میں ستائشی نظروں سے حاجی صاحب کو دیکھ رہا تھا حاجی صاحب
کے منہ سے نکلنے والے فقرے سے میرے من کی اداس کلی کھل رہی تھی خوشگوار
حیرت میری رگوں میں دوڑ کر میرے باطن کے نہاں خانوں کو سر شاری کو سوغات
عطا کر رہی تھی ۔ حاجی صاحب نے باقی مسلمانوں کی طرح ماہ رمضان میں خوب
عبادت اور سخاوت کی تھی رمضان کے جانے کے بعد حاجی صاحب اداس تھے بولے
پروفیسر صاحب اِس بار رمضان میں جو سخاوت کی اُس کے نشے نے مجھے دائمی خوشی
عطا کی ہے رمضان کے جانے کے بعد میں اداس ہو ں کہ میں زندگی کی ستر بہاریں
دیکھ کر بڑھاپے کی دہلیز پر پڑا موت کا انتظار کر رہا ہوں جسمانی نظام بھی
بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اب رخصت کا وقت آچکا ہے مجھے ڈر ہے کہ پتہ
نہیں اگلا رمضان نصیب بھی ہو تا ہے کہ نہیں اِس لیے میں اداس سا ہو کر آپ
سے ملنے چلا آیا آج زندگی میں پہلی بار حاجی صاحب موت کو یاد کر رہے تھے وہ
اِیسی گفتگو بلکل بھی نہیں کرتے تھے یہ تو بڑھاپے کے باوجود زندگی کے رنگوں
سے بھرپور تھے اب یہ ستر سال سے اوپر کے ہو چکے تھے جبکہ میرے پاس دس سال
پہلے آئے تو اُس وقت بھی زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکے تھے پہلی بار جب
آئے تو اپنے بیمار بیٹے کو لے کر میرے پاس آئے جو نشے کی لت میں گرفتار تھا
حاجی صاحب نے بہت سمجھایا ڈانٹا لڑائی جھگڑا سختی بھی کی لیکن وہ نشہ
چھوڑنے پر راضی نہ ہوا آخر کار تنگ آکر ڈاکٹروں حکیموں کے پاس جانا شروع کر
دیا جب وہاں سے شفا نہ ملی تو گھومتے گھماتے میرے پاس آگیا میں نے حوصلہ
دیا تو میرے پاس آنا شروع ہو گئے میرے مشورے پر بیٹے کو تین ماہ کے لیے نشہ
سے نجات کی علاج گاہ میں داخل کر دیا وہاں سے تین ماہ بعد بیٹا بلکل تندرست
ہو کر نکلا ‘ ساتھ میں نے بیٹے کو ذکر اذکار پر بھی لگا دیا حاجی صاحب کو
مشورہ دیا اس کی شادی کر دیں شادی کے بعد بیٹا بیگم کی اداؤں میں اس قدر
مست ہوا کہ سارے نشے بھول بھول کر نارمل زندگی گزارنے لگا اِس طرح حاجی
صاحب اور میرے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہو گئے حاجی صاحب کے تین بیٹے
دو بیٹیاں تھیں اب میرا تعارف حاجی صاحب کے خاندان سے بھی ہو گیا حاجی صاحب
بہت ساری زرعی زمینوں کے علاوہ ایک فلور مل برف خانے اور گودام کے مالک تھے
اس طرح حاجی صاحب اچھا خاصا کمالیتے تھے حاجی صاحب سے ملاقاتوں میں جو بات
میں نے خاص طور پر نوٹ کی وہ حاجی صاحب کی پھرتی چستی ہے وہ ساٹھ سال کے
ہونے کے باوجود زندگی اور کاروباری زندگی کے معاملات میں جوانوں کی طرح حصہ
لیتے تھے کئی عمرے کر چکے تھے دو حج کر نے کے بعد حاجی صاحب کہلانے لگے تو
اب معاشرے پر رعب جمانے کے لیے اپنی زمینوں میں گھر کے پاس چھوٹی سی مسجد
بنا ڈالی اب حج کرنے اور مسجد بنانے کے بعد دنیا کے خوف سے نماز بھی پڑھنی
شروع کر دی لیکن یہ نماز لوگوں کو دکھانے کے لیے پڑھتے تھے نماز کے اثرات
باطن میں نہیں اترے تھے نہ ہی نماز خدائے لازوال سے رابطے کا سبب بنی تھی
حاجی صاحب فطری طور پر تھوڑے سخت مزاج اورضدی بھی تھے زندگی میں جو ٹھان لی
