پُر امن اور متوازن معاشرے کے خدوخال

جس طرح انسان کے لیے ہوا اور غذا اہم اور بنیادی ضرورت ہے اسی طرح انسانی معاشرے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی ضرورت امن وسلامتی ہے ۔ اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل عرب پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے دو باتوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے، ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ﴾الذی اطعمھم من جوع وامنھم من خوف﴿(سورة قریش:۴)یعنی ” جس اللہ نے بھوک کی حالت میں انھیں کھانے کو دیا اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا“ اس آیت سے پتہ چلا کہ بھوک کی حالت میں خوراک کی فراہمی اور خوف کی حالت میں امن وامان کی فراہمی ، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ۔اسی طرح جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وادی غیر ذی ذرع ، مکہ مکرمہ میں چھوڑااللہ سے پہلے اممن وامان کی اس کے بعد معیشت وتجارت کی دعا کی ، فرمایا:﴾رب اجعل ھذا بلدا آمنا وارزق اھلہ من الثمرات....﴿ البقرہ:۶۲۱یعنی ” اے میرے رب! اس کو پر امن شہر بنادیجئے اور یہاں کے رہنے والوں کو قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے....

دوسری جگہ ارشاد ہے:﴾واذقال ابراھیم رب اجعل ھذا البلد آمنا واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام﴿(الابراھیم:۵۳) یعنی اے میرے پروردگار ! اس شہر (مکہ) کو پرامن بنادیجئے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچائیے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں“ سورہ نحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ ایک قوم کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:﴾وضر ب اللہ مثلا قریة کانت آمنة مطمنة یاتیھا رزقھا رغدا من کل مکان فکفرت بانعم اللہ فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون....﴿(نحل: ۲۱۱)یعنی” اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پرامن اور مطمئن تھی، اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فروانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا ، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کویہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اور اوڑھنا بن گیا“قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات پر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے امن وسلامتی کو بہت بڑی نعمت اور احسان قرار دیا ہے اور اس نعمت کی ناشکری کرنے والوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

بدامنی اور بے اطمینانی معاشرے کے امن وامان اور معاشرے کی فلاح وسکون کے لیے زہر قاتل ہے جو معاشرہ مامون نہ ہو، جس معاشرے اور سماج میں انسان کو ہر وقت اپنی جان ومال کی فکر اور اس کے بارے میں خطرہ لگا رہتا ہواور جہاں انسان ہر لمحہ اپنی عزت وآبرو کے بارے میں مختلف اندیشوں سے دوچار ہو، وہاں علمی ترقر رک جاتی ہے ، تہذیب وتمدن انحطاط پذیر ہونے لگتے ہیں ، اخلاقی پستی پیدا ہونے لگتی ہے اور عدم تحفظ کا احساس ہر شعبہ زندگی میں ترقی میں راہ کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

اس وقت ہمارے ساتھ بھی یہی صورت حال درپیش ہے کہ ہم سب بدامنی کا شکار ہیں جس کی بناءپر نہ ہم دینی اعتبار سے ترقی کررہے ہیں نہ دنیاوی اعتبار سے ، اگر ہم دینی اعتبار سے ترقی کر کے اپنی آخرت سنوارنا چاہتے ہیں اور دنیاوی اعتبارسے اقوام عالم کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے ایک پر امن معاشرہ تشکیل دینا ہوگا۔

ہمارا مذہب ، اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ امن وسلامتی اس کی رگ رگ میں داخل ہے ، اس مذہب کے متبعین کے لیے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ۱۔مومن ۲۔مسلم، دیکھا جائے تو یہ دونوں تعبیریں مذہب اسلام کی امن پسندی کا مظہر ہیں۔

اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مشکلات کی اصل بنیاد اور محرکات کو تلاش کرتا ہے اور اصل مرض کی شناخت کر کے سب سے پہلے اس کے علاج کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ عرب جاہلیت سے زیادہ بدامنی اور لاقانونیت شاید ہی تاریخ میں کبھی رہی ہو، لیکن اسلام نے اس خوش اسلوبی سے اس کا علاج کیا کہ وہی لوگ جن کی وحشت اور جہالت ضرب المثل تھی ، پوری دنیا کے لیے امن کے پیامبر بن گئے۔ وہ لوگ جو معمولی معمولی باتوں پر کئی سال جنگیں لڑتے تھے اسلام کی برکت سے آپس میں شیروشکر بن گئے۔ ارشادِ ربانی ہے:﴾فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً﴿

اگر ہم پر امن معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بدامنی کے اسباب وعوامل کو دیکھنا ہوگا ، پھر ان کا سدباب کرنا ہوگا ، تب جاکر معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بنے گا۔

ایک پر امن اور پرسکون معاشرہ کیسا ہونا چاہیے اور اس کے خدوخال کیا ہونے چاہیے ، ذیل میں ہم ان سے چند کا تذکرہ کرتے ہیں:

(ا).... معاشی محرومی کا خاتمہ:
سب سے پہلے جو چیز انسان کو بدامنی پرابھارتی اور اکساتی ہے وہ معاشی محرومی کا احساس ہے ، جب انسان کے دل میں معاشی محرومی کا احساس بیٹھ جاتا ہے تو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہر جائز وناجائز راہ اختیار کرتا ہے ۔ یہ حکومت وریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کو معاش کے اسباب مہیا کرے تاکہ کسی بھی انسان کے دل میں معاشی محرومی کا احساس پیدا نہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے ایک مخصوص نصاب کے بعد ہر آدمی کے ذمہ لازم کر دیا ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک متعین حصہ معاشرے کے غریب اور نادار طبقہ کو دے، اس طرح معاشرے میں غربت اور معاشی محرومیوں کا احساس پیدا نہ ہوگا اور غریب وامیر کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی نہ ہوں گی، محلات اور جھونپڑیوں کے درمیان جس قدر فاصلے بڑھیں گے اسی قدر معاشرے کے اندر انارکی پھیلے گی، بدامنی عام ہوگی اور غریب کے ہاتھ امیر کے گریبان کی طرف بڑھیں گے، عالم عرب کے کئی ملکوں میں آج انقلاب کے جو مناظر آپ دیکھ رہے ہیں ، اس کی بنیادی وجہ معاشی محرومیوں کا یہی احساس ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے اپنی تعلیمات میں جگہ جگہ دنیا کی بے ثباتی کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ دنیا کی یہ نعمتیں ، یہ مال ودولت، یہ کروفر، یہ عیش وعشرت کے اسباب .... سب فانی ہونے والے ہیں، یہ چند روزہ بہار ہے، مومن کی نگاہ آخرت کی زندگی پر رہے کہ اس کی نعمتیں لافانی اور سعادت ونجات کی وہی زندگی ، اصل زندگی ہے، آخرت پر یہ ایمان ویقین ایک مومن کو دنیا میں اہل ثروت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے سے روک دیتا ہے ، وہ فراوانی رزق پر شکر اور تنگی وعسرت کے زمانہ میں صبر کرتا ہے۔

(۲).... عدل وانصاف کا قیام:
پُر امن معاشرے کی بنیاد عدل وانصاف کے بغیر ممکن نہیں ، جہاں عدل وانصاف کی فراوانی ہوگی اور مظلوم کو ظالم کے خلاف سستا اور فوری انصاف ملے گا، اس کوشفاف عدالتوں کے ذریعہ اپنی زیادتی اور اپنے درد کا درماں ملے گا تو وہ قانونی راہوںپر چلے گا، وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر بدامنی عام نہیں کریگا، اسلام نے عدل وانصاف پر بڑا زور دیا ہے، ارشادِ ربانی ہے:﴾ان اللہ یامر بالعدل والاحسان﴿(النمل)

