکرنے کاحق کس نے دیا اوران گمراہ عناصر کی اصلاح کون کرے گا کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات سے نابلداور تربیت سے عاری لوگ علماء کامحاسبہ کرنے پرتلے بیٹھے ہیں۔اِسلام ہماری بنیاد اوردنیاکاہرسچا مسلمان بنیادپرست ہے۔ راقم کے نزدیک چندگندی مچھلیوں کے سیاہ کرتوت دیکھتے ہوئے روشن چہروں والے علماء حضرات پربیجا تنقید بلکہ ان کی توہین کرنیوالے یہ مٹھی بھرکوتاہ اندیش لوگ درحقیقت ابوجہل کی باقیات میں سے ہیں۔ ہمارے علماء کوجاہل اورکاہل کہنامحض اِن عناصر کا خبث باطن ہے جبکہ اِس طبقہ کے نزدیک مغرب کے لوگ بہت بردبار ،باشعور،باضمیر، روشن خیال اور مہذب ہیں ۔بدقسمتی سے جومعاشرہ اپنی خواتین کوجانوروں کے سپردکردے وہ مہذب نہیں ہوسکتا۔ان کے مطابق مغرب کے عوام تعلیم و تحقیق اورجستجو کے بل پر چاندپرجااترے ہیں اوراب ان کارخ مریخ کی طرف ہے ۔وہ طبقہ جس کیلئے مغرب بہت مقرب ہے،میں ان سے پوچھتاہوں جوانسان تعلیم وتحقیق کے باوجود اپنی شہہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک اورسترماؤں سے زیادہ محبت کرنیوالے اپنے معبود برحق اﷲ رب العزت اورجابجا اس کی قدرت کے نشانات کو شناخت نہیں کرسکتااوراُس وحدہ لاشریک پرایمان نہیں رکھتاتوپھر اس کے چاند یامریخ اوران کے رازوں تک رسائی کی کیا اہمیت ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے مغرب میں کوئی جھوٹ نہیں بولتا ،جوسچے معبوداوراس کے محبوب کی سچی نبوت کاانکارکردے وہ سچا نہیں ہوسکتا ۔ چودہ سوسا ل پہلے بھی معبود برحق کاانکارکرنیوالے ابوجہل تھے اورعہدحاضرکے منکر ومشرک بھی ابوجہل ہیں ۔چانداورمریخ پرجانایاکونین کے دوسرے سیاروں کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنا کامیابی نہیں بلکہ انہیں تخلیق کرنیوالے سے آشنائی جبکہ اس کی بارگاہ میں رسائی اورپارسائی دونوں جہانوں کیلئے کامیابی کی ضمانت ہے ۔مریخ سمیت دوسرے سیارے تودرکنار ابھی توزیرزمین اورسطح زمین پر کئی رازانسانوں سے مخفی ہیں ۔مقتدرقوتوں نے انسانیت کی نابودی کیلئے جو خطیرسرمایہ ایٹم بم ،میزائل ،آبدوزوں ،اسلحہ بردارجہازوں کی تیاری اورسیاروں تک رسائی کیلئے صرف کیا اس کے بل پردنیا بھرسے کئی طرح کی بیماری ،بیروزگاری ،محرومی ،مفلسی ، ناخواندگی اورپسماندگی ختم کی جاسکتی تھی ۔سیارہ زمین کے انسانوں کی زندگی دشواربناتے بلکہ انہیں زندہ درگورکرتے ہوئے دوسرے سیاروں پرزندگی کے آثار کی تلاش کرنا ایک بیہودہ مذاق کے سواکچھ نہیں۔

کورونا وائرس کی پیدائش اورافزائش کے محرکات کیا ہیں ،اب اس موضوع پربحث کا وقت نہیں رہا ۔کوروناوبا کے اب تک کے مضرات ،اثرات جبکہ آئندہ کیلئے خطرات سمیت اِس مہلک وبا کا انجام اوراختتام کس طرح ہوگا،اب صرف اس پرسنجیدگی سے غوراوراس کیلئے متحدومستعدہوکر کام کیاجائے ۔ اب تک متعدد ملکوں نے ویکسین بنائی ہے لیکن ابھی تک کوروناکونابود کرنے کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔میں سمجھتاہوں "دُعا "مستجاب نہ ہوتوبیماری سے شفاء کیلئے"دوا" کااستعمال بھی بے سود ہے ۔جس طرح ہرشرمیں خیر پنہاں ہوتی ہے اس طرح کوروناوبا نے بتادیادنیا کی ترجیحات اوراصلاحات درست نہیں۔ مقتدرقوتوں کوکمزور ملکوں کے وسائل غصب اور دوسروں کے سرپھوڑنے نہیں بلکہ آپس میں سرجوڑنے اوراپنے اپنے وسائل انسانیت کی فلاح پر صرف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی معاونت اورباہمی مشاورت سے یقینا کورونا سمیت دوسری وباؤں اوربیماریوں سے نجات کیلئے سودمندتحقیق وتدقیق میں مددملے گی۔