عزت پر دولت کو ترجیح دینے والے ہزار عذرتراشیں
،لاکھ تاویلیں دیں ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے 100جھوٹ بولنا ہی پڑتے ہیں یہ
الگ بات کہ کچھ منہ پر زیادہ سے بیشتر نجی محفلوں میں بڑے شرمناک تبصرے
کرتے ہیں لیکن وہ کبوترکی طرح آنکھیں بندکرکے یہ سمجھ لیتے ہیں میں بلی کی
نظروں سے چھپ گیا ہوں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا حالانکہ انہیں پتہ بھی نہیں
چلتا وہ لوگوں کی نظروں سے کب گرجاتے ہیں اور نظروں سے گرنا بے حیائی سے کم
نہیں۔درویش اپنے دھن میں کہے جارہا تھا اس کے چاروں اطراف لوگوں کا ہجوم
تھا درویش کی یہ خوبی تھی کہ وہ سچی اورکھری بات بانگ ِ دہل کہنے کی تاب
رکھتاتھا اس نے کہاعزت خوش قسمت کو ملتی ہے اور دنیاوی لالچ میں اپنی عزت
کو مٹی میں ملانے دینے والا دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف ہے لیکن افسوس صد
افسوس کم ظرف سمجھتے ہی نہیں۔ دولت اور اولادکو فتنہ اس لئے کہا گیاہے کہ
اس کی محبت کے رنگ میں اپنے آپ کو سرسے پاؤں تک رنگین کرنے والے کا دل
کوئلے کی مانند سیاہ ہوجاتاہے لوگوں کی محبت، چاہت،امیداور یقین کودولت پر
فوقیت دینا بدبختی کی علامت ہے دولت نمرود،شداد اورفرعون کے پاس کیا کم
تھی؟ قارون کی دولت تو ایک ضرب المثل بن گئی ہے ایسی دولت کس کام کی جس کی
بنیادپر لوگ نفرت کرنے للیں اور جو دولت لوٹ گھسوٹ کرکے اکٹھی کی گئی ہو
انتہائی گھناؤنا فعل ہے جو ہر لحاظ سے قابل ِ مذمت ہے ۔
’’سنو لوگوسنو!دل و دماغ کی کھڑکیاں کھول کر سنو۔درویش کی آواز بھرا گئی یہ
مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کبھی کبھار تاریخ کا مطالعہ کرلیا
کرو بے اختیار اور بااختیار لوگوں کے حالات عبرت کیلئے کافی ہوتے ہیں ان سے
انسان بہت کچھ سیکھ سکتاہے لیکن پھر بھی مسلمانوں کو عبرت نہیں ہوتی دلوں
میں دولت کی محبت بڑھتی ہی جاتی ہے۔جب ہلاکو خان نے بغدادپر چڑھائی کی عجب
افراتفری مچ گئی خلیفہ معتسم باﷲ کو ان کے حواریوں نے مشورہ دیا اب شکست سے
نہیں بچا جاسکتا ہلاکو خان سے مذاکرات کرکے کچھ مطالبے منوالئے جائیں شاید
بچت کا کوئی پہلو نکل آئے جارح کو خلیفہ نے پیغام بھجوایا جو اس نے
منظورکرکے انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دیدی سب بن ٹھن کر ہلاکو خان کے
دربارمیں جا پہنچے ان میں کچھ مکار بھی تھے کچھ غدار بھی ۔۔کچھ فکرمند بھی
اورکچھ سادہ لوح بھی۔ بھانت بھانت کی بولیاں اس وقت بندہوگئیں جب ہلاکو خان
ایک عجب شان سے وہاں پہنچاسب نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا کچھ جی حضوری
کرنے لگے اسی اثناء میں رنگ برنگے کپڑوں سے ڈھکے کچھ خوان لائے گئے خلیفہ
اور اس کے حواری خوش ہوگئے کہ ہماری خوب خاطر تواضح ہوگی ہلاکو خان نے کہا
کھاؤ۔۔سب نے بے تابی سے رومال الٹائے تودنگ رہ گئے خوانوں میں کھانے کی
بجائے ہیرے، جواہرات،اشرفیاں اور سونے چاندی کی ڈلیاں تھیں ہلاکو خان کی
بارعب آواز گونجی کھاؤ۔ خلیفہ نے ہمت کرکے کہا یہ کیونکر کھائے جا سکتے
ہیں؟
’’تم ۔ ہلاکو خان نے خلیفہ کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ساری
گندگی ہیرے، جواہرات،اشرفیاں اور سونا چاندی جمع کرتے رہے یہ دولت عوام کی
فلاح بہبود اور جنگی تیاریوں پر صرف کی ہوتی تو تمہاری پوری سلطنت ہمارے
خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی تم نے جو کچھ جمع کیا تم لوگوں کو وہی
کھانا ہوگا یہ میرا حکم ہے اور پھر جس نے کھانے سے انکارکیا ہلاکو خان کے
سپاہیوں نے زبردستی اس کے منہ میں ہیرے، جواہرات،اشرفیاں اور سونے چاندی کی
ڈلیاں بھردیں چیختے چلاتے اسی عالم میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ دولت سے محبت
انسان اور انسانیت کی موت ہی توہے لوٹ گھسوٹ کرکے دولت جمع کرنا ڈاکہ ڈالنے
کے مترادف ہے اور محض خوشامدیا مادی مفادات کیلئے ایسے عناصرکا ساتھ دینے
والے ضمیر فروش بڑے مجرم ہیں۔درویش کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے کہا کیا
