چھین کے لے گیا مٹھاس و اپنایت ۔’’ استاد جی ‘‘سے’سر ‘‘تک سفر

تحریر:ایس ایس حامد یزمان
پچھلے وقتوں کی بات ہے جب سکول ٹیچر کو ''ماسٹر جی یا استاد صاحب'' اور دینی تعلیم دینے والے کو'' استاد جی یا قاری صاحب'' کہتے تھے ۔جب تک ماسٹر جی اور استاد جی کا دور رہا عزت و احترام اور عقیدت خوب رہی استاد کو دیکھ کر بچے احتراماً سر جھکا لیتے تھے۔ کبھی استاد کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔ کبھی نظریں اٹھا کر معلم کو جواب نہیں دیا تھا ۔بچوں کے والدین ،دادا ،پردادا تک بچوں کے استاد کا احترام کرتے۔ ماہ و سال کی گردش نے جہاں بہت ساری چیزوں کو لپیٹ میں لیا وہیں اخلاقیات کو بھی متاثرکیا۔انسان ترقی کی منازل طے کرتا گیا اور اخلاقی قدریں دم توڑتی گئیں۔ لہجوں میں بناوٹ آگئی۔ رشتوں میں بغض و کینہ اور حرص و ہوس نے جگہ لے لی۔ استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ مفاد پرستی اور خود پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔

استاد جس کو اعلیٰ مسند دی گئی یا تو ذلیل و رسوا ہوا یا اس نے دوسروں کو خوار کیا ۔تعلیم و تعلم کے مقدس پیشے کو تماشہ بنا دیا ۔دورِجدید میں چیدہ چیدہ ایسی ہستیاں موجود ہیں جو علم و عمل میں انبیاء کرام علیھم السلام کے نقشِ قدم پر گامزن ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں کے اعلیٰ پائے کے استاد اور مدارس موجود رہے وہ دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔سائنسی ترقی ہو یاعلمی و ادبی، فنِ مصوری ہو یا فنِ موسیقی، علمِ فلکیات ہو یا علمِ طب و جراحت ہر میدان میں مسلمانوں نے راج کیا اور اپنا لوہا منوایا جیسے ہی اسلاف کے مکاتب و فکر سے روگردانی کی اور صرف جدید نظامِ تعلیم کو اہمیت دی عالمِ اسلام تنزلی کا شکار ہوا ۔کبھی وقت تھا کہ اقوامِ عالم سے افراد مسلمانوں کے مدارس میں علم کی پیاس بجھانے آتے تھے اور آج ہم دیگر ممالک میں علم کے حصول کی خاطر جاتے ہیں ۔پہلے اساتذہ کے پاس علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہوتا تھا آج کل اگر کسی کے پاس علم ہے تو عمل نہیں،عمل ہے تو علم کی کمی، اگر دونوں خوبیاں موجود ہیں تو اکڑ بھی شاملِ حال ہے، قوتِ برداشت جو کہ اساتذہ کا خاصہ تھی اب مفقود، قول و فعل میں مطابقت نہیں ہے۔.کجا استاد کو وقت کی پابندی کا خوگر ہونا چاہئیے یہاں دیر سے لیکچر میں آنا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے ۔اگر کوئی استاد تمام صفات سے متصف ہوتا ہے تو معاشرہ ان کا دشمن بن جاتا ہے اب تو یہ حالت ہے بقول شاعر
اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے

آج کل استاد کو ''استاد جی '' کہنا معیوب سمجھا جاتا ہے اب ''سر'' ٹیچر, لیکچرر یا پروفیسر جیسے الفاظ مستعمل ہیں کیونکہ ہر نائی، حلوائی، بس ڈرائیور،ٹرک ڈرائیور، رکشہ ڈرائیور،پلمبر،الیکٹریشن، حمام والے، درزی اور دوکاندار کو استاد جی بولا جاتا ہے۔

اب اگر کسی کو علمی رتبہ دینا ہے تو ''سر '' کہا جاتا ہے دفاتر میں،کالجوں میں، اسکولوں میں،یونیورسٹیوں میں ہر جگہ'' سر'' بولا جاتا ہے کہیں کہیں ہم جیسے بھی کم فہم اور کم علم لوگ ہوتے ہیں جن کو لفظ ''استاد جی'' میں اپنائیت محسوس ہوتی ہے یوں لگتا ہے جیسے اس لفظ میں شیرینی گھول دی گئی ہو اس لفظ کی ادائیگی کے وقت منہ میں مٹھاس آجاتی ہے اور سر احتراماً جھک جاتا ہے ۔ وقتِ حاضر کے تقاضے کچھ اور ہی روپ لیے مسکرا رہے ہیں ہم نے بھی ڈھیٹ پن کا شربت پی رکھا ہے ۔ہم تو استاد جی ہی بولتے ہیں اور استاد جی بولیں گے کیونکہ ہمارے دل مسرت و راحت اور سکون استاد جی بولنے سے حاصل ہوتا ہے
خیر لفظ ''سر'' ہو یا ''استاد جی '' ادب و احترام کا حقدار ہے۔

کیونکہ ہم نے بڑی بڑی ڈگریوں اور + پلس والوں کو در در کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے بے شک یہ بات حق اور سچ ہے کہ''باادب با نصیب بے ادب بد نصیب''
 

Sarah Omer
About the Author: Sarah Omer Read More Articles by Sarah Omer: 4 Articles with 2384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.