جس روز دنیا بھر کے طبی ماہرین ایک چھت کے نیچے بیٹھ گئے اس دن کورونا کا"کاؤنٹ ڈاؤن" شروع ہوجائے گا۔وہ ملک جوماضی میں اپنے وسائل مہلک ہتھیاروں کی تیاری اوردوسرے ملکوں کی تباہ کاری پرجھونک دیاکرتے تھے اب وہ ا پناسرمایہ انسانوں کی بہبودی اورآسودگی پرصرف کریں۔اس وبا سے انسانیت اور انسانوں کو درپیش دشواریاں ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیداکرنے کی متقاضی ہیں ۔ کورونا وائرس بھی گرگٹ کی طرح اپنا "رنگ "،(اردومیں)"ڈنک " اور(پنجابی میں) "ڈنگ "تبدیل کررہا ہے۔نیا کورونا پچھلے کورونا سے مختلف ہوگا ،یہ ویکسین تیار کرتے وقت کسی نے سوچا تک نہیں ہوگا لہٰذاء کوروناسے بچاؤکیلئے ویکسین کی دفاعی صلاحیت اورافادیت ایک بڑاسوالیہ نشان ہے تاہم اس وبا کے ہاتھوں مرنیوالے انسانوں کے مقابلے میں جام صحت نوش کرنیوالے افراد کی تعداد کا زیادہ ہوناامیدافزاء اورحوصلہ افزاء ہے،اگر"رنجیدہ" لوگ" سنجیدہ" ہوجائیں توکورونا کیخلاف نبردآزمادنیا کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔پچھلے برس پاکستان میں کورونا کی آمد کے وقت شہر ی اپنی چھتوں پر اذانیں د یتے رہے جبکہ مساجد میں باجماعت نمازوں کے بعد اجتماعی دعاؤں کااہتمام کیا گیا جس کے نتیجہ میں قادروکارساز اﷲ رب العزت کی خاص رحمت سے اس وبا کی شدت ماندپڑ گئی تھی تاہم حکمرانوں نے اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں سجدہ ریزاوراس کاسپاس گزارہونے کی بجائے اپنی کامیابی کانقارہ اورڈنکابجاناشروع کردیا جس کے بعد کورونا نے پھر سے سراٹھالیا ۔اب بھی وقت بھی انفرادی اوراجتماعی طورپربار باردعائے مغفرت کی جائے۔عوام پھر سے چھتوں پراذانیں دیں اورصدقات وسخاوت کااہتمام کریں۔کورونا ایس اوپیز کی پاسداری میں ناکامی کے ڈانڈے تخت اسلام آباد سے جاملتے ہیں ،کوروناایشو پر کپتان کے خطابات میں تضادات نے کئی طرح کے اوہام اور ابہام پیدا کئے۔اگراناڑی حکمران اپنی بدانتظامی کے بل پرحالیہ پرتشدد مظاہروں کے دوران فرض شناس پولیس کی ساکھ کوراکھ کاڈھیر نہ بناتے تو آج محض ماسک کی پابندی کیلئے پاک فوج کوشہروں میں اورشاہراہوں پرمدعوکرنے کارسک نہ لیاجاتا۔پولیس آفیسرز اوراہلکار بیک وقت متعدد محاذوں پرسر بکف ہوتے ہیں لہٰذا ء اس دوران بیسیوں آفیسر اورسینکڑوں اہلکار کورونا کانشانہ بنے اسلئے پاک فوج کوبیرکس تک محدودرکھنا زیادہ مناسب رہے گا۔ میں شہریوں سے پوچھتا ہوں کیاوہ شرافت سے ماسک کی پابندی نہیں کرسکتے ،انہیں ڈنڈے سے ہانکنا کیوں ضروری ہے۔

جس طرح پرہیز علاج سے بہتر ہے اس طرح کورونا سے بچاؤ کیلئے لوگ احتیاط کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پراموات کے باوجود کچھ کند اذہان انسان کورونا کے وجود کاانکار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرو ں کوبھی گمراہ کر رہے ہیں،ان کی خدمت میں عرض کرتاچلوں کوروناایک حقیقت ہے۔ کورونا وبا نے مقتدرملکوں سمیت دنیا بھر میں صف ماتم بچھادی ہے، دنیاکا کوئی ملک اس آدم خور وائرس سے پوری طرح محفوظ نہیں ۔میں سمجھتاہوں جوطبقہ کوروناوبا کوفراڈ کہتارہا وہ بھی انسانیت کامجرم ہے، یہ مخصوص جاہل طبقہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا بلکہ انہیں موت کے منہ میں دھکیلتارہا۔