مجاہد ملت اور عاشق رسول مولانا عبدالستار خاں نیازی

مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ بلاشبہ پاکستان کے ان سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تمام عمر نظریہ پاکستان کو حرز جان بنائے رکھا ۔وہ عمر بھر اسلامی نظام کے نفاذ اور مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔ مولانا کا تعلق ضلع میانوالی کے پٹھانوں کی ایک شاخ سے تھا، جو عیسی خیل میں آباد ہے ۔ وہ یکم اکتوبر1915ء کو عیسی خیل کی تحصیل کے ایک گاؤں "اٹک پٹالہ "میں پیدا ہوئے ۔ ان کا شجرہ، شیرشاہ سوری کی افواج کے کمانڈر انچیف عیسی خاں نیازی سے جا ملتا ہے ۔ان کے والدین جو اسلام کے سچے شیدائی تھے ،بچپن ہی میں اﷲ کو پیارے ہوگئے تھے ۔ مولانا نیازی ؒکی تربیت ان کے نانا صوفی محمد خاں اور تایا محمد ابراہیم خاں نے کی ۔ میٹرک تک تعلیم عیسی خیل میں نمایا ں نمبروں سے حاصل کی اور وظیفہ لیا ۔ میٹرک کے بعد آپؒ نے لاہور کا رخ کیا اور یہا ں اشاعت اسلام کالج میں داخلہ لے لیا ۔ یہ کالج علامہ اقبال کا "برین چائلڈ"تھا جس کا مقصد ایسے مبلغین اسلام کی تیاری تھا جو جدید تقاضوں سے آگاہ ہوں اور نئی نسل سے جدید علم الکلام میں بات کرسکیں ۔قرآن ،حدیث ،سیرت النبی ،فقہ ، تاریخ اسلام اور مختلف مذاہب کے تقابلی مطالعے پر مبنی اس کا نصاب بھی علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال ؒ کا مرتب کردہ تھا۔ مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ کو یہاں مولانا غلام مرشد، قاضی سراج الدین احمد اور مولانا یوسف سلیم چشتی جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ۔

بعد ازاں سیاسیات ، عربی اور فارسی میں ماسٹر کی تین ڈگریا ں حاصل کرنے والے مولانا نیازیؒ اشاعت اسلام کالج سے علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال ؒ کے دستخطوں کی حامل "ماہر تبلیغ " کی اس سند پر زیادہ فخر کیا کرتے تھے ۔ جو 1935ء میں انہیں امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر حکیم الامت علامہ محمداقبال ؒ نے اپنے ہاتھوں سے عطا کی تھی ۔ بعد ازاں 1936ء میں مولانا نیازی ؒ نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا اور خوش قسمتی سے ان کی ملاقات وہاں نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی ، میاں محمد شفیع (م ش) اور ابراہیم علی چشتی جیسے ذہین طلبہ سے ہوئی ۔ یہ تینوں طلبہ ملی سوچ کے حامل انسان تھے ۔ انہی طلبہ نے ہندو سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مقابلے میں مسلم سٹوڈ نٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی ۔ 1938ء میں مولانا نیازیؒ مسلم سٹوڈنٹس کے تیسرے صدر منتخب ہوئے ۔اسی سال مولانا نیازیؒ نے ایم اے عربی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ 1939ء میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے دہلی میں ملاقات کرکے" خلافت پاکستان "کی تجویز پیش کی، جس پر قائداعظم ؒ نے فرمایا "تمہاری سکیم بہت گرماگرم اور پرجوش ہے۔" تو مولانا نیازی نے برجستہ جواب دیا "کیونکہ یہ سکیم ایک پرجوش دل سے نکلی ہے۔"

