"چلو جی رمضان گیا, عید آگئی, بھئی سمیٹو سب."
"جی کیا سمیٹیں؟"
"بھی یہی سب رمضان کے سامان. اگلے سال پھر یہی نکال لیں گے. "
"معاف کیجیے گا, بندہ ناقص العقل ہے, یہ رمضان کی چیزوں کی زرا وضاحت تو
کردیں. "
"اوہو... یہی سب کے الگ الگ قرآن کریم, جائے نماز, اذکار کی کتابیں, اور
تسبیح وغیرہ. "
"یہ تو گویا پل بدلتے, ماہِ مبارک کی رحمتوں و برکتوں کو اپنے ہی ہاتھوں
سمیٹنے کے برابر ہوگیا!"
"استغفراللّہ! ہم رمضان کی چیزوں کی بات کررہے ہیں, آپ پتہ نہیں کونسی بے
پرکی اُڑا رہے ہیں. "
"ہیں... یہ کب سے رمضان سے مختصص ہونے لگے؟"
"آپ کو نہیں پتہ, رمضان کی چیزوں کو ایسے ہی نہیں رہنے دیتے بے ادبی الگ
ہوتی ہے, گرد بھی لگ جاتی ہے. "
"اور جو دلوں میں گرد لگے گی؟"
"کیا عجیب باتیں کرتے ہیں؟ دلوں کو بھلا کیسے گرد لگتی ہے, چیزوں کو لگتی
ہے."
"دلوں کو بھی لگ جاتی ہے, اگر یہ رمضان کی چیزیں سمیٹ لی جائیں."
"اچھا..! تو پھر اس گرد کو کیسے صاف کرتے ہیں؟"
"یہی اذکار الٰہی, اور رمضان کی چیزوں سے."
"بھئی, مجھے تو بڑا خوف آتا ہے, ایسے کیسے سامنے رہنے دیں. ہم تو بھئی ریشم
کے کپڑے میں بڑے سلیقے سے لپیٹ کے الماری میں رکھتے ہیں."
"ایسا کیوں کرتے ہیں؟ مطلب سامنے میز پہ یا شیلف پہ بھی تو رکھ سکتے ہیں
نا!"
"بتایا تو بے ادبی ہوگی. اللّہ بچائے ایسے گناہ سے!"
"بے ادبی کیسے ہوگی؟ ادب سے رکھیں گے اور پڑھیں گے تو نہ ہوگی نا!"
"آپ بھی نا عجیب باتیں کرتے ہیں, بھلا رمضان کے بعد کس کو وقت ملتا ہے
رمضان کی چیزوں کو کھولے."
"وقت کی کیا بات, جیسے رمضان میں کھولتے تھے, ویسے ہی."
"لو, وہ تو ماحول بنا ہوتا ہے نا, اور پھر یہ چیزیں خراب ہوگئیں تو اگلے
سال کون لائے گا؟"
"اگلا سال! آپ کو یقین ہے زندہ رہیں گے آپ اگلے سال ان چیزوں کو استعمال
کرنے کے لیے؟"
"لاحول ولا قوۃ, میرے خیال سے تو آپ اب چلتے بنیے یہاں سے."
"بھائی, ناراض نہ ہویے, آپ کے بھلے کے لیے ہی کہہ رہیں ہیں. "
"ہمارا بھلا؟ غلط باتیں کررہے ہیں آپ. اللّہ تعالیٰ کتنا ناراض ہوں گے اگر
رمضان کی چیزوں کو صحیح سے نہیں رکھا. "
"قرآن و تسبیح نہ پڑھنے پہ ناراض نہیں ہوں گے؟"
"یہ کیا بات ہوئی؟ پورے تین قرآن ختم کیے ہیں ہم نے اس رمضان, اور صلواۃ
تسبیح و نوافل الگ. "
"ماشاء اللّہ, ماشاءاللّہ... اب نہیں پڑھیں گے؟"
"کیوں نہیں. ارے بابا رمضان کی چیزیں تبھی تو سمیٹ رہیں ہیں تاکہ اگلے سال
پھر استعمال میں لائیں."
"اچھا ایک بات بتائیے, آپ نمازیں پڑھتے ہیں؟"
"یہ کیسا سوال ہوا؟ الحمدللّہ مسلمان ہیں ہم."
"معذرت. تو پھر قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟"
"بتایا تو, تین قرآن ختم کیے ہیں!"
"ترجمے کے ساتھ؟"
"عجیب خرّ دماغ ہیں آپ, قرآن کی تلاوت کا ثواب ہوتا ہے, ترجمہ کون پڑھتا
ہے؟"
"پھر تلاوت کی حلاوت کیسے حاصل ہوگی؟
"وہ کیا ہوتی ہے؟"
"قرآن کی آیتوں کو یہ سمجھ کے پڑھنا, گویا یہ سب حق باتیں اللّہ سبحانہ و
تعالیٰ مجھ سے کررہا ہے. اور پھر جو تلاوت کی لذت و رحمت رگوں میں سرائیت
کرتی ہے, اسے حلاوت کہتے ہیں."
"بات تو خوبصورت ہے. مگر ہم تو عام مسلمان ہیں, ترجمہ و تفسیر تو بڑے لوگ
پڑھتے پڑھاتے ہیں. ویسے ہم اکثر سن لیتے ہیں بیان وغیرہ."
"قرآنِ کریم تو رحمت ہے, ہدایت ہے. اور یہ ہدایت تو سب کے لیے ہے. اللّہ نے
اس میں کوئی تفریق تھوڑی نا رکھی ہے."
"بات تو آپ کی کچھ دل پہ اثر کررہی ہے."
"تو جناب دل سے عمل میں بھی لائیے."
"مگر... رمضان میں تو ماحول بنا ہوتا ہے نا..."
"تو ماحول آپ بنا لیجیے. زرا سی سوچ بدلیں, اور سارا سال رمضان کی رحمتوں و
برکتوں کو اپنے گھر کا مکیں بنائے رکھیں."
"ماحول کیسے بنائیں؟"
"کوشش سے. رمضان میں کی گئی عبادتوں, اور اذکار وغیرہ کو جاری رکھیں. چاہے
کم ہی سہی مگر ختم نہ کریں."
"بات تو صحیح ہے آپ کی."
"تو پھر آپ کہاں چل دیے؟"
"رمضان تو مہمان ہے, مگر رمضان کی چیزوں کو تو مکین کرسکتے ہیں نا. بس وہی
کرنے جا رہے ہیں."
***
حیا ضُحیٰ, کراچی.
|