سال بھر سے بدمست کورونا انسانوں کا قتل عام کرتے ہوئے دندناتا پھررہا ہے ۔جس کوابھی تک کورونا اورقیامت پرشبہ ہووہ بھارت میں برپاقیامت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔بھارت میں انسانیت کوایڑیاں رگڑ تے ہوئے صاف دیکھا اوربچوں سمیت خواتین وحضرات کوزندگی اورآکسیجن کیلئے دوہائیاں دیتے ہوئے سناجاسکتا ہے ۔بھارت کے مختلف شہروں میں کورونا کی بے حسی جبکہ انسانوں کی بے بسی اورنفانفسی کے دلخراش مناظر دیکھنے والے کادل دہل جاتا ہے۔جلتی ہوئی چتاؤں اوران کے ساتھ جھلستے انسانوں کے نیم مردہ ارمانوں کادلخراش منظرراقم کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا ۔جومردہ معاشرے اپنی خدمت ،حفاظت اورقیادت کیلئے" معقول" اور"معتدل" کی بجائے ـ"مقبول"اورانتہاپسند کرداروں کاانتخاب کرتے ہیں ان کاانجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔راقم کے ایک حالیہ کالم کاعنوان" مودی اورنابودی" تھا ،میں نے اس میں لکھاتھا " بھارت کی نابودی کیلئے ایک مودی کافی ہے"۔جہاں مودی سے لوگ حکمران ہوں گے وہاں نابودی اٹل ہے۔میں بھارت کے عوام سے پوچھتاہوں آج ان کا انتہاپسند،اسلام دشمن اورمسلمانوں کاقاتل مودی کہاں ہے ،اس کے شدت پسندحواری کہاں ہیں۔اسلام اوراہل اسلا م سے نفرت نے آپ کوکیادیا۔وہ مودی جوبار بارپاکستان کوللکارتاتھا آج وہ کورونا کے ڈر سے کس بل میں چھپا بیٹھا ہے ۔گاؤموتر اورگوبر کومہلک کورونا کاتریاق بتانیوالے جاہل اب جواب دیں ۔ بیگناہ مسلمانوں سمیت کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بھارتی درندے کورونا کے آگے ڈھیرکیوں ہوگئے۔ہندوازم کے نام پرمسلمانان ِہند پربدترین ظلم وستم کرنیوالے باوردی اہلکار آج توحید پرست شہریوں کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے،جواہلکار کل تک نمازیوں پرڈنڈے برسارہے تھے آج وہ دعاؤں کیلئے ان کے آگے گڑگڑارہے ہیں۔اب بھی وقت ہے آدم خور کورونا کے ہاتھوں بدحال بھارت جنت نظیرکشمیر کی خصوصی حیثیت بحال اوراسیر کشمیریوں کوآزاد کردے ۔جس بھارت نے بربریت کامظاہرہ کرتے ہوے کشمیر میں صف ماتم بچھائی تھی آج وہ خود کورونا کے روگ اورسوگ میں ڈوب گیا ہے ۔

جودنیا کی سرمایہ دارشخصیات ہیں وہ بھی کورونا کا مقابلہ کرنے اوراسے شکست دینے کی سکت نہیں رکھتیں کیونکہ دولت ہار گئی جبکہ پیاروں کی جدائی کادرد جیت گیا۔کسی کا"پیشہ "اورکسی کابے انتہا"پیسہ "کچھ کام نہیں آرہا،بھارت سمیت دنیا کے متعدد ملکوں میں کورونا وباکاسیلاب سرمایہ داروں ،مزدوروں اورناداروں کواپنے ساتھ بہالے جارہا ہے ۔راقم نے کورونا وبا کی آمد کے وقت بھی اپنے کالم میں دنیا کی ناقص ترجیحات پرسوالات اٹھاتے ہوئے نیم مردہ عالمی ضمیر کوجھنجوڑا تھا لیکن بدقسمتی سے نام نہاد جمہوریت اورمعیشت نے انسانیت کویرغمال بنایاہوا ہے۔جومٹھی بھرلوگ دنیا کی باگ ڈورسنبھالے ہوئے ہیں ان کے نزدیک" انسانیت "اور"اخلاقیات "کی کوئی قدروقیمت نہیں ،انہیں توصرف "مالیات" کی زبان سمجھ آتی ہے۔ آدم زادوں کے پاس اب بھی وقت اورمہلت ہے انہیں تعصبات کاتابوت سمندر بردکرتے ہوئے اپنی ترجیحات بدلناہوں گی۔دوسروں کے وسائل پر جھپٹنے اورانہیں غصب یاہڑپ کرنے کی بجائے رواداری اوربردباری سے انسانیت کودرپیش خطرات کامقابلہ کرناہوگا۔ جواپنی اوراپنے پیاروں کی زندگی میں دشواریاں نہیں چاہتا اسے دوسروں کیلئے آسانیاں پیداکرناہوں گی۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.