اﷲ تعالیٰ نے والدین کا مقام اعلیٰ رکھا ہے،کیوں کہ ہمارا
وجود خدا کی طرف سے ہے،لیکن ہماری زندگی کا سبب والدین کو بنایا،ان کی بے
نظیر مھر و محبت کو اولاد کے لئے عاطفہ کے باغ کا ثمر بنایا اور خدا کی
رضایت ان ہستیوں کی رضایت میں ہے،اﷲ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اپنے ماں
باپ کا احسان مانو ، ان کا احترام کرو، جب والدین بوڑھے ہو جائیں، ان کا
دماغ بچوں کی طرح ہو جائے، وہ بچوں کی طرح جھنجھلانے لگیں اور ضد کرنے لگیں
تو اس وقت اگر تو نے انہیں ’’اُف ‘‘بھی کیا تو میں تجھے معاف نہیں کروں گا۔
حضور پُرنور ﷺ نے والدین کی قدرومنزلت کئی بار ارشاد فرمائی۔ایک مرد رسول
اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میرے والدین بوڑھے ہو چکے ہیں اور میرے
ساتھ مانوس ہونے کی وجہ سے وہ میرے جہاد پر جانے کو راضی نہیں ہیں ،اس پر
حضور رحمت العالمین ﷺ نے فرمایا:’’تم اپنے والدین کے پاس بیٹھ جاؤاور
فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے ، تمہارا ان کے ساتھ ایک
دن بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول
ﷺ سے پوچھا گیا کہ خدا کے ہاں پسندیدہ کام کون سا ہے؟ فرمایا: وقت پر نماز
پڑھنا ،اس کے بعد کون سی چیز افضل ہے ؟فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا
اور اس کے بعد؟فرمایا: خدا کی راہ میں جہاد کرنا ۔نبی پاکﷺ کا ارشاد مبارکہ
ہے کہ جب کوئی نیک اولاداپنے والدین کی طرف مہربانی کے ساتھ نگاہ کرے،تو اﷲ
تعالیٰ اسے اس نگاہ کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب عطا فرماتے ہے۔مولا
علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’سب سے اہم اور بڑا فرض والدین کے ساتھ
نیکی کرنا ہے ۔
جب ہمارے خالق و مالک ،اس کے پیارے پیغبرﷺ نے والدین کی اہمیت کو اجاگر
کرنے کے لئے وضاحت کر دی ،پھر ہمارے لئے اس فرض سے کوتاہی کی کوئی گنجائش
موجود نہیں ،لیکن ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟کیا ہم اپنے والدین کے حقوق کو پورا
کر رہے ہیں،جب ہم بچے تھے تو باپ محنت و مشقت برداشت کرتا،سردی ہو یا گرمی
،صحت ہو یا بیماری،وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معاش کی صعبتوں کو برداشت
کرتا ہے،ان کے لئے کماتا اور ان کے اوپر خرچ کرتا ہے ، ماں گھر کے اندر بچے
کی پرورش کرتی ہے ، اسے دودھ پلاتی ہے ، انہیں گرمی و سردی سے بچانے کی
خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے،بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین
ہو جاتے ہیں ،ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں،والدین اپنی راحت و آرام کو
بچوں کی خاطر قربان کرتے ہیں،اس لئے اﷲ تبارک تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا
کرنے کا حکم دیا ہے،وہیں والدین کی شکر گزاری کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے
،سورہ لقمان میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ :’’میرا شکر ادا کرو اور اپنے
والدین کا شکر ادا کرو،میری طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘۔
اسلامی معاشرے میں والدین کی خدمت کے بارے میں دیکھیں تو وہاں ان کی اطاعت
و فرماں برداری اور حسنِ سلوک کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ،مگر آج ہم اپنے
گردونواح میں جو حالات دیکھتے، خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں ،وہاں والدین سے
نا قابل معافی دل خراش داستانیں دکھائی دیتی ہیں۔بیٹا اپنی خواہشات کی
تکمیل نہ ہونے پر باپ کو بری طرح ذدوکوب کرتا ہے ،بیٹی کو اپنی پسند کے
