سی ایس ایس امتحان کا مایوس کن نتیجہ ‘‘ مگر کیوں ؟

 سی ایس ایس یعنی سنٹرل سپر ئیر سروسز کا امتحان ہر سال منعقد کیا جاتا ہے، اس میں ہزاروں امیدوار حصہ لیتے ہیں اور ہر نوجوان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ اس مقابلہ کے امتحان میں کامیاب ہو جائے کیونکہ کامیاب ہونے کے بعد وہ ایک بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے، گزشتہ روز سال 2020کانتیجہ سامنے آیا تو دیکھ کر مجھے نہ صرف حیرانگی ہوئی بلکہ بہت دکھ اور افسوس بھی ہوا ۔اس امتحان میں پاکستان بھر سے 18553امیدوار شریک ہوئے ۔جس میں سے صرف 364 امیدوار کامیاب ہوئے ۔یوں یہ نتیجہ دو فی صد سے بھی کم یعنی 1.9 رہا ۔ میں نے اتنی بڑی تعداد فیل ہونے کی وجوہات جاننے کی کھوج لگائی تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ غلامی کا وہ طوق ہے جسے 73سال گزرنے کے با وجود ہم اپنی گردن سے اتار نہ سکے ۔ اور وہ آہنی طوق ہے ، زبان کا ، ، اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہم اپنی قومی زبان کو اپنی زبان بنا نہ سکے اور سی ایس ایس کے امتحان میں جو بھی امیدوار انگریزی زبان پر مکمل عبور نہیں رکھتا وہ سی ایس ایس امتحان میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا خواہ وہ اس امتحان کے لئے دو سال کی مسلسل محنت کیوں نہ کرے ۔ سی ایس ایس امتحان میں کامیابی کا کلیدی کردار انگریزی زبان کاہے ۔ 70فی صد امیدوارن اسی زبان میں اچھے نمبر نہ لینے کی وجہ سے ہی فیل ہو تے ہیں ۔ انگلش پیپر میں انگلش ایسیز،کمپوزیشن اور انگلش گرائمر کے وہ وہ سوالات ہوتے ہیں جسے پڑھ کر ہی امیدوار کا سر چکرا جاتا ہے ۔معروف مزاح نگار انور مسعود صاحب نے بڑے پتے کی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں ’’ فیل ہونے کو بھی کوئی مضمون ہونا چاہئیے ‘‘

لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ نےِ جن کے بچے بیرونِ ملک پڑھ کر آتے ہیں یا اندرونِ ملک مہنگے اور معیاری انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں ،یہ امتحان انہی کے لئے منعقد کیا جاتاہے اور انگلش مضمون ان نوجوانوں کے فیل ہونے کے لئے ہی رکھا گیا ہے جو اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھ کر آتے ہیں اور جنہوں نے انگریزی زبان کو محض ایک مضمون کے پڑھا ہوتا ہے ۔ وہ بیچارے لاکھ کوشش کریں مگر پھر بھی ان کے لئے سی ایس ایس امتحان کے انگلش پیپر میں پاس ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تا ہے ۔

واضح رہے کہ پاکستان کی قومی زبان ’’ اردو ‘‘ ہے ۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا واضح فرما ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہی ہو گی۔1973کے آئین کے دفعہ 251میں درج ہے کہ ’’ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دفتری اور دوسرے مقاصد کے لئے اس کو استعمال کرنے کے لئیآئین کی تاریخ پر اجراٗ سے سے پندرہ سال کے اندرضروری انتطامات کئے جائیں گے، ِ ‘‘

اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے سپریم کورٹ کے فل بینچ نے 8ستمبر 2015 کو اپنا تاریخی فیصلہ سنایا تھا کہ ہماری قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنایا جائے دفتروں،عدالتوں میں اردو کو استعمال کیا جائے ‘‘ مگر افسوس صد افسوس کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے با وجود ہم بے زبان ہی رہے اور اپنی قومی زبان کو وہ اہمیت نہ دے سکے جس کی وہ حقدار ہے ۔ انگریزی کو ہم نے ترقی کا زینہ سمجھا اور
آج بھی انگریزی کو سی ایس ایس امتحان میں کامیاب ہو نے کے لئے بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اگرکوئی امیدوار سی ایس ایس امتحان میں انگلش پیپر کے علاوہ ٹاپ کر لیتا ہے مگر انگلش مضمون میں اس کے پاس مارکس میں دو نمبر کم ہیں تو اسے فیل کیا جاتا ہے ۔

گویا انگریزی ہی سی ایس ایس میں کامیابی کی کنجی ہے اس کے بغیر پاکستان کی بیورو کریسی میں کوئی بھی نوجوان داخل نہیں ہو سکتا ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں دو طبقاتی نظام قائم ہے ایک طبقہ اشرافیہ کا ہے ،جن کے بچے انگلش میڈیم سکولوں یا بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دوسرا طبقہ عام پاکستانیوں کا ہے جن کے بچے عام اردو میڈیم سکولوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔سی ایس ایس امتحان میں دونوں کا جب مقابلہ ہوتا ہے تو انگریزی زبان پر عبور حاصل رکھنے والوں کی جیت یقینی ہوتی ہے جبکہ اردو میڈیم والے انگریزی مضمون میں کم نمبر لینے کی وجہ سے فیل ہو جاتے ہیں ۔ اشرافیہ طبقہ جو پاکستانی آبادی کا صرف دو فی صد ہے ، انہی کے بچے کامیاب ہوتے ہیں اور اس امتحان کا نتیجہ بھی تقریبا دو فی صد ہی نکلتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف اگر واقعی ملک میں انصاف کا بول بالا چاہتی ہے تو پھر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سی ایس ایس امتحان میں انگلش ایسیز، کمپو زیشن اور انگلش گرائمر کی جگہ اردو مضامین، اردو گرائمر کا پرچہ رکھا جائے ،انگریزی مضمون کو بطورِ اختیاری مضمون رکھا جائے کیونکہ اردو ہی ہماری زبان ہے ،اردو ہی ہماری شان ہے ۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ انگریزی کو اہمیت دے کر بھی ہم انگریزی نہ سیکھ سکے اور اس وقت ہماری بیو رو کریسی تیتر ہے نہ بٹیر ہے۔ ان کو انگریزی بھی صحیح نہیں آتی اور اردو سے بھی نابلد ہیں ۔لہذا بہتری اسی میں ہے کہ اردو کوسی ایس ایس امتحان کی سیڑھی بناتے ہوئے اسے سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے ۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315548 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More