صبورفاطمہ، کراچی یونیورسٹی
عمومی طور سے انسان کا اس دنیا میں سب سے زیادہ لگاٶ اپنی والدہ سے ہی ہوتا
ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ والد سے نہیں ہوتا ،ہوتا ہے اور بالکل ہوتا ہے
لیکن والد کی معاشی مصروفیات کے سبب والدہ کے ساتھ گزرنے والا وقت زیادہ
ہوتا ہے۔ لیکن کیاایسی ہستی کے لیے صرف ایک دن؟؟؟؟؟ یہ تو نا سمجھ آنے والی
بات ہے۔اکثر لوگوں کے اسٹیٹس میں اماٶں کی تصاویر ڈھیر سارے کیپشن اور محبت
و قدرادان الفاظ کے ساتھ ہی ڈالی گٸیں ہیں۔ والدین سے محبت کا اظہار اچھی
چیز ہے، اظہار کرنا بھی چاہیے لیکن مدرزڈے پر ہی کیوں۔ یہ رویہ ہم مسلمانوں
کے معاشرے کا مزاج نہیں۔ بحیثت مسلمان اگر والدین حیات ہیں تو روز کی بنیاد
پران کے ہر حکم پر جی حضوری سب سے مقدم ہے (بشر ط یہ کہ خلاف شریعت نہ ہو)۔
حدیث کے مطابق نماز کی نیت باندھنے کے بعد بھی اگر والدہ پکاریں تو نماز
توڑ کر لبیک کہنا ہے۔اگر والدین حیات نہیں تو ان کے دوستوں کے ساتھ اسی طرح
پیش آنا ہے جیسے والدین کے ساتھ پیش آیاجاتا ہے اور اگر استطاعت ہے تو ان
کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہے۔یہ ہے امّتِ محمّدیہ ﷺ کے لیےوالدین سے
محبت ، احترام کے لیے تعلیمات۔
مدرز ڈے ، فادرز ڈے ، فلاں ڈے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ سب مغربی اصطلاحات ہیں جن
کے ساتھ باقاعدہ ایک خاص پس منظر متّصل ہوتا ہے۔ اس کی تقلید یعنی مغربی
تقلید کا ایک پہلوہوا۔ مغرب نے اپنی عزت ، اپنے وقت کی پابندی، وقت کی قدر
، چیزوں کو دیانت داری سے فروغ کرکے، اعلی تعلیمی اداروں کے قیام سے اور
اپنے dark era سے سبق حاصل کرکے کمائی ہے ورنہ ان کا معاشرتی اقدار، اسلامی
اقدار کے سامنے کوٸی حیثیت نہیں رکھتا۔ میرے لیے ہر دن ہر وقت ہر گھڑی اپنی
والدہ سے محبت ، ذہن میں ان کے خیال، باتوں، ان کی صحت کے معاملات، اور جب
ان کو دیکھنا ہو تو مسکراکر دیکھ کر حج کا ثواب لینے کےساتھ خاص ہے، اس
خیال کے ساتھ دیگر معمولاتِ زندگی بھی رواں دواں رہتے ہیں۔۔۔ مدرز ڈے کی
تائید کے حوالے سے یہی کہا جاتا ہے کہ خوشیاں منانے کرنے کا موقع ہے، اتنی
مصروف زندگی ہے تھوڑا وقت اپنوں کے ساتھ نکال لیا جائے ، ٹھیک ہے ، خوشیاں
مناٸی جاٸیں (میرے مطابق اگر والدین بڑھاپے کی جانب ہیں تو روز کی بنیاد
پران کے ہاتھ پاٶں دبانا، ان کی دواٸیوں کے اوقات یاد رکھنا ، وقت پر دوائی
دینا ، محبت سے پیش آنا ، ان کا خیال رکھنا ، حکم عدولی نہ کرنا ہی ان سے
محبت ان کی قدردانی کا مکمل اظہار ہے۔) اس طرح تو ہردن والدین کادن ہوا،
لیکن مغربی نظریات کی تقلید میں اسلامی معاشرے میں ان trends کو پروان
چڑھانا جو اس کا حصہ ہی نہیں ہیں، یہ رویےاپنی تہذیب میں غیروں کی تہذیب کی
شمولیت کے بعد خطر ناک نتاٸج کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی ان ہی
چھوٹی چھوٹی چیزوں سے غیر محسوس انداز سے شروع ہوتی ہے۔ اب تو موباٸل میں
میسیجز بھی آنا شروع ہوگٸے ہیں کہ فلاں فلاں برینڈ پر مدرز ڈے کی وجہ سے
اتنی فیصدرعایت دی جارہی ہے۔ جب ایک چیز سے محبت یا کسی کے قیمتی ہونے کے
اظہار کو ایک خاص دن کے ساتھ عالمی سطح پر پروان چڑھایا جاۓ تو پھر اغیار
کی دوسری چیزوں کی قبولیت کے لیے بھی دروازے کھل جاتے ہیں۔ اسی لیے ضروری
ہے کہ اپنی زندگی میں اگر کسی چیز کو شامل کیا جارہا ہے تو بحیثیتِ مسلمان
اس کی حقیقت کے بارے سوچا ضرور جائے۔۔
|