لڑکے سے ملنے پر منع کرنے کے جرم میں والدین کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے
ہیں،ساری عمر جن والدین نے اپنے خون پسینے سے اولاد کو پالا پوس اورپڑھا کر
کسی پوزیشن پر کھڑا کیا،وہی اولاد بد اخلاقی سے پیش آتی ہے،یہاں تک کہ ان
کے قتل کا منصوبہ بناتی ہے،جائیداد،پسند کی شادی اور زرا زرا سی بات پر
والدین کو دھتکارنا روز مرہ کا معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔بوڑھے والدین سے
جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے ۔ماں سے پھر بھی بچے کم برا سلوک کرتے
پائے گئے ہیں،لیکن والد سے زیادتیاں اکثرہوتی نظر آتی ہیں ۔سڑکوں پر چلتے
پھرتے بوڑھے داستانیں لئے ہوئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ان کے آنسو
بھی خشک ہو جاتے ہیں ،لیکن وہ پھر بھی بچوں کی محبت میں خون کے آنسو روتے
دکھائی دیتے ہیں ،بہت سی مائیں صرف اس لئے اچھی نہیں لگتی کیوں کہ ماں ان
کی بیوی کی اطاعت گزار نہیں بنتی،والدین ان کو اچھائی برائی کا فرق بتاتیں
ہیں تو اولاد کو برا لگتا ہے ،اسے شور شرابا کرنے والے ’’اولڈ مین‘‘ایک
آنکھ نہیں بھاتے،انہیں نئے دور کے تقاضوں میں زندگی گزارنے کا شوق اس قدر
ہے کہ والدین کے حقوق کو فراموش کرتے ہوئے زرا سا دکھ یا تکلیف نہیں
ہوتی،ہاں اگر باپ یا ماں کے پاس جائیداد یا کوئی حصہ موجود ہے تو اتنی دیر
تک منافقانہ رویہ روا رکھنے والے لاکھوں بچے ہیں،لیکن جیسے ہی جائیداد
ہتھیاتے ہیں پھر والدین ان کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں ۔
معاشرے کی اس بڑھتی ہوئی بیماری کو سمجھتے ہوئے حکومت نے تحفظ والدین
بل(پروٹیکشن آف پیرنٹس بل 2021)منظور کروانے کا سوچا اور اسی پر کابینہ
کمیٹی برائے قانون سازی نے تحفظ والدین بل کی منظوری دے دی ہے۔اس کا مقصد
بڑھاپے میں والدین کو تحفظ فراہم کرنا ہے،تاکہ کوئی اولاد والدین کو گھر سے
بے دخل نہیں کر سکے ،ہاں اگر والدین گھر کے مالک ہوں تو وہ بغیر کسی قانونی
کارروائی کے نا فرمان بچوں کو گھر سے نکالنے میں با اختیار ہوں گے ۔
یہ حکومت کا ایک اچھا قدم ہے،تاکہ والدین کو بڑھاپے میں در در کی ٹھوکروں
سے بچایا جا سکے ۔کیوں کہ ابھی یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہونا ہے،امید ہے
کہ اسے پاس کروا لیا جائے گا،مگر قانون سازی کے بعد عمل درآمد کروانا
انتظامیہ کا کام ہوتا ہے ،لیکن ہماری انتظامیہ اتنی کمزور اور لاغر ہے کہ
اچھے سے اچھے قانون سازی ہونے کے بعد بھی مسائل کو حل نہیں کروا پاتے ۔اس
کی ایک وجہ تو انتظامی نا اہلی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم من حیث القوم
بے حس ہو چکے ہیں ،ہم اسے برا نہیں سمجھتے یا اسے برا باور نہیں کرواتے جو
اپنے والدین کے ساتھ ایسا گندہ سلوک کر رہے ہیں۔کئی ایسی مثالیں موجود ہیں،
جہاں اولاد کی طرف سے والدین کو انسانیت سوز حالات میں رہنے پر مجبور کیا
گیا اور گندے کمروں میں باندھا گیا، پاغل بنا کر پاغل خانوں میں رکھا
گیا،گھر سے نکال کر در بدر بھٹکنے پر مجبور کیا گیا،مگر افسوس ان معصوم بے
بس اور لاچار والدین پر ترس کھانے کی بجائے ان کا مذاق ہی اڑایا جاتا ہے
۔اتنے بڑے جرم کے بعد بھی اولاد معاشرے میں بے شرمی سے زندگی گزارتی ہے۔
حکومت کوجہاں ہم تحفظ والدین کا قانون پر مبارک باد پیش کرتے ہیں،وہاں اس
قانون سازی کے بعد اس پر عمل کو یقینی بنانا حکومت وقت کے فرائض میں شامل
ہے ،جسے انہیں پورا کرنا چاہیے ۔یاد رہے کہ انہیں بزرگوں کی دعائیں فرش سے
عرش تک لے جاتی ہیں،ان کے وقاراور قدر کو یقینی بنانے میں ہم سب کی بھلائی
ہے ۔
|