میری والدہ (ہدایت بیگم) 1935ء میں فرید کوٹ میں پیدا ہوئیں جو بھارت کا
ایک مشہور شہر ہے‘ اور ولی کامل حضرت فرید الدین شکر گنج رحمتہ اﷲ علیہ کے
نام سے منسوب ہے۔ شہر کے وسط میں میری والدہ کے دادا ’’نواب خاں‘‘ کی بڑی
سی حویلی تھی جس میں ان کے علاوہ اور بھی کئی خاندان آباد تھے۔ نواب خاں کے
دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں سردار خاں اور بہار خاں جبکہ بیٹیوں
میں منگتی اور گنہ شامل تھیں۔(یہ پرانے زمانے کے نام ہیں آجکل کم ہی سنے
اور رکھے جاتے ہیں)
’’سردار خاں‘‘ نواب خان کے بڑے بیٹے تھے ،وہ فرید کوٹ ریاست کے جیلر کے
عہدے پر فائز تھے۔ قیدیوں کی دیکھ بھال اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی
خصوصی نگرانی کا اہتمام ان کے فرائض میں شامل تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی
’’بہار خاں‘‘ ریاستی فوج میں صوبیدار میجر تھے‘ ریاستی ایوانوں میں انہیں
بڑی عزت و تکریم حاصل تھی۔ ریاست فرید کوٹ کے راجہ ان کی بہادری اور جرأت
کے بلاشبہ معترف تھے۔ بہار خان اکثر ناشتے میں راجہ کے ساتھ شریک ہوتے۔ ایک
مرتبہ کسی اہلکار کی غفلت کی وجہ سے ریاستی جیل سے سنگین جرائم کے کچھ قیدی
بھاگ گئے۔ راجہ کو اس پر بہت غصہ آیا اور اُن کو گمان گزرا کہ وہ قیدی
سردار خاں کی سستی اور نااہلی کی وجہ سے بھاگے ہیں۔ اس لئے راجہ‘ سردار خاں
کو انتہائی سخت سزا دینے کے درپے ہوگیا ۔اندیشہ تھا کہ وہ انہیں بھی اس جرم
کی پاداش میں پھانسی پر لٹکا دے گا۔ جونہی یہ منحوس خبر نواب خان اور ان کے
خاندان تک پہنچی تو گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس زمانے میں راجہ کے قہر سے
بچنے کی کوئی اورصورت نہ تھی۔ سگے بھائی کو سزا ہوتے دیکھ کر چھوٹا بھائی
بہار خاں کی پریشانی دیدنی تھی۔ ایک دن انہوں نے راجہ کوخوشگوار موڈ میں پا
کر التجا کی کہ سزا کو چند دنوں کے لئے موخر کر دیا جائے۔ اس دوران وہ خود
فرار ہونے والے قیدیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ بہار خاں چونکہ
ریاستی راجہ کے ہر دلعزیز افسر تھے ،اس لئے انہیں چند دنوں کی مہلت اس شرط
پر دے دی گئی کہ اگر مقررہ مہلت کے دوران قیدی نہ پکڑے جاسکے تو سردار خاں
کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی سزا بھگتنا ہو گی۔ بہار خاں کے لئے یہ بڑا چیلنج
تھا۔ بے شک ان کو اپنی بہادری اور دلیری پر بڑا ناز تھا لیکن جس طرح کمان
سے نکلے ہوئے تیر کو واپس نہیں لایا جا سکتا، اسی طرح فرار ہونے والے
قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنا اور مقررہ مہلت میں راجہ کے سامنے پیش کرنا
بھی ایک مشکل ترین کام تھا۔ چونکہ سگے بھائی کی جان جانے کا خدشہ تھا، اس
لئے بہار خاں نے بھی اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔
اس دوران حویلی میں آیت کریمہ کا ورد شروع ہو گیا۔ تمام گھروالوں کا سکھ
چین چھن چکا تھا۔ ہر فرد کی زبان پر صرف ایک ہی دعا تھی کہ اے پروردگار
بھاگے ہوئے قیدی پکڑے جائیں۔ خدانخواستہ مقررہ مدت میں ایسا نہ ہو سکا تو
خاندان کو ایک کی بجائے اپنے دو انتہائی اہم افراد سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ یہ دونوں بھائی ہی خاندان کے کفیل تھے۔ بہرکیف
بہار خاں‘ اﷲ کا نام لے کر چند سپاہیوں کے ہمراہ قیدیوں کو پکڑنے کے لئے
نکل کھڑے ہوئے۔ ویران حویلیوں‘ فرید کوٹ شہر سے باہر دیہی ڈیروں اور جنگل
بیابانوں کی تلاشی لی گئی لیکن قیدی کہیں نہ ملے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا
تھا‘ بہار خاں اور ان کے خاندان کے سامنے موت کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ایک
دن بہار خاں مایوس ہو کر اپنی موت کا پروانہ حاصل کرنے راجہ کی عدالت میں
جارہے تھے کہ راستے میں ہی بھاگے ہوئے قیدی ان کے ہاتھ لگ گئے ،جنہیں
گرفتار کر کے راجہ کی عدالت میں پیش کر دیاگیا۔اس طرح( میرے نانا )سردار
خاں اور بہار خاں کی جان بخشی ہوئی۔ ’’سردار خاں‘‘ کی شادی نور بیگم سے
ہوئی۔ جس کے بطن سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں( محمد عالم خاں‘ امیر بیگم اور
خورشید بیگم) پیدا ہوئیں۔ ایک بہن تو بچپن ہی میں فوت ہو گئیں جبکہ بھائی
محمد عالم اور ایک بہن قیام پاکستان کے بعد کافی عرصے تک زندہ رہے۔محمد
عالم خاں قیام پاکستان کے بعد عرصہ دراز تک حیدر آباد ریلوے اسٹیشن پر
اسٹیشن ماسٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ان کی فیملی شاید آج بھی حیدرآباد
میں ہی مقیم ہے ۔اور باقی ماندہ خاندان کے لوگ عارف والا اور سنگھ پورہ
لاہور میں آباد ہیں ۔
جب نور بیگم اس دنیا سے کوچ کر گئیں تو (میرے نانا) سردار خاں کی دوسری
شادی (میری نانی) ’’غلام فاطمہ‘‘ سے ہو گئی، جسے ان دنوں ’’بنی بیگم‘‘ کے
لقب سے پکارا جاتا تھا۔ وہ اس وقت اپنے والد گرامی نور خاں کے گھر، ٹینکوں
والی بستی فیروز پور شہر میں رہائش پذیر تھیں جبکہ (میری نانی )بنی بیگم کے
والد ریلوے پھاٹک پر پھاٹک والے کی ڈیوٹی انجام دیا کرتے تھے۔ دراصل اس وقت
شہر سے باہر ریلوے پھاٹک اور اس پر ڈیوٹی دینے والے ملازمین ‘ پلٹیئرنامی
افسر کے ماتحت ہوا کرتے ہیں۔ والدہ کے مرنے کے باوجود محمد عالم اور خورشید
بیگم اپنی دوسری ماں غلام فاطمہ (بنی) کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہ رہے تھے
بلکہ اپنی چھوٹی بہن ہدایت بیگم (جو میری والدہ ہیں) کا بھی بہت خیال رکھتے
تھے اور ہر طرح سے ان کے ناز نخرے بھی اٹھاتے ۔
میری والدہ کے خالہ زاد (جو میرے والد ہیں) دلشاد خاں لودھی جو اوائل عمری
میں ہی شعور کی حد تک پہنچ چکے تھے۔ فرید کوٹ میں بہنے والی اکلوتی نہر میں
نہانے کے لئے چلے گئے۔ ہدایت بیگم (میری والدہ) بھی بغیر کچھ سوچے سمجھے ان
کے پیچھے چل پڑیں۔ جب میرے والد نہر میں نہا رہے تھے تو میری والدہ (ہدایت
بیگم جو ابھی کمسن تھیں) نے دیکھا دیکھی، نہر میں چھلانگ لگا دی۔ میرے والد
