شانِ ابوتراب جناب علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

 آپ رضی اﷲ عنہ کا نام علی ابن ابی طالب آپکی کنیت ابو تراب ہے، آپکی پیدائش 13 رجب ہجرت سے21 سال پہلے ہوئی، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شانِ و فضائل اور حسب و نسبت کی بات کی جائے تو بنی نوع انسان کے ہر فرد کو رشک آجائے، پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے پیارے صحابہ رضوان اﷲ علیھم اجمعین میں سے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسی شان عظیم کسی اور صحابی رسول رضی اﷲ عنہ کے حصہ میں نہیں آئی، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نسبت کے کیا ہی کہنے، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، نبی کریم ﷺ کے سب سے زیادہ محسن چچا جناب حضرت ابو طالب کے بیٹے ہیں گویا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ور نبی کریم ﷺ آپس میں چچا زاد بھائی ہیں، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سب سے بڑا اعزاز یہ بھی ملا کہ انکا خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کیساتھ نکاح ہوا ۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خاندان کی بات کی جائے تو باپ نبی کریم ﷺ کے چچا، ماں نبی کریم ﷺ کی چچی، بیوی خاتون جنت حضرت فاطمہ رضہ اﷲ عنہ نبی کریم ﷺ کی بیٹی ہیں، جنت کے سردار جناب حضرت حسن اور حسین رضوان اﷲ علیھم اجمعین ہیں جنکی بچپن میں پرورش رحمت اﷲ العالمین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے،۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بچوں میں سب سے اول شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد اسلام لائے آپ کے بے شمار فضائل و کمالات بے اور شجاعت وبہادری سے دین اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے آپ انتہائی بہادر اور شجاع تھے آپ نے اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر سمیت قریبا تمام غزوات میں شرکت فرمائی اور نبی کریم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اسلامی جنگوں میں آپ بنفس نفیس شریک ہوتے رہے۔ قرآن کریم ایسیمیں کئی مقامات ہیں جن میں خالق کائنات اﷲ کریم نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کی فضیلت ومنقبت کو اجاگر کیا ہے۔جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:(البقرۃ:137) یعنی اگر تم ایمان اس طرح لا ؤ جیسا کہ ایمان صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین لائے ہیں تو تحقیق تم فلاح پا جاؤ گے، اس لحاظ سے بھی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کا ذکر کرنابہت ضروری ہے، تاکہ امت محمدیہ ان کے مقام او رمرتبہ کو سمجھے او ران کے مطابق اپنے ایمان کو مضبوط تر کرنے کی کوشش کریں۔قرآن مجید و فرقان حمید کی واضح تر ہدایات کے مطابق کہ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کی اقتدا کروگے تو فلاح پا جاؤ گے، اس لئے ہمیں جہاں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کی اقتدا کرنی ہے وہی پر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کی شان اور انکو خراج عقیدت بھی پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہنا چاہئے،اس لیے بھی ان عظیم ہستیوں کی تعریف کرنا کار خیر ہے کہ قرآن کریم نے ان مقدس انسانوں کے ایمان کو بعد میں آنے والے انسانوں کے لیے معیار اور پیمانہ بنایا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عقیدت ، محبت اور جانثاری بے مثال ہے ہجرت کے وقت آپ ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لٹا یا اور امانتیں ان کے سپرد کی اور کہا کہ صبح امانتیں جن لوگوں کی ہیں ان کے حوالے کرکے مدینہ منورہ آجائیں۔ ادھر دارلندوہ میں یہ فیصلہ ہوچکا کہ نعوذ بااﷲ حضورﷺ جیسے ہی گھر سے باہر نکلیں ان کو تلواروں کے وار سے یک بارگی میں شہید کردیا جائے یہ وہ دشمنان خدا اور رسول تھے جن کی امانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھی تھی جوکہ حضور ﷺ کی سچائی اوردیانتداری کے قائل تھے اور آپ ﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ آدھی رات کو حضور ﷺ سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے گھر سے روانہ ہوگئے اور صبح کفار قریش نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جب دیکھا تو انکی ساری مکاریاں اﷲ کے فضل و کرم سے دم توڑ چکی تھیں اور اﷲ کی تدبیر کے سامنے انکی کوئی مکاری کام نہ آئی۔ اور حضو ر ﷺ اﷲ کریم کی حفاظت سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی خلافت و حکومت کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن وسنت کی بنیاد پر قائم نظامِ حکومت تھا۔ خلیفۃالمسلمین حضرت مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ’نے656سے661ء چار سال آٹھ مہینہ نودن تک امور خلافت کو انجام دیا۔حضرت علی کر م اﷲ وجہہ علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ رضوان اﷲ علیھم اجمعین میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے جواہر پارے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فر ماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ کودریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے سامنے جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ رضی اﷲ عنہا نے فر مایا کہ علی رضی اﷲ عنہ سے زیادہ مسائل شریعہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے،حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں کوئی مشکل مقد مہ پیش ہوتا اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ موجود نہ ہوتے تو وہ اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگا کر تے تھے کہ مقد مہ کا فیصلہ کہیں غلط نہ ہو جائے۔(تا ریخ الخلفاء،خطبات محرم:ص204) مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے سامنے ایک ایسی عورت پیش کی گئی جسے زنا کا حمل تھا۔ ثبوت شر عی کے بعد آپ نے اسے سنگسار(ایک قسم کی شرعی سزا جس میں آدمی کو کمر تک زمین میں گاڑ کر پتھر مار،مار کر اسے ختم کر دیا جاتا تھا، یہ سزا زانی (RAPEST اور زانیہ کو دی جاتی تھی) کا حکم فر ما یا۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے یاد دلا یا کہ حضور ﷺ کا فر مان ہے کہ حاملہ عورت کو بچہ پیدا ہونے کے بعد سنگسار کیا جائے۔اس لیے کہ زنا کرنے والی عورت اگر چہ گناہ گار ہوتی ہے مگر اس کے پیٹ کا بچہ بے قصور ہو تا ہے۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی یاد دہانی کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اپنے فیصلہ سے رجو ع کر لیا اور فر مایا:لَوْ لَا عَلِیٌّ عُمَرُیعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا (رضی اﷲ تعالیٰ عنہما)(خطبات محرم:ص،204سے205) حضرت علی کر م اﷲ وجہہ ا لکریم کا علمی مقام و مرتبہ، ان کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین وآخرین میں ممتاز ومنفرد تھی۔ اﷲ رب العزت نے انھیں عقل وخرد کی بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اورمشکل ترین سمجھے جاتے تھے، انہیں مسائل کو وہ آسانی سے حل کر دیتے تھے۔ اکا بر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے لیے حضرت علی کر م اﷲ وجہہ مو جود نہ ہوں۔حضرت سعید بن ا لمسیب رضی اﷲ عنہ بیان کر تے ہیں: *کَانَ عُمَرُ یَتَعَوَّذُ بِا اللّٰہِ مِنْ مَعَصلہ لَیْس فِیْھا وفی روایۃ: لَیْسَ لَھَا اَبُوحَسن ’’حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اس پیچیدہ مسئلہ سے اﷲ تعا لیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کے لیے ابو الحسن علی رضی اﷲ عنہ ابن طالب نہ ہوں۔(فضائل الصحابہ،ج:2،ص:803،رقم)۔حضرت علی کر م اﷲ وجہہ کا علمی مقام بہت بلند تھا اور کیوں نہ ہو کہ ان کی شان میں نبی کریم ﷺ کا فر مان عالیشان ہے کہ’’میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔’’پوری حدیث پاک انا مدینۃ العلم و ابو بکر اساسھا و عمر حیتانھا وعثمان شفقھا و علی بابھا۔