دیار غیرمیں قید پاکستانی

شیر گڑھ، مانسہرہ کا طارق عزیز طائف سعودی عرب کی جیل میں تین سال سے قید کاٹ رہا ہے۔ اسے ایک سڑک حادثے کے بعد حراست میں لیا گیا۔ 4کروڑ روپے کے بدلے رہائی ملے گی۔ قرض اتارنے گھر سے ہزاروں میل دور مزدوری کے لئے گیا ار خود قرض دار بن گیا۔ یہی داستان گھر سے ہزاروں میل دور قید کاٹنے والے 11ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی ہے۔ اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی روزگار، تعلیم یا سیر و سیاحت کے لئے بیرون ملک موجود ہیں۔ یہ پاکستانی سالانہ 20ارب ڈالر سے زیادہ زر مبادلہ کما کر دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،برطانیہ، امریکہ، اومان، کنیڈا، قطر، فرانس، اٹلی، بحرین، کویٹجنوبی افریقہ ، سپین، جرمنی، آسٹریلیا، ملیشیا، ناروے میں ہیں۔ ان ممالک میں تارکین وطن کی تعداد 50ہزار سے 30لاکھ تک فی ملک ہے۔ تقریباً 30لاکھ پاکستانیوں کے ساتھ سعودی عرب سر فہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ممالک پاکستانی سفیروں کی کانفرنس سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب میں بعض حقائق کی نشاندہی کی اور تارکین وطن کے ساتھ ان کے رویہ پر تشویش ظاہر کی۔ اس کے بعد ہی سعودی عرب سفارتخانے کے نصف درجن اہلکاروں کو شکایات پر واپس بلا لیا گیا۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔

خلیجی صحرا ء میں پاکستانی محنت کش افراد کی بڑی تعداد مزدور، ٹیکسی ڈرائیور اور تعمیراتی کام کرنے والوں کی ہے۔وہاں وہ سوچتے ہوں گے کہ اگر وہ’’ اوور ٹائم‘‘ رات دن کام کریں یا ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیں گے تو گھر والوں کو مزید رقم بھیج سکیں گے۔ شاید ان میں سے کچھ تو صرف ایک وقت کا ہی کھانا کھاتے ہوں۔ یہ لوگ رہنے کے لیے بھی تھوڑی جگہ پر گزارہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات درجن بھر کے قریب لوگ ایک چھوٹے سے کمرہ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ وہاں انہیں بس اتنی جگہ میسر ہوتی ہے کہ وہ کمر توڑ مشقت سے بھرا دن گزارنے کے بعدزرا دیر آرام کر سکیں۔ورنہ آرام کی گزر بسر ان پر حرام ہوتی ہے۔تارکینِ وطن مزدوروں کے لیے زندگی جسمانی اور ذہنی اعتبار سے بہت کٹھن ہوتی ہے، وہ کئی کئی مہینوں یا سالوں تک اپنے پیاروں سے نہیں ملتے۔ لیکن اس کا مناسب صلہ بھی ملتا ہے۔ پاکستان میں آنے والی ترسیلاتِ زر ملکی ریوینیو کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور وزیراعظم نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کااس پر انحصار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ 2019-20 کے دوران پاکستان میں ترسیلاتِ زر کی صورت میں ریکارڈ 23 ارب ڈالر آئے۔سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی2020تا مارچ2021کے دوران 21.5ارب ڈالر زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان آیا۔ جو کہ گزشتہ برس اسی عرصہ میں آنے والے ترسیلات زر سے 26فیصد زیادہ ہے۔