کو اس وقت خبر ہوئی جب میری ماں گہرے پانی میں ڈوبنے لگیں وہ خود تو غوطے
کھا رہی تھیں لیکن ان کا پراندہ پانی کے اوپر تیر رہا تھا میرے والد نے اسی
پراندے کو پکڑ کر انہیں باہر نکالا اور جب گھر لے کر پہنچے تو(میرے نانا)
سردار خاں نے ان کی خوب پٹائی بھی کی۔ حالانکہ قصور میری والدہ کا تھا لیکن
والدہ کی نادانی کی سزا میرے والد( محمد دلشاد خاں لودھی ) کو بھگتنا پڑی۔
یہ ان کی مشترکہ زندگی کا آغاز تھا۔
اسی طرح 10محرم کو میرے والد تعزیہ دیکھنے شہر کی طرف جا رہے تھے کہ میری
والدہ( ہدایت بیگم) بھی پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ وہاں بھینسوں کے جمگھٹے میں
پھنس کر زمین پر ایسی گریں کہ سات بھینسیں ان کے اوپر سے گزر گئیں۔ خوش
قسمتی سے کسی بھینس نے بھی ان پر پاؤں نہ رکھا، یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ میرے
والد( دلشاد خاں لودھی) کو تب پتہ چلا جب شور مچاتے ہوئے لوگ انہیں بچانے
کے لیے بھاگ رہے تھے‘ قصور یہاں بھی میری والدہ ہی کا نکلا۔لیکن خالہ زاد
ہونے کے ناطے ایسے کتنے ہی واقعات ان دونوں کی زندگی میں شامل تھے ۔ اتنے
میں میری والدہ کے سوتیلے بھائی محمد عالم وہاں پہنچ گئے ،وہ سوتیلے ہونے
کے باوجود اپنی بہن کو بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی لاڈلی بہن
کی یہ حالت دیکھی تو بغیر سوچے سمجھے میرے والد پر برس پڑے‘ زبانی ڈانٹ کے
علاوہ ہاتھ سے بھی کام لیا اور ان کی پٹائی کردی۔ بہرکیف یہ واقعات ثابت
کرتے ہیں کہ میرے والد اور میری والدہ کزن ہونے کے ناطے بچپن ہی سے ایک
دوسرے سے منسوب تھے اور ان کا یہ ساتھ، خدا نے ازدواجی بندھن کی شکل میں
آخری سانس تک قائم رکھا۔
میرے والد اور والدہ کے مشترکہ نانا ’’نور خاں‘‘ طبیعت اور زبان کے خاصے
سخت تھے۔ گالیاں تو ان کی زبان سے ایسے نکلتیں، جیسے کلاشنکوف سے گولیاں
نکلتی ہیں‘ غصے کے عالم میں کسی کا بھی خیال نہ کرتے ۔ شادی کے بعد میری
والدہ۔ ہدایت بیگم) فیروز پور شہر آئی ہوئی تھیں۔ ان کی نانی نے کہا کہ
بیٹی جاؤ اپنے نانا کو کھانا دے آؤ۔ اس طرح تمہاری سیر بھی ہو جائے گی اور
نانا سے ملاقات بھی ہو جائیگی۔ میری والدہ اوران کی خالہ عنایت بیگم‘ پیدل
ہی پھاٹک کی طرف چل پڑیں جو کچھ ہی فاصلے پر واقع تھا۔ عمر میں چونکہ خالہ
بھتیجی دونوں برابر ہی تھیں۔ ا س لئے ہم خیال بھی تھیں۔ جب یہ دونوں ریلوے
پھاٹک پر پہنچیں تو ’’نور خاں‘‘ نے ان سے روٹی لے کر کھانا شروع کر دی۔ ان
کے ساتھ ایک بچہ شفیق بھی تھا جو ابھی گود میں تھا۔ کھانا کھانے کے بعد
میری والدہ کو ان کے نانا نے کہا کہ بیٹی تم یہیں بیٹھو میں تمہارے لئے
کھیتوں سے گاجریں‘ ساگ اور دوسری چیزیں توڑ کر لاتا ہوں، شام کو انہیں پکا
لینا۔ اور ذرا ہوشیار ہو کے بیٹھنا ۔اگر دور سے ٹھیلا (جس پر ریلوے کا افسر
پلیٹئر بیٹھتا تھا) نظر آئے تو مجھے آواز دے دینا تاکہ میری غیرحاضری نہ لگ
جائے۔ یہ کہہ کر نانا نور خاں کھیتوں کی جانب چلے دیئے۔ اسی اثناء میں ایک
اونٹ لائن پر چڑھا اور دوسری طرف اتر گیا۔ میری والدہ کو شک گزرا کہ شاید
یہی وہ ٹھیلا ہے، جس کے بارے میں ان کے نانا نے بتانے کی تاکید کی تھی۔
انہوں نے بغیر مزید تحقیق کیے اونچی آواز میں نانا ’’نور خاں‘‘ کو بلانا
شروع کر دیا۔ بیچارے نانا گرتے پڑتے بھاگتے آئے، ان کا سانس بھی تیز تیز چل
رہا تھا ،جب آ کر انہوں نے ٹھیلے کے بارے میں پوچھا تو والدہ نے نہایت
معصومیت سے جواب دیا کہ وہ ادھر سے چڑھ کر دوسری طرف اتر گیا ہے۔ نانا تو
گالیاں دینے کے جنون میں ہر وقت مبتلا رہتے تھے ،انہوں نے گالیاں دینا شروع
کر دیں۔ کچھ دیر بعد جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو پھر اپنی بیٹی عنایت بی بی کی
ڈیوٹی لگا کر گاجریں توڑنے کے لئے ایک بار پھر کھیتوں میں چلے گئے۔ اسی
اثناء میں ایک اور واقعہ رونما ہو گیا۔ ننھے شفیق نے نانا کی نماز پڑھنے
والی جگہ پر پیشاب کر دیا اور جو پانی انہوں نے قریب ہی وضو کرنے کے لئے
رکھا ہواتھا، میری والدہ نے اس پانی سے اس جگہ کو دھویا اور دھوتے ہوئے
اینٹوں کا جو کچا چبوترہ نماز کے لئے بنا ہوا تھا اس میں سے ایک اینٹ بھی
اکھڑ گئی۔ ڈر اور خوف کی ماری ہوئی میری والدہ نے اس اکھڑی ہوئی اینٹ کو
اپنی جگہ لگا تو دیا لیکن دوسری اینٹوں کی نسبت وہ اینٹ ذرا اونچی رہ گئی۔
نانا واپس آئے تو نماز والی جگہ کو پانی سے گیلا اور اینٹ کو اونچا نیچا
دیکھ کر پوچھا۔ یہاں کیا ہوا تھا؟ میری والدہ نے گود میں اٹھائے ہوئے بچے
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ شفیق نے پیشاب کر دیا تھا ،اس لئے اسے صاف
کیا ہے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ یہ اینٹ کس نے توڑی ہے تو ماں نے اقرار کر
لیا کہ یہ جرم بھی مجھ سے ہی سرزد ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ ایک بار پھر
گالیاں دینے لگے، جب گالیاں دے کر تھک گئے تو کہنے لگے ڈبے میں پانی پڑا
ہوا ہے اس سے مٹی گیلی کر کے اینٹ کو دوسری اینٹوں کے برابر لگا دو۔ لیکن
ڈبے کے قریب پہنچے تو ڈبہ بھی پانی سے خالی تھا۔ غلطی پر غلطی ہوتی چلی جا
رہی تھی ، میری والدہ جو بڑے شوق سے اپنے نانا کو ملنے کے لئے آئی تھیں ،ان
کے غصے کا مسلسل شکار ہو رہی تھیں۔ جب وہ بدمزہ ہو کر گھر واپس لوٹ رہی
تھیں تو ان کے نانا نے مٹی میں لگے ہوئے دو پودے ان کے اور اپنی بیٹی عنایت
بی بی کے سر پر رکھ دیئے تاکہ وہ انہیں گھر لے جائیں۔ خالہ عنایت بی بی کا
پودا تو صحیح سلامت گھر پہنچ گیا لیکن میری والدہ جو شٹل کاک جیسا ٹوپی
والا برقعہ پہنے ہوئے تھیں ان کے سر سے پودا گر گیا لیکن صرف مٹی کا ڈھیلا
ہاتھوں میں رہ گیا۔ گھر پہنچ کر دیکھا تو سخت ندامت ہوئی کہ اب نانا کو کیا
جواب دوں گی؟ میری والدہ کو نانا کے قہر سے بچانے کے لیے عنایت بی بی نے
ایک چالاکی کھیلی کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا پودا زمین میں لگا دیا۔ جب شام
