خواتین اور اعتکاف: مسائل اور ہدایات

اعتکاف میں بندہ اپنے رب کے حضور تقرّب حاصل کرتا ہے، اس لیے کہ اعتکاف میں دنیا کے دیگر مشاغل سے اعراض کرکے اپنے رب سے لَولگاتا ہے اوراس سے رحمت طلب کرتا ہے، گویا وہ اپنے رب کے در پر آپڑتا ہے کہ جب تک مغفرت و رحمت کا اعلان نہ ہوجائے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور اس عمل میں خالص عبودیت کا اظہار ہے۔اعتکاف‘ رمضان المبارک کی ایک خاص عبادت ہے، جو مَردوں کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی مشروع ہوئی ہے، البتہ دونوں کے صنفی امتیاز کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے لیے چند ہدایات مختلف ہیں۔

ازواجِ مطہراتؓ کا اعتکاف
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا زوجۂ نبی سے روایت ہے ، حضرت نبی کریمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے ، یہاں تک کہ اﷲ نے آپ کو اٹھا لیا، آپ کے بعد آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں۔(بخاری، مسلم)

عورت مسجدِ بیت میں اعتکاف کرے
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ہی نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺہر رمضان میں اعتکاف کرتے تھے ، جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو اس جگہ چلے جاتے جہاں پر آپ ﷺ کو اعتکاف کرنا ہوتا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہ نے آپﷺ سے اعتکاف کی اجازت چاہی تو آپ نے اجازت دے دی، انھوں نے وہاں پر ایک خیمہ نصب کردیا۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا نے جب یہ بات سنی تو انھوں نے بھی ایک خیمہ نصب کرلیا، حضرت زینت رضی اﷲ عنہا کو معلوم ہوا تو انھوں نے بھی ایک خیمہ نصب کرلیا۔ رسول اﷲ ﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے ، تو آپ نے چار خیمے دیکھے اور فرمایا: یہ کیا ہے ؟ آپﷺ سے ان کی حالت بیان کی گئی، تو آپﷺنے فرمایا: ان کو اس پر نیکی نے آمادہ نہیں کیا، ان کو اکھاڑ پھینکو، اب میں ان کو نہ دیکھوں! چناں چہ وہ خیمے ہٹا دیے گئے اور آپ نے رمضان میں اعتکاف نہیں کیا، یہاں تک کہ شوال کے آخری عشرے میں آپﷺنے اعتکاف کیا۔(بخاری، مسلم)

عورتوں کے مسجدمیں آنے کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:عورتوں نے حضرت نبی کریم ﷺکے بعد جو کچھ کرنا شروع کردیا اس کو حضرت نبی کریم ﷺ اگر اپنی زندگی میں دیکھ لیتے ، تو خود ہی ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے ، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا۔(بخاری، مسلم)حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اس دور کی بات کررہی ہیں، جو خیر القرون کا زمانہ تھا، صحابۂ کرام کی کافی تعداد موجود تھی، معاشرہ دورِ حاضر کی برائیوں سے پاک تھا۔ اس وقت کے حالات حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی نظر میں اس قابل تھے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا جائے۔آج جب کہ ہر طرف بدامنی، فحاشی اور عریانی پھیلی ہوئی ہے ، تو بہ دررجۂ اولیٰ اس بات کا لحاظ رکھنا ہوگا۔اسی لیے علامہ طحطاویؒ نے فرمایا ہے کہ اعتکاف کے مسئلے کو بھی نماز کے مسئلے پر قیاس کیا جائے۔(نجم الفتاوی)

شوہر سے اجازت اور اس کی ضرورت
عورت کے اعتکاف کرنے سے چوں کہ شوہر کا حقِ استمتاع متاثر ہوتا ہے ، اس لیے اسے شوہر سے اجازت لے کر ہی اعتکاف کرنا چاہیے ، البتہ جب شوہر ایک بار اجازت دے چکا ہو تو اب درست نہیں کہ اعتکاف شروع ہونے کے بعد صحبت کرے ۔نیز اگر اعتکاف کے درمیان ماہواری آگئی تو اعتکاف کی مخصوص جگہ سے باہر آجائے او رجوں ہی پاک ہو، غسل کر کے اعتکاف گاہ میں واپس چلی آجائے اور جتنے دنوں ناپاکی کی حالت میں گذرے ہوں،اتنے دن گن کر بعد میں روزے کے ساتھ قضا کر لے ۔عورت نے گھر میں جو جگہ اعتکاف کے لیے مخصوص کی ہے ، اس جگہ سے بلا عذر نکل جائے تو ٹھیک اسی طرح ان کا بھی اعتکاف فاسد ہوجائے گا جس طرح مَرد کا مسجد کی شرعی حدود سے بلا وجہ نکلنے سے ۔ نیز نذر ماننے کی وجہ سے اعتکاف واجب ہوجاتا ہے ، اگر اعتکاف کی نذر کسی خاتون نے مانی ہو تو اس پر بھی اعتکاف واجب ہوگا ، اور اسی طرح گھر کے ایک حصے میں اعتکاف کرنا ہوگا۔(کتاب الفتاویٰ)

