فتح مکہ

بیس رمضان المبارک کو شاہ امم سید الکائنات سلطان عالم فاتح مکہ بن کر مکہ میں داخل ہوئے۔ جس کی فتح کی گواہی خداوند نے قرآن میں دی انا فتحنا لک فتحا مبینا، وہ اس عاجزی سے مکہ میں داخل ہوئے کہ سر مبارک اونٹی کی پشت (کجاوے کی لکڑی پر) پر جھکایا ہوا تھا۔

تیری ہرادا پہ ہے جان فدا
تیری ہرادا نے مزہ دیا

دو عالم کی انبیاء کی امامت کروانے والا نبی اپنے اس شہر میں فاتح بن کر آیا جہاں اسے دودھ پلانے پر بھی کوئی راضی نہ ہوتا، جہاں اس کی یتیمی کا بچپن گزرا، نظر مبارک دوڑاتے جاتے تھے۔ کبھی ان گلیوں کو دیکھتے جہاں حضرت حمزہ کے ساتھ بچپن میں کھیلتے تھے، کبھی ان وادیوں کو جہاں اماں حلیمہ کی بکریاں چراتے تھے، کبھی جبل کوہ ابو قیس کو جہاں سے داستان نبوت شروع ہوئی تھی۔ پھر دیکھا حضرت خدیجہ کے گھر کو جہاں محبت و وفا سے گوندھی ہمسفر کے ساتھ حسین ایام گزرے تھے پھر شعب ابی طالب کو جہاں اذیت کے باب رقم ہوئے۔ آج میرے نبی کو اپنے چچا حمزہ بہت یاد آئے ہونگے ان کے قاتلوں کے گھر دیکھے ہونگے، آج حباب بن ارت پہ کیا ظلم میرے نبی کو یاد آتا ہوگا، آج وہ منظر بھی رلاتا ہوگا جب کلمہ توحید کہنے پر صحن حرم میں آپ پر اوجھڑی پھینکی گئی۔ آج ان راستوں نے میرے نبی کو جھک جھک کر سلام کیا ہوگا جہاں سے رات کے اندھیرے میں یار غار صدیق اکبر کے ساتھ ضوئے توحید اور نور رسالت کو بچانے کے لئے نکلے تھے۔

پس آج فتح کا دن ہے۔ آج پورا مکہ ہل کہ رہ گیا۔ قریش سے خدا ناراض ہوا اعدائے دین پر دنیا تنگ ہوگئی اور نصرت مصطفیٰ کی خاطر کعبے کی حرمت بھی آقائے دو جہان کی حرمت پر قربان ہو گئی۔ 10ہزار شیدائے محمد کا لشکر دیکھ کر ابو سفیان بھی پکارنے لگا ۔ ھذا رسول اللہ! آج ایسا لشکر آرہا ہے جس نے خون کی قبائیں پہن رکھی ہیں جس کے مردوزن نے اقامت دین کی قسم کھا رکھی ہے۔

وہ لوگ جو 23 سال سے عداوت سے بھرے ہوئے تھے۔ زبانیں نبی کریم کے خون کی پیاسی تھی۔ آج رحم کی بھیک مانگنے سے بھی شرمندہ تھے۔ بڑے بڑے روسائے قریش ابو سفیان سر فہرست۔ آج قبیلہ مزیبنہ، اسلمی،غفار، بنوں عدی جیسے کمزور قبیلوں کی شان بے نیازی اور عسکری طاقت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
یہ کیا ہوا کہ کل کے فقیر آج کے بادشاہ ہیں ، کل کے مظلوم آج کے منصف!!!
ابو سفیان کہنے لگے ہائے بنو مزینہ کو بھی پر لگ گئے۔ ہائے کل کے چھوکرے خالد بن ولید کا لشکر دیکھو۔ ہائے بنو غفار ہائے بنو بکر کہاں کل تک ہم چوہدری تھے اور یہ ہمارے سامنے کمی کمین تھے۔ آج غرورِ فرعونیت کو بھی ضرب موسیٰ نے تباہ کردیا۔

فقال النبی لااللہ اللہ وحدہ نصر عبدہ
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کی نصرت کی کہ اعدائے دین انگشت برنداں رہ گئے۔

سعد بن عبادہ نے علم رسالت ہاتھ میں لے کر فرط جذبات سے پکار رہے
الیوم یوم الملحمتہ الیوم تستحلل الکعبتہ

آج بڑا گرم دن ہے آج کعبے کی حرمت بھی حلال ہو گئی۔ ابو سفیان حضوراکرم کی اونٹی کے قریب آکر سر جھکائے عرض کرنے لگے (قربان آپ کی اونٹی پر) یا رسول اللہ آپ رحم دل ہے۔ ھل یوم یوم الملحمہ ؟ فقال النبی! لا نہیں الیوم یوم المرحمتہ
نہیں نہیں آج تو رحمت کا دن ہے۔ آج نفرت کا نہیں محبت کا دن ہے۔ انتقام کا نہیں اعلان برأت کا دن ہے۔ اور مثل یوسف فرمایا !
لا تتریب علیکم الیوم۔ جاؤ آج تم پر کوئی قدغن نہیں تم آزاد ہو سارے

قیس بن سعد کو اپنا عمامہ بطور نشانی دے کر کہا کہ جاؤ اپنے والد سعد بن عبادہ سے یہ دکھا کر جھنڈا واپس لے لو۔ یہ رحم و حلم دیکھ کر مردوزن نے ںیعت کے قلاولے گلے میں ڈال دیئے اور اس نبی رحمت اللعالمین کے قدموں پر سب کے تکبر قربان ہوگئے۔ بھیڑوں کی طرح خون کے پیاسے لوگ بھی آج احترام و تقدیس کی وظیفہ خوانی کرنے لگے۔
فرمایا آج بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا۔ابو سفیان کے گھریا کعبے میں داخل ہونے والے اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرنے والے پر رحم کھایا جائے گا۔

ہاں ہاں ! اگر یہ چار گستاخ رسول شاتم نبی اگر کعبے کی چادروں میں بھی چھپ جائیں تو انھیں وہاں بھی ذبحہ کر دینا۔
ایک مقیس جو مسلما ن ہوکر کاتب وحی بنا
اور پھر مر تد ہو کر کہتا تھا نبی تو مجھ سے پوچھتے تھے انہیں خود کوئی علم۔نہیں تھا

دوسرا حویث بن نقیذ جو شہزادی رسول بی بی زینب کا قاتل تھا
تیسرا عبداللہ بن حنطل اور اس کی کنیزیں جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجو میں قصیدے پڑھتے تھے، گستاخی رسالت کے مرتکب تھے۔

یہ ہے ناموس رسالت جن کو بھول کر آج کل کے سستے عاشق رسول رحمت، اخلاق، صلح و امن کا درس دیتے پھرتے ہیں۔ او جی جانے دو فرانس کو کارٹون بنا کر صرف ہمیں چھیڑتے ہیں اگر ہم نے احتجاج کیا تو ہمارا ملک غریب ہو جائے گا۔!!!!
حرمت رسول وہ ہے جس پرحرمت کعبہ بھی ربّ کعبہ نے حلال کر دی تھی۔
پھر حق و باطل کی آخری ضرب لگائی کعبے کے ایک ایک بت کو توڑا اور "جاءالحق وزحق الباطل أن الباطل کان زھوقا"

مناصب کعبہ میں سب سے اعلیٰ وارفع منصب مؤذن رسول بلال کو عطا کیا اور کعبہ کی چھت پر چڑھ کر آذان دینے کا حکم دیا۔ آج روسائے جہالت اور قریش کے وڈیروں کے رونگھٹے کھڑے کر دیئے کہ وہ بلال کالا حبشی غلام جسے ریت پر گھسیٹتے تھے۔ آج سید بلال رضی اللہ تعالیٰ بن کر کعبہ مشرفہ کے اوپر چڑھ کر اذان کہےگا۔ عکرمہ بن ابو جہل اور صفوان بن امیہ سے یہ منظر بھی نہ دیکھا گیا اور وہاں سے چلتے بنے کہ آج اگر ہمارے آباء یہ منظر دیکھ لیتے تو حیرت سے دس بار مر جاتے لیکن صدائے حق اذان بلالی بن کر گونجتی رہی۔اور دین الہی تخت مکی پر قائم ہوا۔اورنورِ توحید کی ضیاعوں نے آسمان کو بھی روشن کر دیا۔
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49437 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.