سعید جاوید کا شمار پاکستان کے ممتاز لکھاریوں میں
ہوتا ہے ، پیشے کے اعتبار سے وہ ایک بنکار ہیں ۔ان کی پہلی کتاب "اچھی گزر
گئی " تھی ۔جوان کی سوانح عمری ہے ،جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے اہم
واقعات کو نہایت خوبصورت پیرائے میں کچھ اس طرح پرویا کہ وہ کتاب، پاکستان
کی معروف سوانح عمریوں میں شمار کی جانے لگی ۔ بنیادی طورپر ان کا تعلق ایک
کاشتکار گھرانے سے ہے ، لیکن ان کے والد، سابق صدر محمد ایوب خان کے اے ڈی
سی تھے۔کراچی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیکجز لمیٹڈ اور بعد میں
منیجر کی حیثیت سے حبیب بنک لمیٹڈ کو جوائن کیا کچھ عرصے بعد آپ سعودی عرب
چلے گئے جہاں پچیس سال تک سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک عظیم طبی
مرکز "کنگ فیصل سپیشلسٹ ہسپتال "کے اکاؤنٹس اور ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ
انچارج کے فرائض انجام دیتے رہے ۔وطن کی یاد نے بیقرار کیا تو وہ لوٹ آئے ،
اس بار انہوں نے کراچی کی بجائے لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔سعید جاوید کی
دوسری کتاب "مصریات "کے نام سے شائع ہو ئی ۔جن کے بارے میں پروفیسر محمد
حنیف شاہد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مصریات ایک مختصر مگر بڑا ہی جامع سفرنامہ
ہے ۔سفرنامہ کیا قدیم اور جدید مصر کی عمومی تاریخ ہے۔خاص طور پر کچھ اہم
فرعونوں ،ان کی ملکاؤں ،ان کے انداز حکومت اور اس وقت کے معاشرتی حالات پر
ایک ایسی دستاویز ہے ، جسے کسی دقیق اور پیچیدہ تاریخی حوالوں میں پڑے بغیر
انتہائی سادگی سے تحریر کیاگیا ہے۔کتاب کا سحر قاری کو شروع سے ہی اپنی
گرفت میں لے لیتا ہے اور قاری سانس تک لینا بھول جاتا ہے اور پڑھتا ہی
چلاجاتا ہے۔ سعید جاوید کی تیسری ضخیم کتاب "ایسا تھا میرا کراچی" ہے ، یوں
تو اس کتاب میں بیشمار واقعات ایسے ہیں جن پربات کی جا سکتی ہے لیکن میں ان
کی اس کتاب میں سے صرف ایک واقعہ یہاں درج کرنا چاہتاہوں جو تاریخ کا منفرد
واقعہ ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔ یہ 1961ء کا واقعہ ہے کہ ایک بڑی بڑی مونچھوں والے
ساربان( جس کا نام بشیر ساربان تھا) ، جب اس کی قسمت جاگی تو وہ اپنی اونٹ
گاڑی کو اس سڑک پر نکال لے آیا، جہاں سے اس وقت امریکہ کے نائب صدر لنڈن بی
جانسن کی سواری کو گزرنا تھا ۔حسب روایت اس سڑک کی ٹریفک کو ایک طرف کرکے
رک دیا گیا تھاتاکہ صدر پاکستان اور ان کے مہمان کی شاہی سواری وہاں سے
بغیر کسی رکاوٹ کے گزرسکے۔پھر ایک ایسا معجزہ رونما ہوا کہ دنیا دانتوں تلے
انگلی داب کے بیٹھ گئی ۔جانسن کی نظر سڑک کے کنارے کھڑی اونٹ گاڑی پر پڑی
تو ان کو یہ چیز اتنی اچھی لگی کہ وہ موقع پر ہی اپنی موٹرگاڑی کو رکوا کر
نیچے اتر آئے اور سیدھے بشیر ساربان کی طرف بڑھے ۔یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا
کہ پولیس اورانتظامیہ بھی کچھ نہ کرسکی ۔ویسے بھی ان دنوں سیکورٹی معاملات
کے اتنے مسائل نہیں ہوا کرتے تھے ۔جانسن نے بڑی گرم جوشی سے بشیر ساربان سے
ہاتھ ملایا ،پھر چاروں طرف گھوم کر اس کی اونٹ گاڑی کو غور سے دیکھا ۔بشیر
ساربان کے ساتھ تصاویربنوائیں اور جاتے جاتے اس کو امریکہ آنے کی دعوت بھی
دے دی اوریہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ میں وہ ان کے ذاتی مہمان ہونگے ۔جب یہ
ناقابل یقین واقعہ وقوع پذیر ہورہاتھا تو بشیر ساربان کو کچھ سمجھ نہیں
آرہی تھی کہ گوری رنگت والا یہ بڑا آدمی اسے کیا کہہ رہا ہے۔ جب ایک ترجمان
نے اسے نائب صدر امریکہ اور اس کی دعوت کے بارے میں بتایا تو اس نے اپنی
رضامندی ظاہر کردی۔جانسن واپس امریکہ چلے گئے لیکن جانے سے پہلے ان کے سٹاف
کی طرف سے امریکن سفارت خانے کو ضروری ہدایات بھجوا دی گئیں ۔ پھر جلد ہی
اس کا ویزہ وغیرہ جاری ہوگیا ۔بشیر ساربان کے لیے نئے کپڑے اور شیروانی
سلوائی گئی او رپھر ایک دن سیاہ شیروانی اور سفید شلوار میں ملبوس وہ
امریکہ روانہ ہوگیا۔ اسے نائب صدرامریکہ کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے
ایئرپورٹ پر وصول کرکے ان کے ذاتی فارم ہاوس پر پہنچا دیا گیا ۔وہاں پہنچنے
پر امریکی نائب صدرنے خود ان کا استقبال کیا اور نہ صرف ان کو اپنے گھوڑوں
کا فارم دکھایا بلکہ اپنی میلوں میں پھیلی ہوئی زرعی زمین کی سیر بھی
کروائی ۔دو تین دن وہاں قیام کے بعد جانسن اسے واشنگٹن ڈی سی لے آئے اور
امریکہ کے اس وقت کے صدر کینیڈی اور سابق صدر ہیری ٹرومین سے ملوایا۔اس کے
اعزاز میں شاندار دعوت دی گئی ۔اس دوران امریکہ کا عظیم صدر ہیری ٹرومین اس
ساربان کو "ہزایکسی لینسی"کہہ کر پکارتا رہا ۔ اس کے اعزاز میں دعوتیں دی
گئیں اور وہاں بڑے دلچسپ واقعات اور مسائل درپیش آئے کیونکہ موصوف چھری
کانٹے سے تو کھا نہیں سکتا تھا ،ہاتھ سے ہی کھاتا رہا ان کے دیکھا دیکھی
کئی بار حاضرین محفل کو بھی ہاتھ سے ہی کھانا پڑاتا کہ مہمان خفت نہ محسوس
کرے ۔ایک ہفتے کے قیام کے بعد جب وہ پاکستان واپس آیا تو اس کو کئی بیش
قیمت تحائف کے ساتھ ایک ٹرک بھی تحفے میں دیا گیا ، جس کا بعدا زاں کراچی
میں بڑا چرچا ہوا۔سعید جاوید کی کتابوں میں ایسے دلچسپ بیشمار واقعات موجود
ہیں لیکن اختصار کی دجہ سے یہاں ایک ہی واقعے کا تذکرہ کیا جارہاہے۔
|