کھانا وغیرہ پکانے یا کھانے کے لیے نکلنا
عورت کے اعتکاف کاطریقہ یہ ہے کہ گھرمیں جس جگہ نمازپڑھتی ہواس جگہ یاکسی اورجگہ کواعتکاف کے لیے مخصوص کرلے اورسوائے ضروری حاجات(پیشاب،پاخانہ،غسلِ جنابت)کے علاوہ اپنی جگہ سے باہرنہ نکلے ، جب حاجت کے لیے نکلے توحاجت پوری کرنے کے بعدفوراًاپنی جگہ واپس آجائے ۔دورانِ اعتکاف قرآن مجیدکی تلاوت،ذکروتسبیحات ونوافل وغیرہ جیسے مشاغل میں مصروف رہے ، بلاضرورت بات چیت سے احتراز کرے ۔ کھانا،پینا،سونااعتکاف کی جگہ ہی میں کرے ۔ ضروری حاجات کے علاوہ نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجاتاہے ۔اعتکاف کی حالت میں عورت اپنے گھروالوں کے لیے اپنے اعتکاف کی جگہ سے نکل کر سحری وغیرہ نہیں پکاسکتی،اور نہ ہی باہرنکل کرگھروالوں کے ساتھ سحری وافطاری کرسکتی ہے ، البتہ گھر میں اگر اور کوئی نہ ہو جو کھانا پکاسکے تو ضرورت کی وجہ سے اپنے اعتکاف کی جگہ میں ہی کھانا پکاسکتی ہے ۔ بات چیت ہروقت کی جاسکتی ہے ، مگراعتکاف کی جگہ میں رہتے ہوئے ، اور بلاضرورت تفصیلی بات چیت سے احترازکرتے ہوئے اہم گفتگوکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(نجم الفتاویٰ)

پورا کمرہ اعتکاف کے لیے
اگر پورا کمرہ نماز کے لیے مختص ہے تو اس میں اعتکاف درست ہے اور اگر کمرہ نماز کے لیے مختص نہیں ہے ، تو پہلے پورے کمرے کو نماز کے لیے (نیت کرکے) مختص کریں، تب اس میں اعتکاف درست ہوگا۔(نجم الفتاویٰ ملخصا)

متعین کرنے کے بعد جگہ تبدیل کرنا
اعتکاف کے لیے جگہ متعین کرنے کے بعد تغیر و تبدل جائز نہیں ہے ۔ اندر ہو یا باہر ہو، بہتر یہ ہے کہ بر آمدہ وغیرہ کا تعین کیا جائے یا پنکھے وغیرہ کا انتظام کر لیا جائے (کہ بعد میں تکلیف نہ ہو)۔(خیر الفتاویٰ)

عورت کے اعتکاف میں بیٹھنے سے مسجد کی سنیت
خلاصہ یہ کہ عورتوں کے لیے بھی اعتکاف مسنون ہے ، جس طرح مَردوں کے لیے مسنون ہے ، البتہ اعتکاف کے سلسلے میں مسجد کا جو حق ہے ، وہ خواتین کے اعتکاف سے ادا نہیں ہوسکے گا ، اس لیے کہ وہ گھر میں اعتکاف کریں گی۔ عورتوں کے لیے مسجد گوشے کے میں بھی اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔ خواتین کے حق میں بہتر یہ ہے کہ گھر میں نماز کے لیے جس جگہ کو مخصوص کر رکھا ہو، اسی میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہر جائے ، اگر مخصوص نہ کیا ہو تو اب کسی خاص حصے کومخصوص کر لے ۔ (الدرالمختار علی ھامش رد المحتار) رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں اگر مرد کے بجائے صرف عورت اعتکاف میں بیٹھتی ہے ، خواہ ایک ہو یا چند، اور(مسجد میں کوئی بھی)مرد معتکف نہ ہو، تو عورت کا اعتکاف صحیح ہوجائے گا،لیکن اس کے اعتکاف سے مَردوں کے ذمے سے اعتکاف کی سنیت ادا نہ ہوگی ، بلکہ ان کے اوپر اعتکاف کی ذمے دار ی باقی رہے گی۔(فتاویٰ محمودیہ )

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 300938 views (M.A., Journalist).. View More