کو نانا نور خاں گھر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ میں نے تو شہتوت کا پودا
بھیجا تھا لیکن زمین میں جامن کا پودا لگا ہوا ہے تو ان کی چھٹی حس پھڑک
اٹھی لیکن خالہ عنایت نے خود جھوٹ بول کر معاملہ رفع دفع کروا دیا ورنہ پھر
گالیوں کی بوچھاڑ ہونے ہی والی تھی۔ یہ معاملات اور واقعات ظاہر کرتے ہیں
کہ میری والدہ بہت سادہ طبیعت کی تھیں‘ نانا سے گالیاں کھانے کے باوجود بھی
وہ اپنی زبان احتراماً بند رکھتیں اور بزرگوں کے مرتبے کا ہر حال میں خیال
رکھتیں۔ میری والدہ فرید کوٹ کے جس سکول میں پڑھتی تھیں وہاں ہندی پڑھائی
جاتی تھی اس لئے انہیں اردو سے زیادہ ہندی آتی تھی۔ چھٹی کلاس تک انہوں نے
تعلیم حاصل کی۔ پھر والدین نے مدرسے سے یہ کہہ کر اٹھالیا کہ انہوں نے کون
سی نوکری کرنی ہے۔
شادی کے وقت میری والدہ کی عمر17 سال تھی جبکہ میرے والد بائیس سال کے تھے۔
اس طرح میری والدہ، میرے والد سے پانچ چھ سال چھوٹی تھیں ۔ان کے ہاں پہلا
بیٹا ’’رمضان خاں‘‘ فرید کوٹ ہی میں 2اگست1947ء کو پیدا ہوا۔ ان دنوں شہر
ہنگاموں کی لپیٹ میں تھا۔ مسلمان بیدردی سے قتل کیے جا رہے تھے۔ وہ ہندو
اور سکھ جو پہلے بہن بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوا
کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی جان کے دشمن ہو گئے اور ان پر
اس قدر وحشت طاری ہوئی کہ ان کو نہ بچوں پر رحم آتا اور نہ عورتوں پر۔ان پر
ایک ہی جنون طاری تھا کہ کوئی مسلمان یہاں سے بچ کر پاکستان نہ پہنچ سکے۔
بظاہر تو حکومت غیرجانبدار تھی لیکن عملاً فوج اور پولیس کی
خاموشی ہندوؤں اور سکھوں کی بربریت کا ساتھ رہی تھیں۔ مسلمان بالکل نہتے
تھے اگر ان کے پاس کہیں اسلحہ موجود بھی تھا تو پولیس اور فوج کے جوان ان
سے چھین لیتے۔
نہایت بے رحمی سے ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر نہتے مسلمان بچوں‘ عورتوں اور
بوڑھوں کو بے دریغ قتل کیا۔ جب مذہب کی بنیاد پر سب ایک دوسرے کے دشمن بن
گئے تو والدہ سمیت سارے خاندان نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس
فیصلے پر عمل کرتے ہوئے جب وہ بچتے بچاتے فرید کوٹ ریلوے اسٹیشن پر گاڑی
میں سوار ہونے کے لئے پہنچے تو اس وقت بھی سکھوں اور ہندوؤں کی ٹولیاں
برچھے اور کرپانیں پکڑے اسٹیشن کے باہر موجود تھیں اور قتل عام کرنے کے لئے
کسی موقع کی تلاش میں تھیں۔وہاں ایک مشکل یہ پیش آئی کہ جونہی گاڑی پلیٹ
فارم پر رکی تو دھکم پیل میں میری والدہ کی آغوش میں اٹھایا ہوا بھائی
رمضان ( جو ابھی چنددن کا ہی تھا ، پھسل کر گاڑی اور پلیٹ فارم کے درمیانی
جگہ پر گر گیا۔گاڑی چلنے کے لیے وسل بجا رہی تھی ،اس لمحے کوئی بھی نیچے
اترنے کا رسک نہیں لے رہا تھا ،والدہ اپنے لخت جگر کی جدائی میں مسلسل روئے
جا رہی تھی ،میری والدہ کے ماموں جن کا نام فتح محمد خاں تھا، ان سے اپنی
بھانجی کا دکھ دیکھا نہ گیا ،وہ تیزی سے نیچے اترے اور بھائی رمضان کو اٹھا
کر پلیٹ فارم پر لے آئے۔تب جا کر میری والدہ کے دل کو قرار ملا ۔خونخوار
سکھوں اور ہندووں کا خوف ہر لمحے طاری تھا ۔ جب تک گاڑی پاکستان کی سرحد
میں داخل نہیں ہو گئی اس وقت تک ہر شخص کو اپنی جان کا خطرہ درپیش رہا۔
کیونکہ ان دنوں ایسی خبریں مسلسل آ رہی تھیں کہ راستے میں ہندو ڈرائیور
دانستہ گاڑی روک دیتے اور چاروں طرف سے ہندو اور سکھ برچھیوں اور کرپانوں
سے گاڑی پر حملہ کر کے مسلمانوں کو قتل کر دیتے تھے‘ کٹے پھٹے انسانی اعضاء
سے بھرئی ہوئی گاڑی جب پاکستان پہنچتی تو مسلمانوں کا جذبہ انتقام مزید بڑھ
جاتا۔
بہرکیف پاکستان آ کر میری والدہ تو اپنے سسرال قصور میں ٹھہر گئیں جہاں
میرے دادا پہلے ہی بطور کیبن مین مقیم تھے جبکہ میرے ننھیال کے لوگ ضلع
ساہیوال کے نواحی شہر عارف والا میں جا بسے۔ ابتداء میں میرے والدین ریلوے
پھاٹک کے قریب ایک کرائے کے مکان میں مقیم رہے۔جہاں 25دسمبر 1954ء کو میری
پیدائش ہوئی ،اس سے پہلے مجھ سے بڑے بھائی محمد اکرم خاں لودھی بھی 1952 ء
میں قصور میں ہی پیدا ہوچکے تھے ،ان کی پیدائش کے وقت لاہور اور قصور شہر
زبردست سیلاب کی زد میں تھے ۔دریائے بیاس جو قصور کے آؤٹر سنگنل کے قریب
بہتا تھا، سنا یہی ہے کہ وہ بڑا پھنے خاں قسم کا دریا مانا جاتا تھا،ایک
جانب دریائے بیاس اور دوسری جانب دریائے ستلج قصور شہر سے آٹھ دس میل کے
فاصلے پر بہتا تھا ، یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھارت نے ان دریاؤں پر ابھی
ڈیم تعمیر نہیں کیے تھے ، موسم برسات میں پنجاب کی سرزمین میں بہنے والے
تمام دریاؤں میں سیلاب کا آنا ایک معمول بن چکا تھا ۔دریائے بیاس کو تو میں
نے بھی اپنی ہوش میں قصور شہر کے قریب بہتا ہوا دیکھا ہے ، بھارت پے درپے
ڈیم بنا کر دریائے بیاس کوتو ہڑپ کرچکا ہے ،اب اس کی حیثیت ایک گندے نالے
کی سی ہوگئی ہے جو قصور کے مغرب سے گزر کر چونیاں شہر کی فصیل کے ساتھ آج
بھی دیکھا جاسکتا ہے لیکن اب اس کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔
دریائے ستلج تو اب تک موجود ہے ،موسم برسات میں جب پانی حد سے زیادہ بڑھ
جاتا ہے تو بھارت دریائے ستلج میں چھوڑ دیتا ہے جو صوبہ پنجاب کی مشرقی
سرحد کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا بہاولپور تک جاتا ہے ،پھر تمام دریا پنجند پر
اکھٹے ہوکر دریائے سندھ میں جا گرتے ہیں ۔ان دریاؤں کی کہانی بھی بہت دلچسپ
ہے لیکن وہ پھر کبھی سہی ۔بس اتنا بتاتا چلوں کہ جب دریائے ستلج میں بھارت
کی جانب سے پانی چھوڑا جاتا ہے تو بہاولپور کے لوگ اپنے ہاتھوں میں پھول
پکڑ کر ایک ایسے پل پر کھڑے ہو کر دریا میں آنے والے پانی کا استقبال کرتے
ہیں۔ اس عمل سے بہاولپور کے لوگوں کی دریائے ستلج سے والہانہ محبت کا اظہار
ہوتاہے ۔دریائے راوی کے حوالے سے بھی بیشمار کہانیاں سنی اور سنائی جاتی
ہیں جن کا تذکرہ اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا
ہے کہ یہ تینوں دریا بھارت کے ناروا سلوک کی وجہ سے اپنا وجود کھوچکے ہیں ۔
...............
یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ انسان اپنی ذات سے بھی زیادہ اپنی ماں کے بارے
میں جانتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جب انسان شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو
ماں کا محبت بھرا چہرہ ہی سب سے پہلے دکھائی دیتا ہے یہ اسے ساری دنیا سے
افضل اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ ماں کی محبت بھری چھاؤں کے نیچے آ کر انسان
اپنے دکھ درد بھول جاتا ہے، بچے کے لئے سب سے پُرسکون جگہ ماں کی آغوش ہی
ہوتی ہے۔ ہر بچے کی طرح میں بھی اپنی ماں کو اتنا ہی پیار کرتا ہوں کہ اس
کا ذکر الفاظ میں ممکن نہیں۔ ماں کی محبت میری سانسوں اور خون میں رچی بسی
ہے۔ میں نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اپنی ماں کو ہی اپنے قریب پایا۔ لیکن
ماں کی ذمہ داری میں میرے دوسرے بہن‘ بھائیوں کی نگہداشت بھی شامل تھی۔
لیکن مجھے یہی محسوس ہوتا تھا کہ مجھے خوش رکھنا اور میری ہر ضرورت کا خیال
رکھنا ہی ماں کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ وہ صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتیں
،اگر موسم سردیوں کا ہوتا تو مجھ سمیت اپنے تمام بچوں کو گرم کپڑوں سے
ڈھانپتیں۔ کانوں اور چہرے کو سردی سے بچانے کے لئے باندر ٹوپہ پہناتیں کہ
ان دنوں سردی سے بچاؤ کے لئے یہیسب سے کارآمد ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔ صبح
کا ناشتہ ایک کمرے پر مشتمل کوارٹر کے برآمدے میں تیار کرنے سے پہلے آگ کے
بجھے ہوئے کوئلوں کو دوبارہ جلا کر ماں پہلے سرخ کر تیں۔ مٹی کی بنی ہوئی
انگیٹھی ہمارے درمیان رکھ کر خود تیل سے بھیگا ہوا سوتر چولہے میں رکھ کر
اس پر لکڑیاں جوڑتیں اور اس سے آگ جلانے کی جستجو کرتیں۔ لکڑیاں گیلی ہوتیں
تو پھونکنی سے پھوکیں مارنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ماں
خود بھی پھونکنی سے پھونکیں مارتیں اور بڑے بھائی کو بھی اس مقصد کے لئے
ماں کا ہاتھ بٹانا پڑتا۔ ناشتہ کر کے میلشیے کا سوٹ پہن کر سکول جانا
ہماراروزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ اس کے بعد ماں خود برتن دھونے کے بعد
چولہے اور اس کے گردونواح کی کچی جگہ پر چکنی مٹی کا پوچا مارتیں بلکہ مٹی
کی بنی ہوئی ہانڈی کے نیچے بھی لیپ کر لتیں۔ شام کا کھانا جب پک جاتا تو
توے کو الٹا کر کے کھڑا کر دیتیں اس گرم گرم توے کی پشت پر سرخ تاروں جیسی
روشنیاں ادھر سے ادھر رقص کرتی خوشنما دکھائی دیتیں۔ جب میں‘ ماں کے قریب
بیٹھا ہوتا تو پیار سے ماں کہتی۔ یہ میرے اسلم کی بارات جا رہی ہے۔ ماں کی
زبان سے یہ لفظ سنتے ہی میں بھی ان رقص کرتی اور جگمگاتی ہوئی روشنیوں کو
حیرت سے دیکھنے لگتا جس سے میری ماں کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگتا۔
جب ہم واں رادھا رام کے کواٹروں میں رہائش پذیر تھے گرمیوں کے موسم میں
بجلی توگھر میں موجود نہ تھی ،ماں جی ہمیں گرمی کی شدت سے بچانے کے لیے چھت
کے ساتھ ایک بڑا سا کپڑا باندھ لیتیں ، پھر اس کے ساتھ بندھی ہوئی ایک رسی
کو اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ لپیٹ لیتیں، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ماں
سو بھی جاتیں تب بھی ان کے پاؤں کا انگوٹھا مسلسل حرکت کرتارہتا جس چھت پر
بندھا ہوا کپڑا حرکت کرتا اور ہمیں گرمی کی شدت سے محفوظ رکھتا ۔
ان دنوں شلواروں اور پاجاموں میں ڈالنے والے نالے (ازار بند) سویٹر اور
لیسیں ہاتھوں سے بننے کا رواج عام تھا۔ ازار بند بننے کے لئے لکڑی کے ایک
اڈے کی ضرورت ہوتی‘ کئی دنوں کی مسلسل محنت کے بعد بمشکل ایک ازار بند تیار
ہو تا جبکہ ہر گھر میں برتن رکھنے والے پھٹو ں پر لیس دار کپڑا بچھانے کا
رواج بھی عام تھا۔ چونکہ ہمارے گھر میں والدین نے شوقیہ سینکڑوں چائے کی
پیالیاں جمع کر رکھی تھیں ،تام چینی، تابنے اور سٹیل کی پلیٹیں بھی خاصی
مقدار میں تھیں۔ ان تمام برتنوں کو پھٹوں پر سجانے کے لئے ماں لیس لگا ہوا
کپڑا استعمال کرتیں۔ جس سے سارے گھر کا ماحول خوشنما ہو جاتا لوگ دور دور
سے ہمارا جگ مگ کرتا ہوا گھر دیکھنے کے لئے آتے۔ لیس‘ ازار بند اور سویٹر
بننے کا کام واں رادھا رام میں عام طور پر ہمارے گھر کے بالکل سامنے پیپل
کے درخت کے نیچے محلے کی عورتیں مل کر کیا کرتی تھیں۔ دوپہر کو جب ہم سکول
سے واپس آتے تو تمام عورتیں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں۔ چونکہ ان دنوں
بجلی چھوٹے شہروں تک نہیں پہنچی تھی ۔اس لئے مرد حضرات گرمیوں میں زیادہ تر
درختوں کے سائے میں اور سردیوں میں اپنے گھروں کے باہر دھوپ میں ہی آرام
فرمایا کرتے تھے۔
آپ حیران ہوں گے کہ میر ی والدہ مجھے ’’سوہنے‘‘ کے نام سے پکارا کرتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ محلے کی ساری عورتیں بھی مجھے اسی نام سے پکارنے لگیں۔ میں
جب آئینہ دیکھتا تو حیرت ہوتی کہ میں اتنا خوبصورت تو نہیں ہوں ، پھربھی
ماں مجھے سوہنا کیوں کہتی ہے؟ بعد میں پتہ چلا کہ ہر ماں کی طرح میری ماں
بھی مجھے سوہنا کہہ کر مجھ پر اپنی محبتیں نچھاور کرتی تھی۔ ایک ماں کو
ساری دنیا سے خوبصورت اپنا ہی بچہ لگتا ہے۔ محبت کا یہی جذبہ ماں کو دیگر
رشتوں سے ممتاز کرتا ہے۔
یہاں مجھے ایک قصہ یاد آرہا ہے، ماں کی محبت کو جانچنے کے لیے ایک بادشاہ
نے خوبصورت بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا ۔پھر ایک غریب سی عورت (جس کا اپنا
بچہ گندے کپڑوں سے لتھڑا ہوا قریب ہی بیٹھا تھا ) سے بادشاہ نے پوچھا ۔اے
خاتون مجھے بتاؤ تمہیں ان بچوں میں سے کونسا بچہ زیادہ خوبصورت لگتا ہے ،اس
نے تمام بچوں کو ایک نظر دیکھاپھر اپنے بچے پر نظر ڈالی جس کا ناک بہہ رہا
تھا اور پھٹے پرانے سے کپڑے اس نے پہن رکھے تھے، وہ عورت بادشاہ سے مخاطب
ہوئی کہ بچے تو سبھی خوبصورت ہیں لیکن مجھے اپنا ہی بچہ سب سے خوبصورت لگتا
ہے ،اس لمحے بادشاہ کو ایک ماں کے جذبات کا احساس ہوا ۔
بچپن میں مجھے ماں کی آغوش میں سونے کا بہت شوق تھا۔ پہلے نصرت بہن نے مجھ
یہ حق چھینا پھر چھوٹے بھائی اشرف اور ارشد پیدا ہوئے تو انہوں نے مجھ سے
یہ حق بھی چھین لیا۔ اب میں ماں کو دور ہی سے پیار کر سکتا تھا۔ آغوش مادر
کی لذت مجھ سے چھین گئی تھی۔ ماں کی یہ اداء مجھے زندگی بھر نہیں بھولتی،
جب وہ نہلانے کے لئے مجھے اپنی بغل میں دبوچ کر میرے سر پر پانی ڈالتی۔ پھر
کپڑے دھونے والا صابن سر پر لگا کر نہلاتی تو مسلسل پانی ڈالنے سے میرا
سانس رک جاتا ،مجھے غوطے بھی آنے لگتے۔ میں شور مچاتا لیکن میرے احتجاج کی
