زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
بہت دل چاہتا ہے کہ کسی بہت خوشگوار اور دلچسپ موضوع پہ لکھا جائے۔ گزشتہ
ماہ میرا شمالی علاقہ جات جانا ہوا۔ میں ہر کالم لکھنے سے پہلے ارادہ
باندھتی ہوں کہ کچھ احوال اس جنت نظیر علاقے، یہاں کے عوام اور یہاں کی
عمومی زندگی کا لکھوں ۔ پھر نگاہ گرد و پیش کو اٹھ جاتی ہے۔ ہر روز کسی
عزیز یا جان پہچان کے کسی نہ کسی فرد کے بارے میں خبر ملتی ہے کہ وہ کرونا
کی وبا کا لقمہ ہو گیا۔ ایسے تو اب گنتی شمار میں بھی نہیں آرہے جو کرونا
کا شکار ہو کر گھروں میں گوشہ نشین ہیں یا ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ بے شمار
مسائل ہیں جن سے عوام دوچار ہیں۔ کسی کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ آکسیجن کی
شدید کمی کے شکار کو کس طرح ہسپتال تک پہنچایا جائے۔ اس مقصد کے لئے ایسی
ایمبولینس کی ضرورت ہے جس میں آکسیجن کی سہولت بھی ہو۔ یہ ایمبولینس کہاں
سے ملے؟ ملے بھی تو اس کا بھاری کرایہ دینے کی سکت کتنوں کو ہے۔ مریض کو
جیسے تیسے کسی ہسپتال تک پہنچا بھی دیا جائے تو بتایا جاتا ہے کہ یہاں تو
کسی نئے مریض کے داخلے کی گنجائش نہیں۔ سارے بیڈ پر ہو چکے ہیں۔ آپ مریض کو
ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہسپتال میں لئے پھرتے ہیں۔ کوئی ہسپتال مل
جائے تو آکسیجن سلنڈر نا پید ہوتا ہے۔ دواوں اور ٹیکوں کی ایک فہرست تھما
دی جاتی ہے۔ کوئی مریض کے ساتھ ٹھہر بھی نہیں سکتا سو عزیز و اقارب کو کچھ
پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے پیاروں پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ برآمدوں ، راہداریوں
میں رلتے رہتے ہیں ۔ یا صحن میں پڑے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے
کہ وینٹی لیٹر کی بھی کمی ہے۔ جب کسی کی سانسیں ڈوبنے لگتی ہیں تو وینٹی
لیٹر ایک مریض سے اتار کر اس کو لگا دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ
ہے کہ اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پرسوں یعنی بروز بدھ یہ تعداددو سو
ایک تک پہنچ گئی۔ بیسیوں شہروں میں کرونا کیسز کی شرح دس فی صد سے کہیں آگے
نکل گئی ہے۔ 70 فی صد کے لگ بھگ دیہی آبادی کس حال میں ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔
نہ وہاں سرکاری سطح پر ٹیسٹ کی سہولت ہے نہ ویکسین وہاں تک پہنچتی ہے۔ اس
موذی مرض میں مبتلا ہونے والے اکثر دیہی عوام گھروں میں پڑے پڑے مر جاتے
ہیں۔ ان کا شمار نہ کرونا کے مریضوں میں ہوتا ہے نہ کرونا سے ہونے والی
اموات میں۔ ایسے بہت سے لوگ شہروں میں بھی ہیں جنہیں یا تو ہسپتالوں تک
رسائی نہیں ملتی یا وہ ہسپتالوں سے خوفزدہ ہو کر گھروں میں ہی علاج معالجے
کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے افراد کو بھی کرونا کی اموات میں نہیں گنا جاتا۔
اگر ایسے تمام وبا زدہ افراد کے اعداد و شمار بھی میسر ہوں تو شاید روزانہ
اموات کی شرح کئی گنا زیادہ ہو۔
یہ بات لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ ہم نے اس انتہائی مہلک وبا کی ہلاکت
آفرینی کا نہ تو سنجیدگی سے جائزہ لیا، نہ اس کے سد باب کے لئے ضروری
اقدامات کئے، نہ یہ سوچا کہ آگے چل کر ہمیں کس طرح کے مسائل درپیش آسکتے
ہیں۔ یہ کہنا شاید مناسب ہو کہ ہم نے سارا معاملہ تقدیر او رحالات کے رحم و
کرم پر چھوڑ دیا۔ ہم وبا کے اثرت و نتائج کے بعد نیم دلی سے اقدامات کرتے
رہے اور دنیا کی طرف نہ دیکھا جو اثرات و نتائج کا پہلے سے اندازہ کر کے،
ان کے مطابق مناسب منصوبہ بندی کرتی ہے۔
اس بد انتظامی کی ایک واضح مثال آکسیجن کی قلت ہے۔ مجھے ایک عزیز نے بتایا
کہ جو گیس سلنڈر پہلے ایک ہزار روپے میں بھر دیا جاتا تھا، وہ پہلے دو