مشہور ہے کہ حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں۔

انصاف اور امن وسلامتی کے باب میں اسلام نے مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کیا، خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”دمائھم کدمائنا واموالھم کاموالنا“یعنی ان کافروں کی جانیں ہم مسلمانوں کی جانوں کی طرح محفوظ اور ان کافروں کے مال، مسلمانوں کے مال کی طرح محفوظ ہیں۔

اسی طرح جب مدینہ منورہ میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہود کے درمیان فیصلہ کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو حکم دیا کہ اس وقت بھی انصاف کا دامن نہ چھوڑیں ، ارشادِ باری ہے:﴾وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط﴿(مائدہ:۲۴)

جناب نبی کریمﷺ نے خود انصاف پر عمل کرکے دکھایا جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں: ”میثاق مدینہ“ اور ”صلح حدیبیہ“ جیسے واقعات کا مقصد بین الاقوامی امن کا قیام ہی تھا، جبکہ مسلمان طاقتور بھی تھے۔

کتب حدیث میں یہ واقعہ مذکور ہے اور مشہور ومعروف ہے کہ ”عرب کے ایک معزز قبیلے کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کر لی۔ فیصلہ اللہ کے نبی کی عدالت میں آیا تو آپ ﷺ نے چوری کا جرم ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ جب آپ ﷺ کے محبوب اور لاڈلے حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس عورت کی سفارش کے لیے آگے بڑھے تو آپﷺ غصہ ہوئے اور فرمایا:” اگر فاطمہ بنت محمد(ﷺ) نے بھی چوری کی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے“ (بخاری شریف:کتاب المناقب)

نبی اکرمﷺ سے یہی مزاج صحابہ ؓ نے بھی پایا ۔حضرت عمر ؓ کے عدل وانصاف کے واقعات سے اسلامی تاریخ آج تک جگمگا رہی ہے۔ آپ نے خلافت سنبھالتے ہی کچھ عرصہ بعد محکمہ قضا کی اہمیت کے پیش نظر مستقل ایک محکمہ قضا قائم کردیا اور اس کے لیے افراد مخصوص کردیے، اس سے پہلے خلیفہ وقت ہی قضا کا کام سرانجام دیتے تھے۔

حضرت عمرؓ نے عدالت سے متعلق چند قواعد وضوابط تحریر فرما کر متعلقہ عدالتوں اور قاضیوں کی خدمت میں بھیجے اور عہدہ قضا کے لیے چُن چُن کر قاضیوں کا انتخاب کیا۔

حضرت عمرؓ کا عدل وانصاف میں مساویانہ سلوک کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ آپؓ خود عہد خلافت میں حضرت زید بن ثابت ؓ کے یہاں مقدمہ میں فریق بن کر حاضر ہوئے۔ حضرت زیدؓ نے احترام وعقیدت کے پیش نظر آپ کو اپنے قریب بٹھانا چاہا تو حضرت عمر کو ان کا یہ انداز پسند نہ آیا اور فرمایا کہ نہیں میں تو اپنے فریق مخالف کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔

حضرت عمرؓ کی عدالت میں ایک بار ایک مسلمان اور یہودی کا مقدمہ پیش ہوا تو آپؓ نے انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہودی کے حق میں فیصلہ کیا۔

عدل پروری کا یہ معاملہ صحابہ او رتابعین تک ہی محدود نہیں بل کہ مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں نے بھی ہمیشہ اپنی رعایا میں عدل وانصاف اور مساوی سلوک کو برقرار رکھا۔ عدل وانصاف کے معاملے میں اسلام نے عدلیہ کو مکمل آزادی دی ہے اور کسی بڑے سے بڑے عہدے دار کے لیے بھی اس میں مداخلت کی گنجائش نہیں رکھی۔

آج ہم اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیاجارہا ہے یانہیں، جب مظلوم کی داد رسی نہیں ہوگی اور ظالم کھلے عام دندناتے پھریں گے تو ا من وامان کی توقع کرنا اوردعوے کرنا بے سود ہے۔معاشرے میں امن وامان قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اس کے لیے اسلامی احکام سے راہنمائی لی جائے۔

