تحریر:انیلہ افضال(ایڈووکیٹ)
ہر سال دنیا بھر میں یوم مزدور جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے
جب صاحب لوگ چھٹی کرتے ہیں اور مزدور لوگ کام پر جاتے ہیں کیونکہ اگر وہ
بھی چھٹی کریں گے تو ان کے گھر کا چولھا کیسے جلے گا؟ بھوکے بچوں کو کون سی
تسلی دے کر سلائیں گے۔ مزدور وہ شخص ہوتا ہے جو کسی تعمیراتی منصوبے،
کارخانے، صنعت، کھیتوں، کھلیانوں، کانوں یا اسی طرح کی کارگاہوں میں انسانی
قوت کے طور پر کام کرتا ہے۔ آپ اسے دیہاڑی دار طبقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ عام
طور پر روزانہ کی دیہاڑی کے علاوہ اس طبقے کا کوئی معاشی اثاثہ نہیں ہوتا۔
عالمی یوم مزدور یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس
دن کو منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد
کرنا ہے۔ یہ دن انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے
کا دن ہے۔ 1884ء مین شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز
اور اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا۔ واقعہ کچھ یوں
ہوا کہ مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد، سرمایہ کاروں کی بدکاریاں بڑھ
گئیں۔ جن کے خلاف اشتعمالی نظریات بھی سامنے آئے۔ سوشلزم ٹریڈ یونینز کی
بنیاد ڈالی گئی۔ صنعتی مراکز اور کارخانوں میں مزدوروں کی بدحالی حد سے
زیادہ بڑھ گئی۔ کئی گھنٹوں کام کروایا جانے لگا۔ٹریڈ یونینز، مزدور تنظیموں
اور دیگر معاشرتی اداروں نے کارخانوں میں ہر دن آٹھ گھنٹے کام کا مطالبہ
کیا۔ اس دن امریکا کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی۔ تین مئی کو اس سلسلے میں
شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور
ہلاک ہوئے۔ اس بر بریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لیے ہائے مارکیٹ
اسکوائر (Hey market square) میں جمع ہوئے۔ پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لیے
محنت کشوں پر تشدد کیا۔اسی دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو
پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور
ہلاک ہوگئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔اس موقعے پر سرمایہ داروں نے
مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں بھی دیں حالانکہ ان کے خلاف کوئی
ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزدور تحریک کے لیے
جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بر بریت واضح کر دی۔ ان ہلاک
ہونے والے رہنماؤں نے کہا تھا کہ’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو
لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے۔‘‘اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت
کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کیے۔
پاکستان میں قومی سطح پر یوم مئی منانے کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے 1973
میں کیا۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات،
سیمینارز، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے
خواتین کے عالمی دن کو منایا جاتا ہے۔جس میں ظلم و ستم کا شکار خواتین تو
شرکت نہیں کرتیں نہ ہی ان کے حقوق کی بات ہوتی ہے مگر یہ جلسے جلوس نوجوان
لڑکے اور لڑکیوں کی وجہ سے رنگین ضرور بن جاتے ہیں۔ اسی طرح مزدوروں کی
شرکت کے بغیر،مزدوروں کے حقوق کی بات کئے بغیر،انسانی حقوق کی تنظیمیں نمبر
بڑھانے اور ایک دن لطف اندوز ہونے کے لئے مہنگے ملبوسات پہنے،دھوپ کے چشمے
لگائے،دھوپ سے بچنے کے لئے چھتریاں اٹھائے،ہاتھوں میں منرل واٹر پکڑے اور