(رواہ الحاکم،الطبرانی،1089-1090، الشوقانی، 307-308،القول المجموعۃ) ترجمہ: میں شہر علم ہوں،ابوبکر اس کی بنیاد ہیں،عمر اس کی دیواریں ہیں،عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے بہت سے ایسے کاموں کی ابتدا فرمائی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعد نحو و صرف باقی ہیں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا کارنامہ زندہ و جاوید رہے گا۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم عربی گرامر کے موجد ہیں (ایجاد کرنے والے ہیں) آپ ایسے علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی شخص عالم نہیں بن سکتا۔آج اگر کوئی انسان عالم ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کی بدولت ہے جس کے موجد باب العلم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہیں اور وہ علم عربی گرامر(Grammer)یعنی علم نحو ہے۔

اہل علم اس بات کو جانتے ہیں کہ کسی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کی لغت کی معرفت کس قدر ضروری ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو اور بڑھ جاتی ہے قرآن وحدیث کو پڑھنا،سمجھنا،علم نحو اور صرف یعنی عربی گرامر کے بغیر ممکن نہیں،اسی لیے عربی گرامر کے متعلق کہا گیاہے’’*اَلصَّرْفُ اُمُّ الْعُلُوْمِ وَالنَّحَوْ اَبُوْھَا* ’’ علم صرف تمام علوم کی ماں ہے اور علم نحو ان سب کا باپ ہے’’اور ان دونوں علوم کے موجد یعنی بانی کہا جاسکتا ہے، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے سب سے پہلے آپ ہی نے ان دونوں علوم کے بنیادی قوانین املا کرائے اور اسم،فعل اور حرف کی پہچان بتائی۔پھر ان کے بتائے ہوئے علم کو بغرض سہولت دوحصوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’’صرف’’کا نام دیا گیا اور دوسرے کو’’نحو’’کا۔ حقیقت میں ’’صرف’’نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کے موجد حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم ہیں۔حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں! آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اﷲ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی رضی اﷲ عنہ کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا: ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘۔الحدیث رقم 65: أخرجہ أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 281، وابن أبی شیبۃ فی المصنف، 12 / 78، الحدیث رقم: 12167.۔مدینے ہجرت کے بعد حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا نکاح اپنی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کیا سرورکائنات ﷺ کی صاحبزادی کا یہ نکاح سادگی کی ایک مثال ہے چونکہ حضو ر ﷺ حضرت علی کے کفیل تھے اس لیے آپ نے ان کو کچھ ضروریات زندگی کا سامان خرید کردیا یہ جہیز نہیں تھااور ایک کرایے کے مکان کا بندوبست کیا اوراپنی پیاری بیٹی کو خود رخصت کرآئے ۔اور ایسی مثال اور سنت جاری فرمائی کہ جس پر عمل پیرا ہوکر ہی خیر و برکات حاصل ہوسکتی ہیں۔اک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’ہارون علیہ السلام کو جو نسبت موسیٰ علیہ السلام سے ہے وہی نسبت علی رضی اﷲ عنہ کو مجھ سے ہے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی حضور اکرم ﷺ سے بے حد محبت کرتے، جانثاری میں آپ اپنی مثال تھے مواخات کے موقع پر آنحضور نے دنیا اور آخرت میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اپنا بھائی بنایا۔آپ رضی اﷲ عنہ ذہین اور صاحب علم تھے آپ ایک بہادر اور نڈر شہسوار تھے۔ دربار رسالت ﷺ سے آپ کو اسد اﷲ کا خطاب ملا۔ اس کے علاوہ حیدر اور کرار بھی آپ کے القاب ہیں۔غزوہ خبیر کے موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر کے دن میری طرف پیغام بھیجا، اس حال میں کہ میری آنکھ دکھ رہی تھی، میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میری آنکھیں دکھ رہیں ہیں، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری آنکھ پر اپنا لعاب (مبارک) لگایا، پھر فرمایا: اے اﷲ! اس سے گرمی اور سردی کو دور کر دے۔ اس کے بعد میں نے گرمی اور سردی کو محسوس نہیں کیا، فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسے آدمی کو علم دے کر بھیجوں گا جس سے اﷲ اور اﷲ کے رسول محبت کرتے ہیں اور وہ اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور میدان سے فرار نہیں ہو گا۔ (راوی) نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ دیکھنے لگے ، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو بھیجا۔(فضائل الصحابۃ:565/2، رقم الحدیث:950)۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مکمل فضائل اور شان لکھنا کسی شخص کے بس کی بات نہیں ہے، میرے جیسا گناہگار انسان چھوٹی سی کوشش کرکے اپنا نام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے محبت کا اظہار کرنے والوں کی لسٹ میں لکھوانے کا متلاشی ہوتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا بڑے سے بڑا عالم دین بھی میرے پیارے آقا سرور کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کے فضائل کومکمل طور پر قلمبند نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی میں اتنی ہمت اور طاقت ہے۔کیونکہ میرے آقا ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کے فضائل صرف اور صرف اﷲ کریم کی ذات اقدس ہی مکمل طور پر جانتی ہے۔میرے پیارے رسول ﷺ کے عظیم ساتھی جناب علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فتنہ خارجیت سے لڑتے ہوئے خارجی دشمنوں کی زد میں آئے، یہاں تک کہ رمضان شریف کے اک بابرکت دن اک خارجی ابن ملجم نے زہرپلائی ہوئی تلوار سے آپ پر ایسی ضرب لگائی کہ آپ بالآخر شہید ہوگئے ۔ مگر شہید ہونے سے قبل ہی ابن ملجم کو گرفتار کرلیاگیا، اور آپ کے سامنے حاضر کیاگیا، اس کی شکل و صورت کو دیکھتے ہی آپ نے حکم دیا کہ مقتول سے پہلے قاتل کی پیاس بجھائی جائے۔ اس جملے میں کتنی معنویت اور اخلاقی تعلیمات مضمر ہیں۔ یعنی کہ آپ کو بھی پیاس کی شدت تڑپارہی ہے مگر حکم دیتے ہیں کہ پہلے میرے قاتل کی پیاس بجھائی جائے، آپ کے اس اخلاق سے ابن ملجم بہت شرمندہ ہوا، اس کے بعد ابن ملجم کے حق میں اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ:’’اے عبدالمطلب کے فرزندو! مسلمانوں کا بے تکلف خون نہ بہانا، تم کہوگے کہ امیرالمومنین شہید کردئیے گئے، مگر خبردار سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا، دیکھو اگر میں اس وار سے مرجاتاہوں تواس پر بھی ایک ہی وار کرنا، اس کا مثلہ نہ کرنا، کیوں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: خبردار کسی ذی روح کو مارکر اس کا مثلہ نہ کیا جائے خواہ وہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو۔‘‘ بلکہ آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ:’’اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے، اگر زندہ رہاتو سوچوں گا، معاف کروں یا قصاص لوں اور اگر شہید ہوجاؤں تو ایک جان کا بدلہ ایک ہی جان لیاجائے، اس کا مثلہ ہرگز نہ کیا جائے۔‘‘آپ رضی اﷲ عنہ 21رمضان المبارک 40ھ میں شہادت کے اعلی ترین مرتبہ پر فائز ہوکر اپنے اﷲ اور اسکے پیارے رسول ﷺ کے پاس چلے گئے۔حضرت علی ؓ سے محبت کا سب سے بہترین اظہار یہ بھی ہے کہ ہم پانچ وقت نماز کی ادائیگی کو یقینی بنائیں کیونکہ ہم جس عظیم ہستی کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرررہے ہیں انہوں نے دنیا سے پردہ فرمانے تک اپنی نمازوں کو ہمیشہ قائم رکھا یہاں تک کہ انکی شہادت کے وقت بھی وہ نماز فجر ادا فرمارہے تھے۔ان سے محبت کا اظہار یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ سچ بولیں، جھوٹ سے نفرت کریں، حق کا ساتھ دیں، ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔مظلوم کا ساتھ دیں۔انکی طرح سخی بننے کی کوشش کریں۔اﷲ کریم ہم سب مسلمانوں کو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اﷲ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپکی آل پاک رضوان اﷲ علیھم اجمعین پر اور آپ ﷺ کے اصحاب پاک رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین پر۔ آمین ثم آمین۔نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول تاریخی حوالہ نمبر،معنی،املاء ، لفظی یا پرنٹنگ کی غلطی پر اﷲ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔ واﷲ تعالی اعلم

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.