سری کلچر صنعت سے نکلتی ریشم کی چمک

دنیا چاند تک پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی تک مرغی،انڈوں اور کٹوں سے باہر نہیں نکل رہے ،حالاں کہ جنوبی ایشیا کے 80 فیصد ہنر پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔ماضی میں ملک فن و ثقافت کے معاملے میں انتہائی خوش حال رہا ہے ،مگر پھر ہمارے فن و ثقافت کو بد نظری نے کھا لیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے فن و ثقافت سے دور ہو گئے۔پاکستان میں ہم جہاں سال میں چھ موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ،وہاں ہمیں فخر ہوتا ہے کہ ہمارے خطے میں بہت سے فنون نے جنم لیا،پروان چڑھے اور آج بھی نیم مردہ حالت میں زندہ ہیں ۔ہم دنیا کو سیکھانے والے تھے،مگر اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے بین الاقوامی شناخت میں بہت پیچھے رہ گیے ہیں۔اس بات کو ہم مثالوں سے نہیں بلکہ دلیل سے ثابت کریں گے۔
پاکستان بلاشبہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں چار اقسام کا مقبول عام ریشم تیار کیا جاتا ہے ،جس میں شہتوت(ملبیری)،ریشم کے کیڑے (تسور)،ایری اور موگا سے بنائے جانے والا ریشم شامل ہیں،لیکن بد قسمتی دیکھیں کہ ہمارے حکمران یوں تو عوام کو بے روزگاری سے نکالنے کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں،مگر عملی کام نہیں کیا جاتا،اس میں ان کی سوچ،ویژن کی کمی اور نا اہلی آڑے آتی ہے۔اگر حکمران اپنے مفادات اور اقتدار کی ہوس سے ہٹ کر عوامی فلاح و بہبود کے لئے سوچتے تو سیری کلچر کی اہمیت کو بہت پہلے سمجھ لیتے ،جس سے مزدور قوت بلخصوص خواتین اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے وسیع مواقع مہیا کیے جا سکتے تھے۔1990ء کی دہائی تک سیری کلچر پاکستان میں کاروباری طور پر ایک فروغ پذیر اور منافع بخش صنعت کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی تھی،یہ غریب کی صنعت ہے، جس سے وہ آسانی سے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں،لیکن 2000ء کے بعد اس صنعت کا زوال شروع ہوا۔چین،ہندوستان ،بنگلہ دیش اور ساؤتھ ایشیا اور افریقہ میں سیری کلچر کی صنعت میں ترقی ہو رہی ہے،یہاں تک کہ افغانستان بھی سیری کلچر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ،اس صنعت میں بہت آگے نکل چکا ہے،مگرپاکستان میں ناقص منصوبہ بندیوں اور حکمرانوں کی نا اتفاقیوں کی وجہ سے دوسرے شعبوں کی طرح سیری کلچر صنعت بھی تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے،حالاں کہ سیری یکلچر صنعت غربت کے خاتمے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے،اس سے روزگار کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے ،اس میں کم سرمایہ کاری اور آسان ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن ہمارے حکمرانوں کا دیہی ترقی پر توجہ اور فائدہ مند صنعتی شعبے کی جانب رجحان نا ہونے کے برابر ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔پنجاب کا علاقہ چھانگہ مانگا جہاں سیاست کے حوالے سے معروف ہے،وہاں ریشم بنانے میں بھی مشہور ہے،یہاں تقریباً ایک ہزار خاندان ریشم کا کیڑا پالنے اور ریشم کا دھاگہ تیار کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے،لیکن آج وہ بے روزگار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ 2640 قبل از مسیح چین کے بادشاہ ہنگ تائی کی ملکہ ہی لنگ شی نے ذاتی توجہ سے ریشم کو رواج دیا ،ابتدا میں یہ فن صرف بادشاہوں اور شاہی محلات تک محدود رہا،شاہی اور عوامی تقریبات میں اسے بہت اہمیت حاصل تھی،اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے ملکی کرنسی اور زرِ مبادلہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔چین نے تین ہزار سال تک اسے باقی دنیا سے پوشیدہ رکھا ،لہذا یہ صنعت خفیہ ذرائع سے دیگر ممالک تک پہنچی۔برصغیرپاک و ہند میں اس کی ابتداء 140قبل مسیح جنوبی ایشیاء کے تاریخی خطے تبت سے ہوئی ،جب ایک چینی شہزادی نے جس کے سر کے لباس میں ریشم کے کیڑے کے انڈے اور توت کے بیج تھے ،تبت میں ختن بادشاہ سے شادی کی تو یہ صنعت تبت سے ایران ،برصغیر پاک و ہند اور وسطی ایشیامیں متعارف ہوئی ۔جب انگریز نے برصغیر پر قبضہ کیا تو انہوں نے ریشم سازی کو منافع بخش تجارت پایا،انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں کارخانے لگائے،کشمیر میں مہاراجہ رمبیر سنگھ نے ریشم سازی کے شعبہ کی بنیاد رکھی۔جب پاکستان وجود میں آیا تو مہاجرین جو کہ اس شعبے میں مہارت رکھتے تھے انہوں نے اسے اپنا ذریعہ معاش بنایا اور اس صنعت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کیوں کہ ہر شعبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحقیقات کا متقاضی ہوتا ہے،نئے امتزاج کا تغیراتی ،تقابلی اور ارتقائی جائزہ لینا اور نئی نئی دریافت کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلوں کو سہنے کی طاقت ضروری امر ہوتا ہے،اس کے لئے سیری کلچر کے محکمے کو ترقی دینا ضروری تھا ،لیکن بدقسمتی سے آج تک ایسا نہیں ہو سکا ہے ۔آج بھی سری کلچر کا محکمہ زبوں حالی کا شکار نظر آتا ہے،لیکن یہاں کے کم ترین وسائل اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے باوجود سری کلچر ریسرچ کے اہکار اپنی کوششوں میں لگے ہیں،ان کی محنت رنگ تو لا رہی ہے ،لیکن اگر انہیں بہتر ماحول اور وسائل دیئے جائیں تو نہ صرف دیہاتوں میں غربت ختم ہو جائے بلکہ زرِِ مبادلہ میں بھی مثبت نتائج کا باعث بنے۔اس لئے دہی معیشت کے وسیع تر مفاد کے لئے زراعت کی صنعت کو بہتر کرنا ضروری ہے۔خام ریشم کے دھاگے کی تیاری کے لئے ریشم کے کیڑوں کی پرورش کے ذریعے ریشم کی کاشت اور ریشم کے دھاگے کی تیاری کا عمل ہے ۔ریشم ایک اعلٰی قیمت والا ٹیکسٹائل ہے،کاشتکار 40 دنوں میں اچھی آمدنی حاصل کر سکتے ہیں،اس میں شہتوت کی کاشت بھی شامل ہے،کیوں کہ ریشم کے کیڑے شہتوت کے پتے کھا کر پلتے ہیں ، لہذا ریشم کی پیداوار کے لئے شہتوت کے درختوں کی کاشت ضروری ہے۔پنجاب میں شہتوت کی کاشت کے لئے ماحول سازگار ہے،لہذا سری کلچر پر خصوصی توجہ دے کر روزگار اور غربت کی پریشانیوں کے علاوہ ملک میں طلب کے ساتھ برآمدات میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے اور شہتوت جیسے مفید پھل کا کاروبار بھی ممکن ہے،توت کی لچکدار شاخیں ٹوکیاں اور چھابے بنانے کے کام بھی آتی ہے،جو سستی،مضبوط اور معیاری ہونے کے سبب مشہور ہیں ۔اس کے لئے سیری کلچر ریسرچ میں فاروق بھٹی جیسے ہونہار اور محنتی آفیسر موجود ہیں،جن کا مقصد ملک اور عوام کے لئے کچھ کر دکھانے کا جزبہ ہے،ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں 46.5 فیصد مصنوعی ریشم استعمال ہو رہا ہے،جس کے انسانی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔وہ کیوں کہ چھانگا مانگا کے قریب سے تعلق رکھتے ہیں ،انہیں اس صنعت کی مد و شد کا با خوبی ادراک ہے،اس لئے ان کی دلی خواہش ہے کہ وہ ریشم کی گھریلو صنعت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کریں ۔وہ اپنے ریسرچ سنٹر میں نہ صرف ریشم کے کیڑوں اور شہتوت پر ریسرچ کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ مختلف دیگر چیزیں جیسے مشروم ، ایلویرا ،کہوا کے علاوہ بہت سے پودوں پر ریسرچ کر رہے ہیں اور لوگوں کو ٹریننگ بھی دے رہے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے گم شدہ محکموں کی طرف خصوصی توجہ دیں تاکہ عوام اپنی معاشی پریشانیوں سے باہر نکل کر کچھ اچھا سوچ سکیں ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.