ماں کے نزدیک کوئی اہمیت نہ تھی‘ وہ مجھے صاف ستھرا رکھنے کی دُھن میں مگن
اپنا کام جاری و ساری رکھتیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم سب لاہور کینٹ آ چکے تھے ۔یہاں رہائش کے لئے
کوارٹروں کے نزدیک ہی ایک الگ کمرہ بھی بنا لیا گیا تھا‘ جہاں بھائی محمد
اکرم خاں لودھی کی فیملی آج بھی رہائش پذیر ہے۔میں جس رات کابطور خاص ذکر
کر رہاہوں، وہ سردیوں کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ شام ہی سے آسمان پر بادلوں
نے ڈیرے جما لئے تھے۔ گرج چمک کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا، ابھی بارش
شروع نہیں ہوئی تھی۔ جس ریلوے کوارٹر میں ہماری رہائش تھی ،وہاں سفیدی
(وائٹ واش) ہو رہی تھی۔ اس لئے والدہ نے مناسب سمجھا کہ یہ رات ہم کچے کمرے
میں ہی بسر کرلیں۔ اس مکان کی چھت لکڑی کے بالوں کی تھی اور زیادہ پائیدار
بھی نہ تھی لیکن باامر مجبوری ہمیں وہیں رات بسر کرنا تھی۔ جونہی ہم نیند
کی گہری وادی میں اترے‘ موسلادار بارش شروع ہو گئی۔ چھت نے بھی کئی جگہوں
سے ٹپکنا شروع کردیا چونکہ اس کمرے کا فرش بھی نیچا تھا، اس لئے بارش کا
ٹھنڈاپانی نکاس نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں ہی جمع ہونے لگا۔ ہمارے آرام کو
ملحوظ رکھتے ہوئے والدہ نے اپنا بستر چھوڑا اور اپنی رضائی ہم پر ڈال دی
اور خودچھت سے ٹپکنے والے بارش کے پانی میں ساری رات چلتی پھرتی رہیں ۔
ان کے دونوں پاؤں چار پانچ انچ گہرے ٹھنڈے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے‘ سردیوں
کی راتوں کا تصور کر کے اس کیفیت کا اندازہ کیجئے۔ ساری رات بارش کا سلسلہ
جاری رہا اور ماں جی سخت ٹھنڈے پانی میں کھڑے ہو کر ساری رات ہماری نگہداشت
کرتی رہی جس سے انہیں بخار ہو گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس رات اپنی ماں
کی محبت کا معترف ہو گیا۔ بلاشبہ یہ ماں کی محبت کا ایک عظیم الشان اور
شاندار مظاہرہ تھا،جو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے اپنا سکھ چین بالائے طاق
رکھتے ہوئے کیا تھا۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ایک صحابی ،حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں نے
اپنی ماں کو اپنے کندھے پر اٹھا کر حج کرایا ہے۔ کیا میں نے ماں کا حق ادا
کر دیا؟ اس پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ماں کے حق کی بات
کرتے ہو۔ تم نے تو سردیوں کی ایک رات کا حق بھی ادا نہیں کیا جب تمہارے
پیشاب سے بستر گیلا ہو گیا تھا اور ماں نے تمہیں اپنی سوکھی جگہ سلایا تھا
اور خود پیشاب والی گیلی جگہ پر سوئی تھی۔
بہرکیف وہ دن بھی کیا تھے جب چھٹی والے دن ہمیں ماں جی کے حکم پر تین چار
من لکڑیاں بھی پھاڑنا پڑتی تھیں۔ ماں جی ان لکڑیوں کو جلانے کے لئے برآمدے
میں بنائی ہوئی جگہ پر محفوظ کر لیتیں۔اﷲ کا شکر ہے برآمد صحیح حالت میں
تھا اور بارش میں بھی ٹہپکتا نہیں تھا۔
اﷲ تعالیٰ نے میری ماں کو سہیلیاں بھی بہت خوب دے رکھی تھیں۔ جن دنوں ہم
لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں رہائش پذیر تھے۔ ماسی شیداں‘ مالن ماسی‘
ماسی قریشاں‘ رانو کی (یہ بھی اﷲ کو پیاری ہو چکی ہیں) امی‘ ماسی برکتے‘
ماسی صغراں(جو اب اس دنیا میں نہیں )‘ ماسی سلمیٰ‘ ماسی پروین‘ ماسی پھجاں
میری ماں کی پکی سہیلیا ں تھیں ان سب کے درمیان گھنٹوں ملاقاتیں چلتی
رہتیں۔ کبھی کوئی موضوع زیر بحث ہوتا تو کبھی کوئی۔ اگر محلے میں کسی کی
شادی ہوتی توماں کی ان سہیلیوں کو گفتگو کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آ جاتا۔ جب
بھی محلے میں کسی گھر یں کوئی فوت ہو جاتا اور میتکو رات رکھنا پڑتا تو ماں
اور ماسی شیداں میت والے گھر ساری رات جاگنے میں پیش پیش ہوتیں۔ دوسرں کی
غمگساری میں انہیں خاص لطف آتا۔
میں جس زمانے کی بات کررہا ہوں اس زمانے میں دوپہر کو کوارٹروں کے مرد اپنی
اپنی چارپائیاں سروں پر اٹھائے میاں میر پل کے نیچے چلے جاتے جہاں سخت گرمی
کے دنوں میں بھی ایسی ٹھنڈی ہوا چلا کرتی تھی کہ آج کل ائیرکنڈیشنز کی ہوا
اس کے آگے کیا ہو گی۔ دوپہر ڈھلتے ہی وہ لوگ چارپائیاں اٹھا کر گھروں کو
لوٹ آتے لیکن اس دوران کوارٹروں کے درمیان دھریک‘ نیم اور ٹالی کے درخت کے
نیچے خواتین گھونکھٹ نکالے گفتگو میں محو رہتیں۔ میری والدہ چونکہ پردے کی
سخت پابند تھیں ،اس لئے گرمی ہو یا سردی گھر سے باہر نہ نکلتی تھیں اور جب
بھی انہیں گھر سے باہر نکلنا پڑتا تو ان کے سر پر سفید لٹھے کا ٹوپی والا
برقعہ ہوتا جسے لوگ شٹل کاک کے نام سے بھی پکارتے ہیں‘ جس میں ہوا کا گزر
بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ میں کئی بار سوچا کرتا تھا کہ ماں جی سانس کہاں سے
لیتی ہیں پھر آنکھوں اور چہرے کے سامنے لگی ہوئی جالی سے ہوا گزرنے کا
اہتمام دیکھ کر سکون ملتا کہ ماں جی کو سانس لینے کے لئے مطلوبہ ہوا مل ہی
جاتی ہے۔
ماں کسی کی بھی ہو پیار اور احترام کے قابل ہوتی ہے۔ انسان تو انسان‘ جانور
بھی ماں کا احترام کرتے اور اس کے پیار کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن شائد ہی کوئی
انسان میرے جتنا پیار اپنی ماں سے کرتا ہوگا۔ پیدائش سے آج تک ماں کی جدائی
کا احساس ہی مجھے رُولا دیتا ہے۔ بچپن میں اگر میں کسی کی ماں کا جنازہ
دیکھ لیتا تو مرنے والی کے بچے سے زیادہ میں روتا کہ خدانخواستہ میری ماں
کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا۔ ہر وقت ماں کے چہرے کو ہی پیار سے
دیکھتا رہتا ہوں کیونکہ بزرگوں کے بقول اس سے حج کا ثواب ملتا ہے۔ یہ بھی
عجیب بات ہے کہ ماں جی میری دلی کیفیت سے ہر وقت آشنا نہیں ہوتی تھی۔ وہ
جتنا پیار میرے دوسرے بھائیوں کو دیتی ہے اتنا ہی مجھے بھی کرتی ہے۔ لیکن
شادی ہونے کے باوجود میری محبتوں کا تمام تر رخ اپنی ماں کی طرف رہا۔
لاہور کینٹ میں آمد کے بعد ہمیں جو ایک کمرے پر مشتمل کوارٹر رہنے کو ملا۔
اس میں چھوٹا سا برآمدہ اور دوچارپائیوں کی گنجائش والا صحن بھی تھا۔ اتنے
چھوٹے کوارٹر میں ہم پانچ بھائی والدین سمیت رہتے تھے۔ اکلوتے کمرے میں
اوپر نیچے چارپائیاں بچھا رکھی تھیں۔ برآمدے میں کھانے پینے کی اشیاء رکھنے
والی لکڑی کی الماری (جسے ہم ڈولی کے نام سے پکارتے تھے) رکھی ہوتی جبکہ اس
جگہ کا بالائی حصہ لکڑیاں محفوظ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا۔ یہاں یہ ذکر
بے محل نہ ہو گا کہ 30/Cریلوے کوارٹر پر آسیب کا سایہ بھی تھا۔ کہا جاتا
تھا کہ یہ سایہ کسی نیک بزرگ کا تھا۔ کیونکہ برآمدے میں جہاں پانی کے گھڑے
پڑے ہوتے وہاں، ماں جی ہر جمعرات کو چراغ جلایا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی
آسیب کی موجودگی کا احساس کئی مرتبہ ہمارے سب گھر والوں کو ہوچکا تھا۔
ایک دن سکول سے واپسی پر میں تھوڑا لیٹ ہو گیا۔ میری دادی ’’فاطمہ بی بی‘‘
چارپائی بچھا کر گرمیوں کی دوپہر میں ہاتھ کا پنکھا ہلا کر پسینہ خشک کر
رہی تھی کہ اسے اچانک برآمدے میں مجھ جیسا بچہ بیٹھا نظر آیا جو اپنا دایاں
پاؤں مسلسل ہلا رہا تھا۔ دادی نے آواز دے کر میری والدہ کو نیند سے بیدار
کیاکہ دیکھو اسلم سکول سے آ کر کہاں بیٹھ گیا ہے اس کا جسم بھی کانپ رہا
ہے۔ شاید اسے بخار ہے۔ ساس کی آواز سن کر جب میری والدہ نیند سے بیدار
ہوئیں تو وہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ میری ہی طرح کا لباس پہنے
ہوئے کوئی لڑکا برآمدے کی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا لیکن جونہی ماں اپنی
چارپائی سے اٹھی تو اس بچے نے اپنا پاؤں اندر کی طرف گھسیٹا اور غائب ہو
گیا۔ ماں وہاں پہنچی تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ بہت دنوں تک یہ واقعہ ہر
کسی کی زبان پر رہا۔اتنے میں ، مین مارکیٹ گلبرگ تھرڈ کے سکول سے پیدل ہی
چلتاہوا گھر پہنچ گیا تو یہ خوفناک کہانی سن کر میں بھی خوفزدہ گیا ۔
ایک دن برآمدے ہی کے دوسرے حصے میں جہاں کچھ جگہ دانستہ خالی رکھی جاتی تھی
۔ سب کو شبہ تھا کہ یہاں کسی بزرگ کا بسیراہے جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس
کی موجودگی کا احساس مسلسل ہمیں ہو رہا ہے ۔ ایک مرتبہ اتنے زور سے بارش
ہوئی کہ گھر کے تمام افراد کے لئے سونے کی جگہ کم پڑ گئی۔ صرف وہ جگہ خالی
تھی جہاں کسی بزرگ کا بسیرا تھا۔ میرے والد بہت سخت دل انسان تھے وہ کسی سے
ڈرتے ورتے نہیں تھے۔ بچپن سے جوانی تک انہوں نے جنگلوں اور بیابانوں ہی میں
زندگی گزاری تھی۔ بلاؤں‘ جنگلی جانوروں حتیٰ کہ چھلاؤں تک سے ان کا سامنا
ہوا تھا لیکن وہ کبھی نہ گھبرائے۔ ان کے مقابلے میں آنے والا ہر دشمن پسپا
ہونے پر ہی مجبور ہوا۔ ہم سب بھائیوں کو تو ماں نے دو دو کر کے سلا دیا۔
دادی اور دادا کو بھی چارپائی مل گئی۔ لیکن والد صاحب کو سونے کی جگہ نہ
ملی۔ روکنے کے باوجود والد صاحب نے اپنی چارپائی اسی آسیب زدہ جگہ پر
بچھانے کا فیصلہ کر لیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ گہری نیند سو گئے تو
انہیں یوں محسوس ہوا کہ کوئی بھاری بھر کم چیز چارپائی پر چڑھ آئی جس نے
چارپائی کے دونوں بازوں پر پاؤں رکھ کر زور لگا یا تو ایک دھماکے سے
چارپائی ٹوٹ گئی اور والد صاحب زمین پر آ گرے۔ اس کیفیت سے گزر کر والد
صاحب نے تسلیم کر لیا کہ واقعی گھر میں آسیب کا سایہ ہے۔ اس کے بعد جب تک
ہم اس کوارٹر میں مقیم رہے اس جگہ چارپائی نہیں بچھائی‘ کئی بار گھر میں
کسی کے چلنے پھرنے کی آوازیں بھی آیا کرتی تھیں۔ گھر کے دروازے پر لگی ہوئی
کنڈی خودبخود کھل جاتی ۔ کھانے والی چیزیں اکثر اپنی جگہ سے غائب ہو جاتی
تھیں۔ یہ روزمرہ کا معمول بن چکا تھا ۔
جب میری شادی ہوئی تو ہمیں سونے کے لیے پچھلا اور اکلوتا کمرہ ہی ملا۔ جس
میں اوپر تلے دو دو تین تین چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔اس کمرے کی اکلوتی
کھڑکی کے ساتھ ہی نیم کا ایک درخت تھا۔ اس بند کھڑکی سے بھی کئی بلائیں
میری بیوی کو خوفناک حرکتیں کر کے دکھائی دیتی تھیں۔ اس بات کا مجھے اس وقت
علم ہوتا جب بیگم خوفزدہ ہو کر چیخیں مارنے لگتی۔ میں اس چیخ و پکار کی وجہ
پوچھتا تو وہ اشارہ کر کے بتاتی کہ کھڑکی کی جانب سے مجھے خوفناک چہرے نظر
آتے ہیں جو ہاتھ بڑھا کر مجھے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں یہ بھی بتاتا
چلوں کہ میری بیگم کے والد( صوفی بندے حسن خاں ) ایک ولی کامل تھے۔وہ حضرت
سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ المعروف کرماں والوں کے مرید تھے اور خود بھی سورۃ
مزمل کے عامل تھے ۔دور دور سے لوگ ان کے پاس علاج کے آتے اور شفا پاکر واپس
لوٹتے۔ان کے پاس موکل تھے جو سینکڑوں میں پوری دنیا کا چکر لگا آتے ،جب
انہیں کسی انسانی جسم میں داخل ہونے کا حکم ملتا تو وہ جسم میں داخل ہو کر
جادو ،ٹونے کا اثر تلاش کرلیتے ۔ صوفی صاحب دم کرکے مریض کو صحت مند کردیتے
۔
یہ تمام باتیں ہمنے ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے اپنے موکلوں کو بھیج کر
دیکھا اور فرمایا گھر کے پیچھے نیم کا ایک درخت ہے اس پر ہندوؤں کی بدروحوں
کا قبضہ ہے جو اکثر آپ کو تنگ کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے علم کے زور پر انہیں
ختم تو کر دیتے لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ وہی خوفناک چہرے نظر آنے لگتے۔ یہ
سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک ہم نے وہ کوارٹر چھوڑ نہیں دیا۔
پرانے وقتوں میں رات کے وقت بطور خاص گرمیوں کے موسم میں مرد کھیلے میدان
میں چارپائیاں بچھا کر سویا کرتے تھے لیکن عورتوں کے لئے پردے کا اس وقت
بھی اہتمام کیا جاتاتھا۔ سر شام ہی ہر شخص اپنے اپنے گھر کے باہر پہلے پانی
چھڑکاتا، جھاڑو دیتا پھر چارپائیاں بچھا کر ایک بینڈ کا ریڈیو سینے پر رکھ
کر غربت بھری زندگی سے لطف اندوز ہوتا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان سے گیتوں
بھری کہانی نشر ہوا کرتی جبکہ آل انڈیا ریڈیو پر بھولے بسرے گیت بھی شام
ڈھلے نشرہوا کرتے تھے ،ریڈیو سیلون کا اپنا ہی چرچا تھا۔ اگر یہ کہا جائے
تو غلط نہ ہو گا کہ کوارٹروں میں ہر سطح پر مقابلے کا رحجان تھا۔ وہ شخص
دوسروں سے برتر نظر آتا جس کے پاس تین بینڈ کا ریڈیو ہوتا‘ ٹیلی ویژن کا تو
تصور بھی اس زمانے میں نہیں تھا۔اگر ہوگا بھی ،تو کسی امیر گھرانے میں ہوگا
لیکن جن کوارٹروں میں ہماری رہائش تھی، وہاں کسی کے گھر میں بھی ٹی وی
موجود نہیں تھا ،اس طرح سب سے پہلے ہمارے ہی گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی
بھائی رمضان کہیں سے چلتا ہوا خرید کر لائے تھے، جس پر نہ صرف ہمارے
گھروالے، پورے محلے کے لوگ بھی ذوق و شوق سے ٹی وی دیکھنے آیا کرتے تھے ۔
سوائے چند بڑے کوارٹروں کے کسی بھی کوارٹر میں لیٹرین نہیں ہوا کرتی تھی
اور نہ ہی نہانے کے لئے غسل خانے موجود تھے۔ عورتیں گھروں کو بند کر کے
نہاتیں جبکہ مرد مسجد کے غسل خانوں میں نہاتے تھے۔ غسل خانے کے سامنے ایک
تار سی بندھی ہوتی تھی جس پر نہانے والوں کے تولیہ قطار در قطار لٹکے ہوتے
۔جس کا تولیہ غسل خانے تک پہنچ جاتا یہ علامت نہانے کی باری آنے کی تھی
۔روزانہ نہانے کا رواج ہرگز نہیں تھا ،پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا
۔ہمارے گھر اور مسجد کے درمیان ریلوے کی جانب سے ایک بھاری بھرکم پٹھے
کاٹنے والے ٹوکے کی طرز کا ایک نلکا تھا ،جسے پوری طاقت سے گھومایا جاتا تو
پانی کی ہلکی سی دھار نکل آتی ،جب برتن پانی سے بھر جاتا تو مالک اٹھا کر
گھر لے جاتا اور بعد میں آنے والا پھر وہی عمل دھراتے ۔زندگی بہت سست روی
کے ساتھ گزر رہی تھی ۔ہمارے کواٹروں میں چند ایک افراد کلرک ٹائپ کے لوگ
بھی رہائش پذیرتھے جو سب پر بھاری محسوس کیے جاتے تھے ،ہر شخص ان کی حکم
عدولی سے بچانے کی کوشش کرتا ۔اس لمحے ان کا رعب دبدبہ دیکھ کر میں حیران
ہوتا کہ کیا کلرک بھی کوئی آسمانی مخلوق ہے۔
ریلوے کوارٹروں میں نیم کے دو بڑے درخت بھی تھے ،جن کے نیچے چارپائیاں
بچھانے پر ہر روز جھگڑا ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سایہ دار جگہ تھوڑی تھی
جبکہ چارپائیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس لئے مستقبل کی ضرورتوں کو پیش نظر
رکھتے ہوئے میں نے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے ایک الگ سایہ دار درخت
لگانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کئی دن سوچتا رہا کہ کون سا درخت لگایا جائے ،جو
میرے خاندان کو چھاؤں فراہم کر سکے۔ اسی جستجو میں‘ میں ایک دن ریلوے
اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم کے پاس گھوم رہا تھا ،جہاں مغربی پاکستان
کے گورنر ملک امیر محمد خاں کے لئے خوبصورت گورنر گیٹ موجود تھا۔جب گورنر
مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان ٹرین سے اترتا تو اسی گیٹ سے نکل کر اپنی
گاڑی میں بیٹھ کرتا گورنر ہاوس کے لیے روانہ ہوا کرتا تھا ۔
اسی گورنر گیٹ کے قریب مجھے چھوٹا سا پودا اچھا لگا جس کا کچھ حصہ خشک تھا
۔ میں اسے جڑ سے اکھاڑنے لگا تو ساتھ کھڑا ایک لڑکا کہنے لگا کہ پیپل کا یہ
پودا جلد ہی سوکھ جائے گا کیونکہ اس کی جڑیں کٹی ہوئی ہیں۔ میں نے اس لڑکے
کی بات پر توجہ نہ دی اور اس پودے کو اکھاڑ کر گھر لے آیا اور اپنے کچے صحن
کے کونے پر دروازے کے قریب، زمین میں گاڑ دیا۔ پھرہر روز اس کو پانی دینے
لگا۔ اس ننھے سے پودے کو چھیڑنے والے کئی بچوں اور بڑوں سے لڑائیاں بھی
ہوئیں۔ کئی بار یہ پودا بکریوں کی خوراک بنتے بنتے بچا۔ جب یہ پودا درخت
بنا تو ہم اس کوارٹر سے بڑے کوارٹر میں منتقل ہو گئے کیونکہ والدصاحب جو
پہلے کیبن مین تھے، وہ اب یارڈ فورمین بن چکے تھے۔رہائش ہماری جہاں بھی
رہی۔ پیپل کے درخت کی محبت دل سے کم نہ ہوئی ۔میں جب بھی والدین کے گھر
جاتا یا بھائی اکرم لودھی کے گھر ٹھہرتا تو پیپل کے قریب سے گزر کر ہی نماز
کے لیے مسجد پہنچتا ۔ چند لمحے اپنے پیپل کے پاس ضرور رکتا ۔اب میرا پیپل
ایک قد آور درخت کا روپ دھار چکا تھا اس کی جڑیں بھی زمین میں دور تک پیوست
ہوچکی تھیں ۔دوسرے لفظوں میں، میں اس کے بارے میں بے فکر ہوچکا تھا کہ اب
اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
پھر ایک رات جب لاہور میں طوفان بادباراں ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے آیا
تو اس طوفان میں جہاں بیشمار درخت زمین بوس ہوگئے وہاں گھروں کی چھتیں اڑنے
اور حادثات کی وجہ سے 16انسان بھی لقمہ اجل بنے تھے۔اس طوفانی رات میں میرا
پیپل بھی جڑ سے اکھڑ گیا۔ اگلی صبح جب مجھے یہ خبر ملی تو میں بجھے دل سے
جب وہاں پہنچا تووہ پیپل مجھے زمین بوس نظر آیا ،ہوا کے دوش اس کے پتے یوں
حرکت کررہے تھے جیسے وہ مجھے دیکھ کر آہ زاری کررہے ہوں ۔ بہت دنوں تک میں
اس درخت کی وجہ سے سوگوار رہا ۔
ریلوے کوارٹر تو آج بھی کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں لیکن ان کوارٹروں
میں رہنے والے لوگ پہلے جیسے نہیں رہے۔ نہ وہ پہلے جیسی محبتیں ہی رہیں ۔جب
چھوٹے بڑے سب بہن بھائیوں کی طرح زندگی گزارہ کرتے تھے ۔وہ ریلوے کوارٹر
بھی جن میں‘ میں نے اپنا بچپن گزارا‘ جوانی کے مزے لوٹے وہ نہ صرف ویران
دکھائی دیتے ہیں بلکہ کھنڈرات کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔لیکن وہ مسجد جس
میں ،میں اذانیں دیا کرتا تھا اور نمازیں پڑھا کرتا تھا وہ حافظ افتخار
احمد کی کاوشوں کی بدولت پہلے سے بہت اچھی حالت میں آج بھی موجود ہے ۔جہاں
اب بھی کبھی کبھار میں نماز پڑھنے چلا جاتا ہوں ۔
اگر ماں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میں عارف والا کا ذکر نہ کیا جائے، تو
زیادتی ہو گی۔ جب سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں پڑتیں تو چند ہفتوں کے لئے ماں
ہمیں لے کر عارف والا اپنے میکے چلی جاتیں‘ایک چھوٹے سے ٹرنک میں ماں اپنے
اور ہمارے کپڑے تہہ کر کے رکھ لیتیں۔ چمڑے کے بکسوں کا ان دنوں رواج نہیں
تھا ۔اگر بازار میں وہ بکتے بھی تھے تو ان کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ ہم
جیسے غریب لوگ انہیں خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔بہرکیف اس مقصد کے لیے
ٹین کنستر /ٹرنک کا استعمال ہی کیا جاتا ۔ سڑک کے ذریعے سفر کو پرانے زمانے
کے لوگ غیرمحفوظ اور غیرآرام دہ تصور کرتے تھے ۔اگر ہم بذریعہ بس جانا بھی
چاہتے تو کئی بسیں بدلنی پڑتی تھیں۔ یہی امر ہمارے لئے اذیت کا باعث بنتا
۔بذریعہ ٹرین سفر کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کہ والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے
، ان کو سال میں تین پکے پاس اور چھ کے لگ بھگ PTO پاس ملتے تھے۔ پکے پاس
پر سارا خاندان کراچی سے پشاور تک بالکل فری سفر کر سکتا تھا جبکہ PTOپر
یہی سہولت نصف کرایہ پر میسر تھی۔ کئی ریلوے ملازمین ایس ٹی اور گارڈ کو
کہہ کرفیملی کو مفت سفر بھی کروا لیتے تھے لیکن میرے والد ہر کام میرٹ پر
کرنا چاہتے تھے۔
اس وقت عارف والا جانے کے لئے دو ٹرینیں چلتی تھیں۔ ایک صبح پانچ بجے چلتی
تھی اور دوپہر دو بجے عارف والا پہنچتی تھی جبکہ دوسری ٹرین 9:00بجے صبح
روانہ ہوتی اور وہ شام چھ بجے عارف والا پہنچتی۔ یہ پیسنجر ٹرینیں کہلاتی
تھیں جو ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکتی تھی۔سر پر ٹرنک رکھے ہم اپنی ماں کے
ساتھ ساتھ اس شوق میں دوڑے چلے جاتے کہ نانی کے گھر جلد سے جلد پہنچ جائیں۔
نانی کے گھر جانے کا اس لئے شوق تھا کہ نانی ہم سب کو بہت پیار کرتی تھیں۔
وہ عارف والہ کے غریب محلے کی گلی نمبر2کے مکان نمبر2میں اپنے خاندان کے