ہزار، پھر تین ہزار، پھر چار ہزار اور اب پانچ ہزار روپے کا بھی نہیں مل
رہا۔ معاشیات کا سادہ سا اصول ہے کہ جب کسی چیز کی رسد، اسکی طلب سے کم پڑ
جاتی ہے تو اس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جوں جوں طلب بڑھتی جائے گی اور
رسد میں بھی اضافہ نہیں ہو گا، توں توں اس کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوتا
جائے گا۔ نتیجہ یہ کہ جو غریب یا کم آمدنی والے افراد، ایک سلینڈر گیس کی
سکت نہیں رکھتے ان کے پاس اس کے سو ا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ اپنے پیاروں کو
موت کے منہ میں جاتے دیکھتے اور آنسو نہاتے رہیں۔بھارت اب اسی بحران سے
دوچار ہے۔ آکسیجن نایاب ہو گئی ہے اور کرونا کے مریض کیڑے مکوڑوں کی طرح مر
رہے ہیں۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے ایک بریفنگ میں عمران خان کو آگاہ کیا کہ ملک میں
بنائی جانے والی آکسیجن کی نوے فیصد مقدار شعبہ صحت کو دی جا رہی ہے۔ اگر
اسکی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو ہمارے لئے آکسیجن کی ضرورت پوری کرنا مشکل
ہو جائے گا۔ وزیر موصوف نے اپریل کے وسط میں ایک ٹویٹ میں کہا "ہسپتال تیزی
سے بھر رہے ہیں۔ اس وقت شدید بیمار مریضوں کی تعداد 4500 کو پہنچ گئی ہے جو
ماہ جون میں 2020 میں وبا کے ابھار سے زیادہ ہے۔ ا س وقت ملک میں آکسیجن کی
سپلائی شدید دباو میں ہے" ۔
اب ذرا ایک اور افسوسناک کہانی کی طرف آئیے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایک
پرائیویٹ ادارے "نیشنل انجینئر ویلفیئر ایسوسی ایشن " (NEW)نے کچھ دن قبل
وزیر اعظم کو ایک خط ارسال کیا۔ اس خط میں انہوں نے بتایا کہ کراچی اسٹیل
مل میں آکسیجن کے دو پلانٹ روزانہ 260 ٹن آکسیجن بنانے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔ سنگین ملکی صورتحال کے پیش نظر ہم چاہتے ہیں کہ حکومت فوری اقدام کرئے
تاکہ ناکارہ پڑے یہ دونوں پلانٹس کام کرنے لگیں۔ اس سلسلے میں ہم اپنی
خدمات پیش کرتے ہیں۔
اس خط کی اطلاعات اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں میں آنے کے دو چار دن بعد
حکومت نے ایک ٹیم سٹیل مل کراچی روانہ کی تاکہ آکسیجن پلانٹس کو چالو کرنے
کا جائزہ لیا جا سکے۔ پتہ چلا کہ ان پلانٹس کو چلانے والے ماہرین کو تو
فارغ کر کے گھروں کو بھیجا جا چکا ہے، تاہم ان کارکنوں نے کہا کہ ہمیں موقع
دیا جائے تو ہم دس دن کے اندر اندر ان پلانٹس کو چالو کر دیں گے اور یہ
آکسیجن بنانا شروع کر دیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں
البتہ پلانٹ بدستور بند پڑے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک کی مجموعی آکسیجن
پیداوار 800 میٹرک ٹن ہے۔ اس پیداوار کا 65 فیصد فراہم کرنے والے پلانٹ
موجود ہونے کے باوجود، وبا کی اس سنگین صورتحال میں بھی، بند پڑے ہیں۔ اسے
بد انتظامی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟
ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں اس وبا نے سر
اٹھایا تو ہمیں بتایا گیا کہ گھبرانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ یہ بس ایک طرح کا
نزلہ زکام ہی ہے۔ کچھ دن رہے گا ، پھر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ غیر
سنجیدہ روش آج تک جاری ہے۔ اب دلیل یہ ہے کہ لاک ڈاون کیا تو دیہاڑی دار کا
کیا بنے گا؟ اسکے بچے تو بھوک سے مر جائیں گے۔ اس بات کا جواب کوئی نہیں
دیتا کہ اگر گھر کا واحد کفیل دیہاڑی دار، کرونا کا لقمہ ہو گیا تو اسکے
بال بچوں پر کیا گزرے گی؟ وبا بہت بڑی آفت ہوتی ہے لیکن اس کا سامنا یا
مقابلہ کرنے والے بد انتظام اور بے حکمتی کے مرض میں مبتلا ہوں تو وبا کا
قہر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |