آج کے دور میں مسلمان کی پہچان کرنا بہت ہی آسان ہے۔ پہلے
پہل تو ملکی سطح پر اس کا پتہ چلتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے ، پھر
علاقائی سطح پر ، اور آخر میں اس شخص کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص
مسلمان ہے۔ اس طرح کی معلومات عام طور پر بین الاقوامی سطح پر یا غیر
مسلموں کو چاہیے ہوتی ہے۔ اب پتہ لگاتے ہیں کہ ایک مسلم معاشرے میں ایک
مسلمان کی پہچان کیسے ہوگی۔ میرے خیال میں تو اس کا جواب ہر کسی کو معلوم
ہو گا۔ "ایک ایسا شخص جس کی داڑھی ہو ، عبادات میں یکسر کوئی کسر نہ چھوڑتا
ہو"۔ لیکن کئی ایک کیس اس کے متضاد ہیں۔آج کل کے رواج میں دو طرح کے گروہ
ہیں۔ ایک کا نام "کسی سے نہ لینا" دوسرے کا نام ہے " کسی کونہ دینا" اس فکر
انگیز دور میں ہر کوئی اپنی فکر میں ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے سے لاتعلقی کا
اظہار کرتا پایا جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس دولت بے تحاشا ہے تو دوسرے کے لئے
ایک کوڑی بھی نکالنا محال ہے۔ شہری و دیہی آبادی میں اس طرح کے گروہ کی
کثیر تعداد ہے۔ اب جب سامنے والے گھر کا ہی نہیں پتہ کہ اس میں رہنے والا
شخص کون ہے تو وہاں ہمسائے کے حقوق کیسے پورے ہوتے ہوں گے۔ فاقوں کا پتہ
کرنا تو بعد کا کام ہے۔ ہمسائے کے حقوق تو گھر کے باہر ٹھہرے تو گھر کے
حقوق کا کیا حال ہو گا۔ یہ تو اولڈ ہاؤسز سے پتہ چل رہا ہے ۔ رشتوں اور
بندھنوں کی ڈوریں اتنی مضبوط بنائی ہوئی ہیں کہ رشتہ داروں کو تختہ دار پہ
لٹکایا ہوا ہے۔ کیونکہ ہم نے اس اسلوب کو باب کامل سمجھا ہے کہ آج کے دور
میں وہی شخص اچھا ہے جس کا نہ کسی سے لینا ہو نہ دینا ہو۔ اگر سڑک کنارے
کوئی حادثے سے زخمی پڑا بلبلا رہا ہو تو شاید ہی کوئی خدا ترس رک کر اس کی
مدد کرے۔ میرے بچپن میں موسم گرما میں ایک شخص کسسی میں منہ کے بل ڈوبا ہوا
پڑا تھا۔ شاید رات کے کسی پہلو میں مرگی کے دورے سے مرا یا کسی نے قتل کیا
اس کی نعش وہاں پڑے پڑے دھوپ کی وجہ سے کمر والے حصے سے سیاہ ہوگئی لیکن
کسی نے اسے نہ ہی سیدھا کیا اور نہ ہی پانی سے نکال کر کسی خشک جگہ چھاؤں
میں رکھا۔ ہر کوئی یہی کہتا رہا کہ پولیس کیس ہے۔ ہم دل میں ہمدردی ضرور
رکھتے ہیں لیکن عملی طور پر بہت خود غرض ہوتے ہیں۔غریب بیچارا اگر مانگ کر
گزارا کر رہا ہے تو وہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا مارا ہوا ہے۔ کسی کو
شوق نہیں کہ اپنی غیرت کو کچل کر ہاتھ دراز کرے۔ وہ زکوٰۃ اور عشر جیسے
فرائض کی غیر انجام دہی کا شکار ہیں۔لیکن ہم ان کی مدد کرنے کی بجائے الٹے
سیدھے الفاظ کس دیتے ہیں۔ آج کے دور میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک
ہی باپ کے دو بیٹے ایک مالدارو غنی تو دوسرا حاجت مند۔ پھر بات ساری نصیب
پہ ڈال دی جاتی ہے۔ اور پھر عقائد کی رو میں اس طرح سے مواد ذہن نشین کروا
دیا گیا ہے کہ دنیا اور دنیا کی نعمتیں غیر مسلموں کے لئے ہیں۔ اور
مسلمانوں کے لئے اجر عظیم ہے۔ پھر چاہے بچے بھوک سے مریں یا پھر پوری قوم
قرض تلے ڈوبے۔ انگریزی ہم کیوں سیکھیں یہ تو غیر مسلم کی زبان ہے۔ اگر ان
کی زبان نہیں سیکھنی تو عربی یا اردو میں ٹیکنالوجی متعارف کروادیں اور
کوئی اردو والا کمپیوٹر ہی ایجاد کر دیں۔ نہیں ۔۔۔! کرونا کی ویکسین آپ
بنائیں۔ ہم تو کاپی اور نقل کرنے میں استاد ہیں۔ لیکن لباس کاپی کرنے پہ
فتوے ۔۔۔۔ کیا ہم بس کلمہ اور رسالت کا نعرہ لگا کر اجر عظیم کما لیں گے ؟
جبکہ ابھی تو یہ طے کرنا باقی ہے کہ کون سا گروہ جنت کا حق دار ہے۔ ہمارے
روزوں کا تو یہ حال ہے کہ آدھے سے زیادہ بیماری میں لاحق ہونے کی وجہ سے
روزہ رکھنے سے قاصر ہیں اور حج خیر سے ا بھی ہو نہیں رہا اور نہ ہی سارے جا
سکتے ہیں۔ پھر رہا آخری جہاد جو کہ ڈرامے میں ارتغرل غازی کے ذمے ہے۔ ہم نے
ایسے ہی غالب آ جانا ہے۔ بس لبیک کرنا ہے اور فلسطین والو۔۔۔۔۔! ہم تمہارے
ساتھ ہیں۔ جبکہ سب قوموں میں لاڈلی قوم بنی اسرائیل ہیں۔ مسلمانو۔۔۔۔!
مسلمان کی پہچان قرآن ہے۔ اس پہ عمل اور اس میں تحقیق ہی ہمیں اپنی پہچان
دوبارہ واپس دلا سکتی ہے۔ اس کی رسی ہی ہمیں تفرقے سے بچا کر ایک جٹ کر
سکتی ہے۔ ہمارا اتحاد ہی ہماری جیت ہے۔ اسلام اگر مذہب ہوتا تو یہ چند
عبادات کو مجموعہ ہوتا لیکن یہ ایک دین ہے اور اس میں عبادات 20 فیصد جبکہ
معاملات 80 فیصد ہیں۔ اور اہک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ 100 میں سے 100
نمبر لے۔ نہ کہ 20 میں سے 20.
#savepalestine
|