زمانہ آگیاہے اب لوگ لوٹ مارکیلئے بھی تاویلیں دیتے پھرتے ہیں کسی مسلمان
کی شان نہیں کہ وہ ایسا کام کرے جب اسے ایک جھوٹ چھپانے کیلئے 100جھوٹ
بولنا پڑیں استغفراﷲ استغفراﷲ
لعنت اﷲ الالکاذ بین
لوگو! تصورکی آنکھ سے کبھی سوچو وہ معاشرہ بھی کیسا معاشرہ ہوگا جب اس
شخصیت جس سے اس وقت کی عالمی طاقتیں ہیبت سے خوفزدہ رہتی تھیں ایک عام سا
شخص مسجد نبو ی ﷺ میں ان کا دامن تھام کر پوچھتاہے عمرؓ ! سب کے حصہ میں تو
ایک ایک چادر آئی تھی تمہارا قد درازہے تمہارا لباس کیسے بنا؟۔ وہ
منظرکیساہوگا؟ مذہب کی بنیادپر وجودمیں آنے والی دنیا کی پہلی مملکت میں
ایساہی نظام ایسا ہی قانون ہونا چاہیے تھا دعاہے کہ اﷲ ہماری یہ خواہش پوری
کردے ایک مسلمان حکمران کو اخلاقی طورپر عام آدمی سے بہترہی نہیں بہترین
ہونا چاہیے حیف صد حیف اب حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں ایک بار پھر
الفاظ پر غورکریں شاید یہ باتیں کسی کے دل میں ترازو ہوجائیں توعاقبت
سنورسکتی ہے۔درویش نے کہاعزت پر دولت کو ترجیح دینے والے ہزار عذرتراشیں
،لاکھ تاویلیں دیں ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے 100جھوٹ بولنا ہی پڑتے ہیں یہ
الگ بات کہ کچھ منہ پر زیادہ سے بیشتر نجی محفلوں میں بڑے شرمناک تبصرے
کرتے ہیں لیکن وہ کبوترکی طرح آنکھیں بندکرکے یہ سمجھ لیتے ہیں میں بلی کی
نظروں سے چھپ گیا ہوں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا حالانکہ انہیں پتہ بھی نہیں
چلتا وہ لوگوں کی نظروں سے کب گرجاتے ہیں اور نظروں سے گرنا بے حیائی سے کم
نہیں۔ویسے سوچا جائے تو دولت تو طوائفوں کے پاس بھی کم نہیں ہوتی لیکن کوئی
انہیں عزت دار تسلیم نہیں کرتا تو سوچنا پڑے گا جس سے انسان کی عزت خاک میں
مل جائے ایسی دولت کس کام کی۔ لوگ بتاتے ہیں کر پشن اس قدرہوگئی ہے کہ تو
کانپ کانپ جاتاہوں تین تین مرلے کے مکان میں رہنے والے پوری پوری ہاؤسنگ
سکیموں کے مالک بن گئے ہیں یااﷲ رحم الحفیظ و الامان یہ لو گ کیوں احساس
نہیں کرتے مذہب اسلام تو ویسے ہی ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے دنیا کے کسی
خطے،کسی مذہب یا کسی معاشرے نے کرپشن کو جائز قرارنہیں دیا اب ہمارے مذہبی،
سیاسی و سماجی رہنماؤں اور اداروں کو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے
جرأت مندی سے کرپشن جیسے فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و
حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات
سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا
خاتمہ ناممکن ہے ۔حکمرانوں کو اس سلسلہ میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت
ہے۔
لوگو! میری نظریں وہ منظردیکھ رہی ہیں جب لوٹ گھسوٹ کرنے والوں کو لوگ
سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور انہیں پناہ دینے والا کوئی نہیں ہوگا ایسا وقت آنے
سے پہلے ہمیں اپنے اعمال کو درست کرناہوگا، توبہ کرنی ہوگی،حقداروں کو ان
کا حق لوٹاناہوگا اﷲ بڑا غفورالرحیم ہے معاف کرنے والا غلطیوں ،کوتاہیوں
اورفروگذاشتوں سے درگذرکرنے والاہے ایک انسان کتنا کھا سکتاہے۔کتنے سال
زندہ رہ سکتا ہے۔پھرکیوں نہیں سوچتا اس نے اتنی دولت کیوں اکٹھی کرناہے
ایسا کرنا تو دوزخ کا ایندھن جمع کرنے کے برابرہے حالانکہ اپنی دولت کو
انسانیت کی خدمت پر صرف کرنے والے تاقیامت زندہ رہتے ہیں آپ کے ارد گرد
سینکڑوں مثالیں بکھری پڑی ہوں گی زلزلے،حادثے،بیماریاں ہمارے لئے وارننگ
ہیں اس سے پہلے توبہ کا دروازہ بند ہوجائے یاسانس اوپرکی اوپر نیچے کی نیچے
رہ جائے جائز ناجائز حلال حرام میں تفریق کرناہوگی عزت پر دولت کو ترجیح
دینے کی روش ترک کرناہوگی ذاتی مفادکیلئے حد سے گذرجانا بڑا مکروہ فعل ہے
اس سے بچو سچ کا ساتھ دو سچائی کے ساتھی بن جاؤ یہی درویش کی نصیحت ہے جو
اس پر عمل کریگا دونوں جہانوں میں کامیاب و کامران ہوگا انشاء اﷲ۔
|