اقبال ؒ کا فکر و فلسفہ اور قائداعظم ؒ کا نظریہ پاکستان ، نوجوانوں کی رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگا۔ نصب العین کے شعور اور فکری یکسوئی نے مولانا نیازی کی بلند آہنگ خطابت میں جادو سا بھر دیا ۔ وہ سامعین کے قلوب و اذہان کو مسخر کیے چلے جاتے ۔ اقبالؒ ان میں اپنے شاہین کا عکس پاتے ۔قائداعظم ؒ نے انہیں ستاروں پر کمند یں ڈالنے والے ان نوجوانوں میں شمار کرتے جس سے اقبا لؒ کو محبت تھی ۔ ایک موقع پر قائد اعظم محمد علی جنا ح ؒ نے مولانا نیازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا "نیازی جیسے نوجوان میرے ساتھ ہیں تو پاکستان کے قیام کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔"

1941ء میں حکومت ہند نے سرسکند ر حیات کو نیشنل ڈیفنس کونسل کا رکن نامزد کردیا جس پر مولانا نیازی ؒ نے زبردست مظاہرے کیے اور بالاخر سرسکندر حیات خان کو ڈیفنس کونسل سے استعفی دینا پڑا۔ 1946ء کے عام انتخابات میں قائداعظم ؒ نے مولانا نیازیؒ کو مسلم لیگ کا ٹکٹ دیا ۔ مولانا نیازی ؒ بھاری اکثریت سے جیتے ۔خضر حیات ٹوانہ کے دور وزارت میں پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک چلائی ۔ خضرحیات ٹوانہ نے مولانا نیازی ؒ کو گرفتار کر لیا، مگر اس گرفتاری کے باوجود تحریک نہ رک سکی ۔ بالاخر 1947ء کو خضرحیات وزارت سے مستعفی ہوگئے اور گورنر راج میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا ۔

1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی ۔ مولانا نیازی ؒنے تحریک کا دفتر مسجد وزیر خاں میں قائم کیا اور اتنے زوروں پر تحریک چلائی کہ لاہور میں مارشل لاء نافذ کرنا پڑا ۔مولانا نیازی ؒ کو گرفتار کرلیا گیا ۔فوجی حکومت نے بغاوت اور قتل کیس میں سزائے موت سنا دی ۔ مولانا نیازی کو موت کی سزا کے فیصلے پر دستخط کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے فوجی عدالت کے انچارج کرنل کو للکار کرکہا جب میں پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈالوں گا تو یہ میرے دستخط ہونگے ۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران جب فائل مارشل لا ء کی عدالت کے سامنے پیش کی گئی تو فو جی افسر نے کہا "آپ 1947سے پہلے بھی خطرناک ایجی ٹیٹر تھے ۔مولانا نیازی ؒنے جواب دیا اگر ہم ایجی ٹیٹر کا جرم انگریزوں کے خلاف نہ کرتے تو آج تم اس کرسی پر نہ بیٹھے ہوتے ۔اس کے بعد مولانا نیازی ؒ کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔"بعدا زاں مزید تخفیف کے بعد سزا صرف تین سال رہ گئی ۔

ایوب خان کے مارشل لاء دور میں بھی مولانا نیازی ؒ کا جیل میں آنا جانا لگا رہا۔مارشل لا کے ابتدائی دنوں میں ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کے جن 9لیڈروں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا۔ ان میں مولانا نیازی ؒ بھی شامل تھے ۔جب ایوب خان نے نواب آف کالا باغ امیرمحمد خاں کو مغربی پاکستان کا گورنر بنایا تو مولانا نیازی ؒ کو عشق کے کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا۔ایسے جابر شخص کے لیے اپنے ہی علاقے میں مولانا نیازی جیسے دلیر اور بہادر شخص کا وجود کیسے قابل برداشت ہو سکتا تھا ۔نواب آف کالا باغ نے مولانا نیازی ؒ کے خلاف جتنے بھی اقدامات اٹھائے وہ سب ناکامی سے ہمکنا ر ہوئے ۔