پاکستانی امیگرنٹس، محنت کش اور دوہری شہریت رکھنے والے ملک کے اثاثہ ہیں مگر مقامی قوانین اور زبان سے ناواقفیت کے باعث بھی قانون کے شکنجے میں آ جاتے ہیں۔ 11ہزار سے زیادہ قیدیوں میں سے ان کی بھی بڑی تعداد ہے۔ اگر چہ اب سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے ۔ وہ 2023کے انتخابات میں الیکٹرانکس ووٹنگ کے زریعہ ووٹ ڈال سکیں گے۔ مگر جیلوں میں قید پاکستانیوں کی واپسی کے لئے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ سری لنکا کے بعد وہاں قید 41پاکستانیوں کو باقی ماندہ سزا کاٹنے کے لئے وطن واپس لا یا گیا ہے۔اسی طرح دیگر ممالک سے بھی پاکستانی قیدیوں کو واپس لانے کے لئے سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔پاکستانیوں کو بیرون ملک جاتے وقت رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر وہ خلیجی ممالک میں منشیات مافیا کے ہاتھ چڑھ گئے تو ان کا انجام سزائے موت ہو گا۔ معصوم پاکستانی بیرون ملک جرائم کے لئے نہیں بلکہ حلال کی کمائی کے لئے جاتے ہیں۔ بچوں کے روشن مستقبل کے خواب سجائے یہ لوگ دنیا بھر میں وہاں کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جس سے ملک کا نام روشن ہوتا ہے۔ اگرجرائم کی دنیا میں قدم رکھیں تو ملکی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ پاکستانی سفارتی مشن کے رویے پر وزیرِاعظم کی ناراضی کی وجہ سے سعودی عرب میں تعینات سفیر کو واپس بلا لیا گیا ۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر کو ریاض میں سفیر تعینات کردیا گیا ہے۔ سفارت خانے کے 6 دیگر افسران بھی پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ہر ایک حکومت کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کو خصوصی اہمیت دیتی ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ سمندر پار پاکستانیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک یکساں قونصلر پالیسی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو وہ سب کچھ فراہم کرسکے جس کے وہ حق دار ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک تمام اقدامات عارضی اور غیر مؤثر ثابت ہوں گے۔ اس پالیسی کی سب سے زیادہ ضرورت مشرق وسطیٰ میں ہے۔ایشیائی ممالک کے شہری اور خصوصاً پاکستانی روزگار کے لیے خلیجی ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیائی افراد کی جانب سے منتخب کیے گئے 10 ممالک میں 4 خلیجی ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عمان شامل ہیں۔ جب ایک بار پاکستانی ان ممالک میں قدم رکھتے ہیں تو ان کا مکمل انحصار صرف اپنے آپ پر ہی ہوتا ہے۔ ان ممالک کے نظامِ انصاف کے شکنجے میں پھنسنا بھی بہت آسان ہے۔ غیر ملکی جیلوں میں زیادہ تر قیدی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں۔کسی مستقل نظام کی عدم موجودگی کے سبب دیگر ممالک میں موجود پاکستانی سفارتی مشنز کے لیے ان ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کی بڑی تعداد کے حقوق کا تحفظ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس وجہ سے پاکستانیوں کو بغیر مقدمے کے طویل عرصے تک قید میں رہنے اور وہاں کے نظامِ انصاف کو سمجھنے کے لیے قانونی مدد کی عدم فراہمی جیسی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ سفارت خانوں کا عملہ نہ ہی فون کال کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی جیلوں کا دورہ کرتا ہے جو اصولی طور پر انہیں کرنا چاہیے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے 2019ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان سے پاکستانی قیدیوں کے ساتھ ہمدردی کی درخواست کی ۔ ولی عہد نے اس درخواست کا جواب بھی شاہانہ انداز میں دیا اور 2 ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان ہوا۔عیداوردیگر مواقع پر بھی قیدیوں کو معافی دی جاتی ہے۔ ہزاروں پاکستانی اب بھی قید ہیں اور وبا کے دوران ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اب عیدکی بھی آمدہے اور سعودی عرب کے سفارتی مشن میں نیا عملہ تعینات ہو چکا ہے۔ وزیراعظم نے توقع ہے وہاں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لئے بات کی ہو گی۔

بھارت میں بھی سیکڑوں پاکستانی قید میں ہیں۔پاکستان اور بھارت سال میں دو بار قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یکم جنوری2021کو بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو 340پاکستانیوں کی فہرست دی جو بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں77مچھیرے بھی ہیں۔بھارت میں آج کورونا وبا نے تباہی مچا دی ہے۔ پاکستان کو عالمی ریڈ کراس اور دیگر زرائع سے بھی قیدیوں کی واپسی کی کوشش کرنا چاہیئے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے قائم وزارت اور فاؤنڈیشن کو بھی مزید متحرک کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ دیگر ممالک میں مزید معصوم پاکستانی فراڈ اور جعلی کمپنیوں کے ہاتھوں یرغمال ہو کر بے موت نہ مارے جائیں۔ سمند پار جانے والوں کو وہاں کے مقامی قوانین اور دیگر اہم معاملات پر بریفنگ دی جائے۔ جعلساز آپریٹرز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے تا کہ وہ مزید افراد کو جھانسہ دے کر سزایافتہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555481 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More