چہروں پر مسکراہٹیں لئے کوئی عجیب سے لوگ سڑکوں پر آ موجود ہوتے ہیں۔ جنہیں
یہ اندازہ تک نہیں ہوتا کہ'' کس قدر تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات۔‘‘
بر صغیر پاک و ہند میں سب سے پہلی مزدور یونین 1844ء میں پاکستان کے علاقے
کھیوڑہ کے کان کنوں نے بنائی۔اس کے بعد انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان کے
موجودہ صوبہ گجرات کے شہر احمد آباد کی کپڑے کی ملوں میں تنظمیں بنیں۔ یہ
مزدوروں کی انجمنیں کسی قانون کے تحت نہیں بنیں تھیں اور ان کی کوئی قانونی
حیثیت نہ تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستان میں مزدوروں کی کثیر تعداد
موجود تھی لیکن مزدور کے لیے قانون موجود نہ تھا۔1923ء میں دو اہم لیبر
قوانین، ’’لیبر اور کمپنی قوانین ایکٹ مجریہ 1923‘‘ اور ’’کان کنی ایکٹ‘‘
نافذ کئے۔ لیبر اور کمپنی ایک کے ذریعے آجروں کو پابند کیا گیا کہ اگر
دوران ملازمت کام کرتے ہوئے کوئی مزدور زخمی ہو جائے تو اسے اس کا معاوضہ
دیا جائے، اسی طرح اگر مزدور حادثاتی طورسے دوران ملازمت کام کرتے ہوئے مر
جائے تو اس کو معاوضہ دیا جائے۔ اسی طرح اگر ملازمت کے دوران کوئی مزدور
کسی ایسی بیماری کا شکار ہو جائے جو کہ ادارے میں ہونے والے کام کی وجہ سے
ہونے والی بیماری ہو اس کا بھی معاوضہ دیا جائے گا۔ یہ قانون آج بھی نافذ
العمل ہے اور اسے عام مزدور جو دوران ملازمت کسی حادثے کی وجہ سے بیمار، ز
خمی یا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے انہیں آجر معاوضہ دینے کا پابند ہے۔ موجودہ
دور میں اگر کوئی مزدور مکمل طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہے تو اس کے
ورثاء کو دو لاکھ روپے آجر کو ادا کرنا ہونگے البتہ یہ قانون صرف ان
مزدوروں پہ لاگو ہوتاہے جن کی ماہانہ تنخواہ 5ہزار تک ہو۔
1923ء میں کان کنی کے مزدوروں کے لیے ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور
1925ء میں مزدور تنظیموں کو تسلیم کیا گیا۔ اگرچہ ہندوستان میں یہ ایکٹ کچھ
تبدیلیوں کے ساتھ ابھی بھی نافذ ہے مگر 1968ء مغربی پاکستان میں یہ قانون
منسوخ کر دیا گیا اور اس کی جگہ مغربی پاکستان ٹریڈ یونین آرڈیننس 1968ء نے
لی اور صرف ایک سال نافذ رہی۔ 1969ء میں انڈسٹریل ریلیشن آرڈیننس 1969ء کی
شکل میں دوبارہ نافذ ہوا۔ 1936ء میں اجرتوں کی ادائیگی کا ایکٹ 1936 نافذ
ہوا جو بعض انقلابی ترمیموں کے بعد آج بھی نافذالعمل ہے۔ 1947ء میں معاملات
صنعتی تنازعات 1947 نافذ ہوا جوکہ اب تک ہندوستان میں ترمیموں کے ساتھ
نافذالعمل ہے البتہ پاکستان میں اس کی جگہ انڈسٹریل ریلیشن آرڈیننس 2002 نے
لے رکھی ہے۔ 1946ء میں پہلی دفعہ قانون نافذ کیا گیا جس کے ذریعے یہ قرار
پایا کہ ہر آجر شرائط ملازمت بنا کر حکومت سے انہیں منظور کرا کر اپنے
ادارے میں نافذ کرے گا۔ 1965ء میں سوشل سیکیورٹی آرڈیننس جاری کیا گیا جس
کے تحت مزدوروں کی صحت اور علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ 1976ء
میں ضعیف العمر ملازمین کی بہتری کا ایکٹ 1976نافذ ہوا جس کے تحت ورکرز کو
پینشن ملتی ہے۔
پاکستان میں نافذ العمل تمام تر قوانین یا تو مکمل طور پر گزشتہ صدی میں
ترتیب دیے گئے تھے،۔یہاں تک کہ ماسوائے چند ایک آرڈیننسینز کے۔تمام تر
ترامیم بھی گزشتہ صدی میں ہی وقوع پذیر ہوئیں جن کا دور حاضر میں اطلاق
سمجھ سے بالاتر ہے۔ دور حاضر کے مزدور کو انتظار ہے کہ کب ہم قومی سیاسی
مذاکرات کی میز پر پہنچیں گے جہاں نئے نظام کے خدوخال پر بات ہوگی۔ قوم
تیار ہے مگر شاید سیاست دانوں کو کچھ وقت اور چاہیے۔
|