پھر جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خاں کے خلاف صدارتی الیکشن کے میدان میں اتریں تو مولانا نیازی ؒ ان کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔میانوالی میں مادر ملت کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نیازی ؒنے کہا ہم اس شخص (گورنر کالا باغ ) کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے ۔اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ گورنر کالا باغ نے نیازی کو راستے سے ہٹانے کے لیے ان پر قاتلانہ حملے بھی کرائے لیکن قدرت کو مولانا نیازی ؒ سے بھٹو دور کی تحریک ختم نبوت 1974ء اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھی کام لینا تھا ، سو وہ محفوظ رہے ۔

1977ء کی تحریک نظام مصطفی کا پہلا جلوس راولپنڈی سے مولانا نیازی ؒ کی قیادت میں نکالا گیا ۔جلوس کی قیادت کرتے ہوئے مولانا نیازی ؒ گرفتار ہوئے ۔بعد ازاں جمعیت علمائے پاکستان میں مولانا شاہ احمد نورانی کے ساتھ مل کر جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے نظام مصطفی کے تحفظ کے لیے بھرپور جدوجہد کرتے رہے ۔سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد نے مولانا نیازی ؒ کے بارے میں کہا کہ وہ عالم اسلام کے ترجمان اور سفیر ہیں ۔لیبیا کے سربراہ معمر قذافی نے کہا تھا عالم عرب کو نیازی جیسے قائد کی ضرورت ہے ۔عراق کے صدر صدام حسین نے ایک موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا مولانا نیازی ؒ میں مرد مومن کی جھلک نظر آتی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے الفاظ آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ مولانا نیازی ؒ ایسے بیباک رہنما ہیں جنہیں نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ڈرایا جا سکتا ہے ۔جنرل ضیا ء الحق نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مولانا نیازی ؒ حق گو اور بے لوث شخصیت کے مالک عظیم انسان ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مولانا نیازی ؒ ایک سچے عاشق رسول اور علامہ محمد اقبال ؒ کے شاہین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو اور تقاریر کے دوران جگہ جگہ علامہ محمد اقبال ؒ کے اشعار سنا کر دلوں کو گرماتے رہے ۔آپ ؒ کی گرجدار آواز سامعین پر برق بن کر گرتی اور عشق و مستی میں مگن لوگوں کے قلب و نذر کو منور کر تی جاتی ۔لگی لپٹی کے بغیر آپؒ صاف گو مقرر اور نا صح کی طرح اپنا ما فی الضمیربیان کرتے جاتے ۔میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں بھی حلیف ہونے کے باوجود آپؒ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیاتھا کہ اگر ملک سے سودی نظام معیشت کا خاتمہ نہ کیا گیا تو پھر میرا ڈنڈا تم پر لہرائے گا۔آپ ؒ نے اتحا د بین المسلمین کے لیے اپنے دور وزارت میں جو سفارشات مرتب کیں وہ آج تک تمام مکاتب فکر میں مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں ۔

آپ ؒ دو مرتبہ قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ سینٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے ۔عمر کا بڑا کا حصہ جیل میں گزارا۔ دو مرتبہ وفاقی وزیر رہے ۔ تحریک ختم نبوت ﷺ کے دوران آٹھ دن اور سات راتیں پھانسی کی کوٹھڑی میں گزاریں ۔کہا کرتے تھے ،یہی میرا حاصل زندگی ہے۔ میانوالی میں کالا باغ اور عیسی خیل کے نوابوں کا زور توڑا۔ حق گوئی اور بے باکی ان کا طرہ امتیاز تھا ۔ سر پر طرہ اور ہاتھ میں عصا ان کی پہچان بن کر رہ گیا ۔عمر کے آخری حصے میں جمعیت علمائے پاکستان کے متفقہ صدر قرار پائے۔