ہمراہ رہتی تھیں۔ یہ گھر تین کمروں پر مشتمل تھا اس میں میرے بہت ہی پیارے
دو ماموں بھی رہائش پذیر تھے۔ میری ممانیاں گلزار بیگم اور ثریا بیگم بھی
ہم پر جان وارتی تھیں۔ دوسری گاڑیوں کی نسبت عارف والہ جانے والی گاڑی ہمیں
اتنی اچھی لگتی کہ اس کا ذکربیان سے باہر ہے۔ پلیٹ فارم پر پہنچ کر ہم بار
بار اس جانب دیکھتے جس طرف سے گاڑی نے آنا ہوتا اور جب گاڑی نظر آ جاتی تو
دل میں ایک ہلچل سی مچ جاتی۔ ٹرین پر سوار تو ہم ہو ہی جاتے لیکن بہت کم
ہمیں بیٹھنے کے لئے نشستیں ملتیں۔ عموماً فرش پر بیٹھ کر ہی سفر کرنا پڑتا
اگر کھڑکی کی طرف سیٹ خالی مل جاتی تو اسے ہم بڑی خوش قسمتی تصور کرتے۔
درختوں کی قطاریں مخالف سمت گھومتی نظر آتیں۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بجلی
اور ٹیلی فون کے کھمبے گننے کا سلسلہ جاری رہتا۔پھر ایک ایک اسٹیشن گننے کا
جنون بھی ہم پر طاری تھا۔ ماں جی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے گڑ کی ڈھیر
ساری میٹھی روٹیاں پکا کر اپنے ساتھ باندھ لیتیں۔ پینے کا پانی محفوظ کرنے
کے لئے مٹی کی بنی ہوئی صراحی خریدلی جاتی۔ دو چار اسٹیشن گزرنے کے بعد
ہمیں بھوک لگ جاتی اور جی بھر کے میٹھی روٹیاں کھاتے لیکن جب ریلوے اسٹیشن
پر گرما گرم پکوڑے اور ٹھنڈے شربت کی آوازیں آتیں تو ایک بار پھر ہمارا دل
للچانے لگتا۔ پکوڑوں کی فرمائش کرنے پر کئی مرتبہ ماں سے ڈانٹ بھی پڑتی
لیکن زیادہ ضد کرنے پر پکوڑے مل بھی جاتے۔ پھر صبر آزما سفر کے بعد عارف
والا کا اسٹیشن آتا تو ہماری خوشی کی انتہا نہ ہوتی۔ عارف والا کی ہر چیز‘
ہر عمارت ہماری آنکھوں کو بھاتی۔ ماں کے ساتھ ساتھ سامان اٹھائے ہم چل رہے
ہوتے۔ ایک مرتبہ گاڑی اتنی لیٹ ہو گئی کہ عارف والہ پہنچتے پہنچتے رات کے
گیارہ بج گئے۔ اندھیرے میں سر پر سامان اٹھائے جب ماں جی کے ساتھ ہم نانی
کے گھر کی طرف پیدل ہی جا رہے تھے تو گلی کے خوفناک کتوں نے ہمیں ڈاکو سمجھ
کے للکارا۔ سر پر چونکہ میرے بھاری ٹرنک تھا اس لئے جان بچانے کے لئے بھاگ
بھی نہ سکتا تھا اگر بھاگ بھی جاتا تو شٹل کاک میں لپٹی ہوئی ماں جی کا
تحفظ کون کرتا۔ چنانچہ ہمت کر کے چند پتھر ان بھونکتے کتوں کو مار کر
بھگایا اور خود ڈرتے ڈرتے دوسری گلی کے ذریعے نانی کے گھر پہنچے جونہی نانی
کے گھر ہماری آمد کی اطلاع پہنچی ،سارا گھر نیند سے بیدار ہو گیا۔ سارا دن
سفر کی وجہ سے ہم بھوک سے نڈھال ہو چکے تھے۔ رات کے اس پہر ہمارے کھانے کا
اہتمام ہونے لگا۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جس کمرے میں نانی اور نانا سوتے تھے وہ کمرہ کچا
تھا۔ مٹی کی موٹی موٹی دیواروں کے اندر سردی کم لگتی تھی جبکہ اس کمرے میں
ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی تھی جو سردیوں میں اکثر بند ہی رہتی تھی۔ اس بند
کھڑکی میں سرسوں کے تیل کی بوتل‘ سرمے دانی‘ شیشہ اور کنگھا پڑا ہوتا۔
دوسرے لفظوں میں بند کھڑکی کا یہ حصہ سنگھار میز کا کام دیتا تھا۔ اس کمرے
میں بالخصوص ہم جیسے مہمانوں کے لئے چارپائیاں اوپر نیچے بچھی ہوتیں۔
کیونکہ میری ایک خالہ کہروڑ پکا میں بھی رہتی تھی ، جب کبھی وہ میکے آتی تو
ان کے بچے اور وہ اس کچے کمرے میں بچھی ہوئی اوپر نیچے چارپائیوں پر سوتے
۔جبکہ میری دو خالائیں خورشید بیگم اور اقبال بیگم ، عارف والا میں ہی
رہائش پذیر تھیں ۔
بہرحال اوپر والی چارپائی ماں کو مل جاتی جبکہ نیچے والی چارپائیاں حسب
مراتب ہم بھائیوں کو ملتیں۔ نانی کے کمرے میں گھر کے سب افراد میری ماں کو
گھیر کر بیٹھ جاتے اور ہم اپنی ماں کی عزت افزائی دیکھ کر دل ہی دل میں خوش
ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ نانی کی زندگی میں تو تمام لوگ ماں کو بے حد پیار
کرتے تھے ،بعد میں بھی انہوں نے محبت کا حق اداکیا۔ اگلی صبح چائے کے ساتھ
رس کھلائے جاتے۔ دو چار رس نہیں بلکہ رسوں کی بھری ہوئی چنگیر ہمارے سامنے
ہوتی۔ ہم جی بھر کے کھاتے پھر دوپہر کے لئے کھانے کا اہتمام کیا جاتا۔ میری
نانی لکڑی کے بنے ہوئے تخت پوش پر بیٹھ جاتیں اور ہم اپنی شرارتوں میں
مشغول ہو جاتے۔ چونکہ ہم اس گھر میں مہمان ہوتے اس لئے کوئی بھی روکنے یا
ٹوکنے کی کوشش نہ کرتا۔
نانی کا گھر تقریباً ساڑھے چار مرلے کا تھا‘ ایک کمرہ پختہ اینٹوں کاجبکہ
دوسرا مٹی کا گھروندہ تھا۔پکا کمرہ ماموں طفیل کے زیر استعمال تھا۔اس کمرے
کے ساتھ ہی کھانا پکانے والا چبوترہ تھا‘جس میں سوکھی لکڑیاں ہروقت موجود
ہوتیں۔ اس کے ساتھ ہی ہینڈ پمپ نصب تھا جس کے ساتھ چار پانچ فٹ کشادہ پکی
اینٹوں کا غسل خانہ تھا۔غسل خانے کے پیچھے گھرمیں داخل ہونے کا مین راستہ
تھا۔اس راستے کے ساتھ ایک بیٹھک نما کمرہ تھاجس میں صرف چند کرسیاں اور میز
رکھے ہوتے ۔ہم بچوں کو وہاں داخلے کی اجازت نہ تھی جب ماموں طفیل وہاں اپنے
دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے تو میں بھی بہانے سے داخل ہو جاتا۔ماموں طفیل اس
کا برانہ مناتے۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے پاس جو بھی لوگ بیٹھے
ہوتے انہیں مخاطب کر کے کہتے یہ میری لاہور والی بہن کابیٹا ہے۔ماں باپ اور
نانی کے بعد میں جن رشتوں کو دل سے پیار کرتا تھا‘ دونوں ماموں ان میں شامل
تھے۔یہی ماموں ہمیں اپنے پاس روکنے کی خاطر طرح طرح کے کھانے پکواتے۔مجھے
رو کی کھیر بہت پسند تھی۔ دس پندرہ کلودودھ لاکر اس کی کھیر پکائی جاتی کہ
میں اس لالچ میں آ کر چندروز اورعارف والا میں رک جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ
ساری محبتیں اور چاہتیں میری نانی اور ماں کی وجہ سے تھیں۔
پھر جب یکے بعددیگرے میری نانی (فاطمہ) اور نانا (سردار خان) کا انتقال ہو
گیا تو ننھیال کا سارا گھرتنکوں کی طرح بکھرگیا۔ نانی کے گھر کو فروخت کر
دیا گیا اورمیرے ماموں ان پیسوں سے کاروبار کرنے لگے۔جب ٹرانسپورٹ کے
کاروبار میں خسارہ ہوا تو ماموں طفیل اپنے سسرالِ ملتان روانہ ہو گئے جبکہ
دوسرے ماموں ہدایت خاں غربت کی چکی میں پسنے کے لئے لاہور ایک بار پھر عارف
والا واپس چلے گئے۔پھر یکے بعد دیگرے دونوں ماموں بھی اس دنیا سے رخصت
ہوگئے ۔ تینوں خالائیں بھی باری باری اگلے جہان سدھار گئیں ۔
میری زندگی میں 10جون 2007ء کادن اس لیے منحوس ہے کہ اس منحوس دن میری عظیم
ماں (ہدایت بیگم ) دنیا فانی سے جسمانی طور پر رخصت ہوئیں ۔ان کی وفات پر
لکھی ہوئی الگ کہانی میری کتاب "محبت " میں شامل ہے ،اگر زندگی نے وفا کی
تو ماں جی کی وفات کے حوالے سے واقعات کو ایک الگ آرٹیکل کی شکل میں قارئین
کی نذر کروں گا ۔ ان شاء اﷲ۔
|