وہ کیا ضدی مزاج کے ساتھ خود ستائشی اور کنجوس بھی تھے ساری زندگی دولت
کمانے اور جائدادیں بنانے پر لگا دی بیٹوں کو ایک حد تک خرچہ دیتے باقی جمع
کر کے جائداد بنا لیتے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو نے کے باوجود بھی ان کے
مزاج کی سختی نرمی میں ڈھلی نہ ہی کنجوسی سے سخاوت میں آئے جہاں بہت مجبوری
ہوتی وہاں پر خرچ کرتے ورنہ پیسے کو ہوا تک نہ لگنے دیتے بیٹے کی شفا کے
بعد حاجی صاحب کی مُجھ سے دوستی ہو گئی تھی اب یہ سال میں تین چار چکر میرے
پاس ضرور لگاتے ایک دن مجھے کہنے لگے میں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا راز آپ
سے شیئر کر نا ہے وہ یہ کہ میں ایک انجانے خوف اور بے خوابی کا شکار ہوں
میرے پاس اﷲ کی دی ہوئی تمام نعمتیں ہیں لمبی چوڑی جائداد اور بنک بیلنس ہو
نے کی وجہ سے میں ضروریات زندگی کی تمام آسائشیں خرید سکتا ہوں جو چاہوں
میں کر تا ہوں اتنا کچھ بنا لیا ہے کہ میرے بڑھاپے کے علاوہ میرے بیٹوں کی
زندگی میں کامیاب پر آسائش گزرے گی لیکن میرا خوف آنے والے وقت کے اندیشے
ختم ہی نہیں ہوتے رات کو ساری رات بستر پر کروٹیں لیتا ہوں نیند کی دیوی
میری آنکھوں سے دور رہتی ہے مجبور ہو کر خواب آور گولی کھاکر نیند آتی ہے
اپنے انجانے خوف کے لیے میں نے بہت سارے نشے بھی کئے لیکن وقتی آرام کے بعد
پھر خوف پکڑ لیتا آپ میرے خوف کا کوئی علاج کریں تو میں نے حاجی صاحب کو
ذکر اذکار بتا دئیے جن کے کر نے سے حاجی صاحب کو تھوڑا فرق پڑا ضرور لیکن
مکمل شفا نصیب نہ ہوئی وقت گزرتا رہا حاجی صاحب تواتر سے میرے پاس آتے رہے
سالوں گزر گئے پھر ایک سال پہلے کرونا کی وبا آگئی تو حاجی صاحب جو پہلے ہی
خوف کا شکار تھے انہوں نے خود کو صرف گھر میں قید کر لیا احتیاط کے باوجود
رمضان سے پہلے حاجی صاحب کو کرونا ہو گیا بیٹے کو ہوا تو اُس سے اِن کو ہو
گیا اب گھر والوں نے حاجی صاحب کو گھر کی تیسر ی منزل پر کمرے میں بند کر
دیا صبح شام کھانا لا کر رکھ دیتے حاجی صاحب نے اپنے بیٹوں سے ملنے کا کہا
تو پتہ چلا وہ تو کرونا کے خوف سے گھر چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے
ہیں صرف بیٹیاں اور بیگم گھر پر ہیں جو صبح شام کھانا دے جاتی ہیں بیٹوں کا
گھر سے بھاگ جانا حاجی صاحب کے دل پر چوٹ پڑی کرونا سے لڑائی بخار کھانسی
ایک ماہ بعد بڑی مشکلوں سے تندرست ہو کر میرے پاس آئے تو بولے جن بیٹوں کے
لیے ساری زندگی دولت کمائی وہ مرتا چھوڑ کر بھاگ گئے اب جس اﷲ نے شفا دی
اُس کے لیے جینا چاہتا ہوں تو میں نے کہا کرونامیں لوگوں کو راشن دیں یہ
عمل انہوں نے رمضان میں بھی جاری رکھا آج میرے پاس آئے تو بولے پروفیسر
صاحب میں ساری زندگی خوف کا شکار رہا جب سخاوت کی تو سارے خوف دور ہو گئے
اب میں گہری میٹھی نیند سوتا ہوں تو میں نے کہا جناب اِس عمل کو جاری رکھیں
پھر حاجی صاحب وعدہ کر کے شکر ادا کر کے چلے گئے تو میں سوچنے لگا جو انسان
ضرورت مندوں کی زندگیوں میں خوشی کے چراغ روشن کرتا ہے اُس کی زندگی میں
خوف اندھیرے کس طرح رہ سکتے ہیں سخاوت کا نشہ سب سے اچھا نشہ ہے ۔
|