غرضیکہ مولانا نیازی ؒ جمعیت علمائے پاکستان کا وہ علمی و سیاسی اثاثہ تھے ۔ جن پر جتنا بھی ناز کیا جائے ،کم ہے ۔ خدا نے بیک وقت انہیں دینی اور دنیاوی علوم کا پیکر بنایا تھا ۔ علامہ محمد اقبال ؒ کے اشعار صف باندھے ا ن کے سامنے کھڑے رہتے ۔آیات قرآنی ، احادیث اور اقوال اکابر ان کو زبانی یاد تھے۔مولانا نیازی ؒ کے لہجے کی گھن گرج، تنقید کابارعب انداز اور استدلال کی قوت ان کی تقریر کا ہمیشہ سرمایہ ہوا کرتے تھے ۔

مولانا نیازی نڈر، بے باک ، دلیر ، منصف مزاج اور اصول پسند سیاست دان تھے ۔ چند ایک مواقعوں کو چھوڑ کر آپ ؒ عمر بھر اپوزیشن میں رہے ۔ ہر حکومت نے آپؒ کو وزارت کا قلمدان پیش کیا مگر آپ ؒ نے ان کے ملک و قوم کے حوالے سے غیر پسندیدہ رویوں، بے قاعدگیوں ، بے اصولیوں ، بے اعتدالیوں ،کینہ پروریوں اور قابل صد نفرین ،سیاسی چالوں کی بنا پر ہر پیش کش کو اپنے ضمیر کے منافی سمجھ کر ٹھکرا دیا ۔ختم نبوت کے ضمن میں آپؒ نے مرزائیوں اور ان کے حواریوں کے خلاف دن رات مسلسل اپنی ذہنی صلاحیتوں سے تلواروں اوربندوقوں کے بغیر جہاد کیا ۔ جیل کی صعوبتوں سے لے کر تختہ دار تک کی اذیتوں اور خو ف کوبالائے طاق رکھ کر اس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ثابت قدمی سے اپنے مشن پر کاربند رہے ۔ حتی کہ منزل کو پالیا۔گویا عاشق رسول کی رفعت منزہ سے نیازمند ہوئے ، مولانا نیازی ؒ کو اس امر پر گہرا ملال تھا کہ جس نصب العین کی بنیاد پر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمت دری اور ملک کی تقسیم اور بٹوارے میں انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے گورداسپور ،فیروز پور ،جونا گڑھ وغیرہ سے محروم کردیئے گئے ۔مشرقی پاکستان کی بے تکی بندر بانٹ بہت بڑا فراڈ تھا جس کے باعث سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ظہور پذیرہوا۔اس طرح کی کرب و ابتلا کو سہا تو اس خاطرکہ پاکستان میں قرآن و سنت کے احکام کانفاذ ہوگا ۔انسانوں کے بنائے گئے قوانین اور دستور پر احکام الہی اور فرامین اقدس حضور رسالت مآب ﷺ کی شریعت کو افضلیت کا درجہ دیا جائے ۔ غیر اسلامی رسومات ، ہندووں اور انگریزوں کی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑا دی جائیں گی مگر یہ سارا مسئلہ نعرہ بازی کی نذر ہوگیا۔ اہل اقتدار کے صرف اختلاف میں رہ کر "تحریک خلافت پاکستان " اور پھر جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے نظام مصطفی کے نفاذ اور مقام مصطفے کے تحفظ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی ۔آپ نے ہمیشہ اپنی ایمانی غیرت و حمیت کو زندگی کا مقصد اور متاع گردانا ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ ہر قسم کی حرص و ہوس سے مبرا تھے ۔پاکستان میں آپ جیسا باعمل عالم دین اور با اصول سیاست دان بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ۔

مولانا نیازی ؒ نے 86سال عمر پائی ۔نصف صدی سے زائد عرصہ تک سیاست میں سرگرم رہے ۔ کوئی جائیداد ،مکان ،پلاٹ یا بینک بیلنس نہیں تھا ۔ وفات سے دو دن قبل میرپور میں ایک عظیم الشان "تاجدار بریلی " کانفرنس میں ڈیڑھ گھنٹہ پر اثر خطاب فرمایا۔ 2 مئی 2001ء بروز بدھ نماز فجر ادا کرنے کے فورا بعد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے ۔اﷲ تعالی ان کی مرقد پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 658808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.