(۳).... رنگ ونسل کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم:
معاشرے میں بدامنی کے قیام کا تیسرا بڑا سبب ، ذات پات، رنگ ونسل اور قبیلے کی بنیاد پر وسائل وعہدو ں کی تقسیم ہے۔ اسلام نے سیاسی سطح پر کسی بھی طبقہ کو ماتحت رکھنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی اسلام ذات پات، رنگ ونسل اور قبیلے کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم کا قائل ہے۔ بلکہ اس کے لیے اسلام نے صلاحیت اور اہلیت کو معیار بنایا ہے۔

آج ہم نے عہدوں کی تقسیم میں ذات پات، رنگ ونسل کو اپنامعیار بنالیا ہے۔ جس کی بنا پر ہم معاشرتی اور طبقاتی تقسیم کا شکار ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ایک پُر امن اور متوازن معاشرے کے خدوخال اور بنیادی ڈھانچہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ معاشرے سے معاشی محرومیوں اور ناہمواریوں کا خاتمہ کیاجائے ، عدل وانصاف کو عام کیا جائے اور رنگ ونسل کی بنیاد پر برتریوں کا سدباب کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ فکر آخرت کی فضا قائم کرنے کے لیے مساعی جاری رکھی جائیں، تب ایک ایسا پر امن معاشرہ وجود میں آئیگا جہاں یمن سے حجاز تک کا تنہا سفر کرنے والی خاتون کو کسی حملہ آور کا خوف ہوگا نہ کسی لٹیرے کا ڈر اور جہاں بھیڑ اور بھیڑیاں ایک گھاٹ سے پانی پی کر آسودہ رہیں گے ، دشمن نہیں ، مسلمانوں کی شاندار تاریخ کے ذریں عہد اس حقیقت پر گواہ ہیں۔

آج ہمیں اپنے معاشرے کو پر امن اور متوازن بنانے کے لیے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے اس معاشرے کو ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا جو معاشرہ معاشرتی اور سماجی برائیوں کی آماجگاہ تھا اورظلم وستم اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا لیکن نبی کریم ﷺ کی محنت اور تعلیم وتربیت کے نتیجے میں وہ ایک ایسا فلاحی ،پر امن اور متوازن معاشرہ بن گیا جس کی مثال نہ اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں ڈھونڈی جاسکتی ہے اور نہ اس کے بعد کی تاریخ سے اس کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

(۴)....اخوت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرے کو اخوت اور بھائی چارے کے اصولوں پر استوار فرمایا۔ لوگوں کو یہ درس دیا کہ مسلمان آپس میں محبت والفت اور ہمدردی وخیرخواہی کے معاملے میں ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا بدن بے چین وبے تاب ہوجاتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی مختلف اکائیاں ہیں قوم کے افراد،دیوار کی اینٹوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں ایک دوسرے کی نصرت اور معاونت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں چنانچہ اسی اخوت کی بنیاد پر انصار نے مہاجرین کو سنبھالا، آزاد لوگوں نے غلاموں کو خرید خرید کر آزاد کیا، آسودہ حال لوگوں نے بے سہارہ اور نادار لوگوں کی اعانت کی اس لیے آج ہمیں پانے معاشرے میں اخوت وبھائی چارے اور ہمدردی وخیر خواہی کی وہی فضاءپیدا کرنے کی محنت اور جدوجہد کرنی چاہیے۔

(۵).... ایثار
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرے کی بنیاد میں ایثار کا ایسا پتھر رکھا جس نے معاشرے کی پوری عمارت کو تقویت بخشی ۔آپ ذرا تصور کیجئے کہ وہ لوگ جوایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہی لوگ خاک وخون میں تڑپتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں لیکن اپنے بھائی سے پہلے پانی پینا گوارہ نہیں کرتے ، بکرے کی ایک سری سات گھروں سے چکر لگا کر واپس پہلے گھر میں آجاتی ہے۔اپنے بھائی کو کھانا کھلانے کے لیے چراغ گُل کر دیا جاتا ہے اور اپنے بچوں کو بھوکا سلادیاجاتا ہے۔ اگر آج ہمارے معاشرے میں اس ایثار کی ایک ادنیٰ سی جھلک بھی پیدا ہوجائے تویہ جو چھینا چھپٹی اور لوٹ کھسوٹ کاماحول ہے اس کا خاتمہ ہوجائیگا۔

(۶).... سدذرائع
جب ہم اسلامی معاشرے اور اس کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے والی قرآنی آیات کا جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کا معاشرہ اور قرون اولیٰ کا معاشرہ اس لیے بھی مثالی اور متوازن تھا کہ اس معاشرے میں ان تمام دروازوں کو بند کردیا گیا تھا ، ان تمام اسباب ووجوہات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا تھا جوکسی بھی خرابی کسی بھی قسم کی انارکی یا لڑائی جھگڑے کی بنیاد بن سکتی تھیں اس حکمت عملی کو سدّذرائع کانام دیا گیا ، آپ فقہ اسلامی کا پورا ذخیرہ اٹھا کر دیکھئے آپ کو جابجا یہ بات ملے گی کہ فلاں معاملہ درست نہیں اس اندازسے لین دین جائز نہیں، خرید وفروخت میں یہ شرط عائد کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ ”مفضی الی النزاع“ یعنی جھگڑے کا سبب بننے والی ہے۔

اسی طرح پردے اور حجاب کے جتنے احکامات ہیں وہ معاشرے میں آوارگی اور جنسی انارکی کا باب بند کرنے کی کوشش ہے۔ الغرض ہمارے دین نے معاشرے کو برائیوں سے بچانے ، امن وسکون کا گہوارہ بنانے کے لیے اصل اسباب ووجوہات پر توجہ دی ہے جبکہ آج کے دور میں نہ مرض کی تشخیص کا اہتمام ہے نہ اسباب ووجوہات کی نشان دہی کی فکر اور نہ ہی ان خرابی کے دروازوں اور راستوں کو بند کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی دیتی ہے جو ہمارے مسائل اور مشکلات کی بنیاد ہے۔

(۷)....حقوق وفرائض:
آج ہر کوئی اپنے حقوق کے لیے لڑ رہا ہے، دوسروں سے لینے کے لیے جدوجہد کررہا ہے جبکہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے معاشرے کے ہر طبقہ کو اس کے ذمہ جو حقوق ہیں جنہیں ہم ذمہ داریوں اور فرائض سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ان کی ادائیگی کی زیادہ ترغیب دی گئی ہے جبکہ دوسروں کے حقوق لینے کا جو تصور ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

حضور اکرمﷺ نے فرمایا ”جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے میں اس کے لیے جنت میں محل کا ضامن ہوں“ اسی طرح مردوں کو یہ بتایا گیا کہ ان کے ذمہ عورتوں کے کیا حقوق ہیں اور عورتوں سے یہ خطاب کیا گیا کہ ان کے ذمہ مردوں کے کیا حقوق ہیں؟ چھوٹوں کو بڑوں کا ادب کرنے کا درس دیا گیا جبکہ بڑوں کو چھوٹے سے شفقت سے پیش آنے کی تلقین کی گئی تو آج کے دور میں اس معاشرے میں توازن پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر کسی کو اور ہر طبقے کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا جائے اور حقوق کے حصول کی جنگ اور دوسروں سے چھیننے اور لینے کی جو سوچ ہے اس کی نفی کی جائے۔

یہ موضوع تو بہت طویل ہے لیکن وقت اجازت نہیں دیتا اگر ہم کم ازکم اور ابتدائی درجہ میں یہ بنیادی کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینا معاشرے کا نقشہ یکسر بدل سکتا ہے۔
Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri
About the Author: Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri Read More Articles by Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri: 35 Articles with 66135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.