آج میرا اپنے بھارت کے ایک دوست سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا
ہماری باتوں میں کرونا کا بھی ذکر آیا تو اس نے مجھے اپنے ملک میں کرونا
وائرس کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہمارے اپنے پڑوس
میں کئی افراد اس جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے جس میں 4 بندے ایکسیجن نہ
ملنے کی وجہ سے آج وفات پاگئیں، ایکسیجن نہ ملنے کا سن کر میں نے ان سے
حیرانگی میں دریافت کیا ایکسیجن نہ ملنے کا کیا مطلب ہے کیا وہ ہسپتال
بروقت نہیں پہنچے تھیں انہوں نے جواب دیا نہیں ہسپتال پہنچے تھیں مگر
ہسپتالوں میں ایکسیجن ختم ہوگئی ہیں اس لئے وہ اپنی جانوں کی بازی ہارگئے،
میں حیران ہوگیا کہ بھارت جیسے اتنے بڑے ملک میں یہ کیسے ہوسکتا ہے، کیونکہ
میرا خیال تھا کہ بھارت جس طرح دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ بجٹ
دفاع پر خرچ کرتے ہیں اسی طرح صحت تعلیم اور عوام کی فلاح و بہبود پر بھی
خرچ کرینگے کیونکہ دفاع کا مطلب تو اپنے لوگوں کی حفاظت کرنی ہیں ان کی مال
وجان کی تو اس سے کئی گننا زیادہ حفاظت تعلیم اور صحت کے میدان میں خرچ
کرنے سے اور لوگوں کی معیاری زندگی کو بلند کرنے سے کیا جاسکتا ہے بعد میں
جب میں نے اپنے ملک پاکستان کے حال پر سوچا تو یہاں بھی یہی صورتحال تھی
عوام کو کرونا ویکسین تک میسر نہیں ہیں اور ویکسین کو حاصل کرنے کیلئے
پاکستانی حکومت کو باہر دنیا کی چکریں اور منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔۔
مگر اس صورتحال کے باوجود اگر دیکھا جائے تو دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے
لیز ہے اور أخری بجٹ میں بھارت نے 134510 کروڑ روپے اور پاکستان نے 1289
ملین روپے دفاع کیلئے مختص کئے ہیں اور دونوں ممالک جنگی ساز و سامان میں
ہر وقت ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں اس لئے یہ حیال
کیا جاتا تھا کہ جس طرح یہ دو ممالک ہر قسم کے جدید اسلحے سے لیس ہے اور
ایک دوسرے پر ہر وقت دفاعی میدان میں بازی لینے کی کوشش میں ہوتے ہیں اس
طرح شاید صحت کے شعبے میں بھی آگے ہونگے اور جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے
ممالک کی بنسبت کرونا کی وبائی مرض کا بہت اچھی طریقے سے مقابلہ کرینگے اور
اپنے لوگوں کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرکے اس میدان میں بھی ایک دوسرے کے
ساتھ مقابلہ کرینگے مگر یہ تو معلوم نہیں تھا کہ ان دونوں ممالک کی ترجیحات
صرف ہتھیاروں کی حد تک ہے اور عوام کے سامنے وہ رازیں بھی افشاں ہوگئے جس
کا عوام نے کبھی سوچا نہیں تھا اور اسی لاشعوری کی وجہ سے جب روز غریب عوام
کے پیسوں سے نئے میزایل کا کامیاب تجربہ ہوتا ہے تو عوام ایک دوسرے کو
مبارکباد دیتے ہیں اور خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں کیونکہ تعلیم سے دور غریب
عوام کو تو حقیقت معلوم نہیں مگر اب جب ایک طرف کرونا نے دنیا میں تباہی
مچائی تو دوسری طرف قوموں اور حکومتوں کو اپنے خوابوں سے بھی جگایا اور ان
کو اپنی غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کا موقع بھی ملا، کیونکہ ایسا کیسے
ہوسکتا ہے کہ ایک ملک جو اپنے بجٹ کا 15.5 فیصد جو کہ تقریباً 134510 کروڑ
روپے صرف دفاع پر خرچ کرتے ہوں اور وہاں پر عوام کو ایکسیجن تک نہیں مل رہے
اور لوگ اپنے پیاروں کو تڑپ تڑپ کر اور زندگی کی بھیک مانگ کر مرتے دیکھ
رہے ہوں آج ہی کے دن صرف دہلی میں ایکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے 348 لوگ جان
سے گئے اسی طرح امرتسر کے ایک نجی ہسپتال میں 6 مریضوں کو آکسیجن نہ ملا
اور وہ اپنے جانوں کی بازی ہار گئے تو اگر بڑے شہروں کا یہ عالم ہیں تو
دیہاتوں کا تو پھر اللّٰہ ہی مالک ہوں۔ دوسری جانب پاکستان جو کہ اپنے بجٹ
کا تقریباً 15 فیصد دفاع پر خرچ کرتے ہیں اور ایٹمی طاقت ہے مگر کرونا
ویکسین تک خود نہیں بناسکتے اور ویکسین کو حاصل کرنے کیلئے دوسرے ممالک کی
منت سماجت کرتے ہے اگر بھارت جو اپنے تعلیم پر صرف 3 فیصد اور صحت پر 1.8
فیصد خرچ کرتے ہے اور اسی طرح پاکستان صحت پر 1.1 فیصد اور تعلیم پر 2.3
فیصد خرچ کرتے ہے اس کے برعکس اگر دفاع کے ساتھ صحت، تعلیم اور لوگوں کی
فلاح و بہبود پر توجہ دیتے تو آج ان دونوں ممالک کے غریب عوام کو نہ یہ دن
دیکھنا پڑتا اور نہ انڈیا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 147 نمبر پر اور
پاکستان 154 نمبر پر ہوتا اسی طرح نہ انڈیا میں غربت 9.1 فیصد ہوتی اور نہ
پاکستان میں ،، اس کے علاؤہ دونوں ممالک کے عوام 80 فیصد گندہ پانی کبھی نہ
پیتے تھیں بلکہ ان سب کو صاف پانی اور معیاری خوراک میسر ہوتی اور آج
پاکستان اور بھارت بھی تائیوان، سنگاپور، ترکی دبئی اور جنوبی ایشیا کے
دیگر ترقی یافتہ ممالک کے صف میں ہوتے مگر افسوس دونوں ممالک نے ہمیشہ اپنے
غریب عوام کو اندھیرے اور دھوکے میں رکھا ہے لیکن خیر اب بھی وقت ہے اگر
دونوں ممالک اپنے غلطیوں سے سبق سیکھیں تو کم از کم آنے والے نسلوں کی
مستقبل بہتر بنایا جاسکتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ کرونا وائرس نے دنیا
کو ایک عظیم عبرت اور سبق بھی دیا۔۔
|