خیبرپختونخوا کے ڈمان اور ہندوستانی فنکاروں کے گھر



فن لینڈ کے لوگ بھی کتنے ظالم ہیں اتنی خوبصورت اور گوری وزیراعظم کے خلاف ہوگئے ہیں جو ان کی اپنی ہی وزیراعظم بھی ہے ان سے کیا غلطی ہوگئی ہے صرف ناشتے کی رقم سرکاری کھاتے میں ادا کی گئی ہیں جو انہوں نے اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ کیا ہے اور اس کی ادائیگی سرکاری اخراجات میں کی گئی یعنی تقریبا تین سو یورو جو کہ تین سو پینسٹھ ڈالر بنتے ہیں کی ادائیگی کی گئی -جس پر فن لینڈ کی بدقسمت پولیس بھی اس کی تحقیقات پر تل گئی ہیں اپوزیشن جماعتیں بھی وزیراعظم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگئی ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے پیسوں پر ناشتہ کرنا غلط اقدام ہے اور اس بارے میں قانون سازی بھی کی جائیگی .یہ ایک خبر ہے اور ایک کافر ملک کی انتظامیہ کا یہ حال ہے - خیر جانے دیں کافر لوگ ہیں انہیں کیا پتہ. ان لوگوں نے کبھی غریب لوگوں کا خون چوسنے کی ہمت ہی نہیں کی . بدقسمت لوگ... چھوڑیں جی..
ماشا ء اللہ مسلمان ملک کی خبر ہے کم و بیش تین کروڑ روپے کی لاگت سے پشاور میں دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کو خرید لیا گیا ہے اور یہ رقم بھی ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی جیبوں سے نکالی گئی ہیں-راج کپور اور دلیپ کمار اتنے بڑے فنکار ہیں کہ سرکاری محکمہ اب اس گھروں کے آس پاس پولیس بھی تعینات کریگی اور امکان ہے کہ اگلے چند ماہ میں دونوں فنکاروں کے گھروں میں وہ مقامات بھی مقامات مقدسہ میں شمار ہونگے جہاں پر ان دونوں نے بچپن میں پوٹیاں کی ہونگی . جہاں پر ان فنکاروں نے بہت کچھ کیا ہوگا.جس کیلئے اس مسلمان ملک کے ٹیکس گزاروں کی رقم مزید خرچ ہوگی. پھر یہاں پر پارٹیاں ہونگی اور دوسرے ممالک سے لوگ آئیں گے تصاویر بنیں گی اور ہم بڑے فخر سے اخبارات میں یہ بیان دینگے کہ "پھٹے آن" بڑی مہمان نواز قوم ہے انہوں نے ان فنکاروں کی بھی عزت کی جنہوں نے "فنکاری"کی خاطر اس ملک کو چھوڑا ' صرف ان کی باقیات اور پوٹی والی جگہ پر دکانداری اور سرکاری مال کو کھانے کیلئے جائز بنانے کیلئے بہت ساری کام ہونگے. اور یہ یہ سب کچھ مسلمان ملک کے ٹیکس گزاروں کا پیسہ ہوگا..
اسی پشاور سے وابستہ کم و بیش سینکڑوں فنکار جو کہ ٹی وی ' ریڈیو اور سٹیج سے وابستہ ہیں جودلیپ کمار اور راج کپور کی طرح فنکار ہیں . معذرت خواہ ہوں فنکار نہیں "ڈم"ہیں کیونکہ اگر نام ہندوانہ ہو اور ملک سے باہر ہوں تو پھر فنکار ہوتے ہیں اور اگر صوبے کے اندر ہو تو وہ "ڈم"کہلائے جاتے ہیں ان لوگوں کا حال کسی کو پتہ ہی نہیں ' ان کے گھروں کی دال روٹی کیسی چل رہی ہیں ' کیا مقامی فنکار سانپ کی نسل سے ہیں کیا ان کے پیٹ مٹی سے بھرتے ہیں یہ وہ سوالات ہیں جس کے بارے میں کسی کو سوچنے کی ہمت ہی نہیں.اس مٹی سے نکلنے والے کتنے گلوکار ' فنکار ' موسیقار ' معذرت خواہ ہوں "ڈم" یہاں پر مر کھپ گئے لیکن ان کا حال کسی نے نہیں پوچھا کیوں .. اس لئے کہ وہ اپنے مٹی سے محبت کرنے والے ہیں اور اب بھی ایسے سینکڑوں پشتو ' اردو ' ہندکو زبان کے قومی او ر بین الاقوامی سطح کے فنکار اسی پشاور میں موجود ہیں لیکن مسلمان ملک کے مسلمان حکمرانوں کو ان "ڈمانو" کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں. نہ ا نکی امداد کی جاتی ہیں نہ ہی انہیں روزگار دیا جاتا ہے ' نہ ہی وظیفہ ملتا ہے ہاں انہیں اپنے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے " لارا لپہ لائی ہے خداہی ملتا ہے"اور یہ غریب بہتر دنوں کی آس میں خوار ہوتے ہیں..
کیا کرونا کی اس لہر میں کسی نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے فنکاروں معذرت خواہ ہوں "ڈمانو" کا کسی نے پوچھا کہ ان کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں یا نہیں ان کی کوئی ضرورت ہے بھی نہیں .. کیا دو ہندوستانی "فنکاروں" کے گھروں کو کم و بیش تین کروڑ سے خرید نے کے بجائے اپنے صوبہ خیبر پختونخواہ کے فنکاروں کے پیٹ بھرنا ضروری نہیں تھاان کیلئے وظیفہ ' روزگار یا کوئی اور سلسلہ شروع کرنا ضروری نہیں تھا..
یقینا نہیں کیونکہ ان فنکاروں سوری ڈمانو کے بھوکے پیٹوں سے زیادہ سرکاری اداروں میں بیٹھے ان افسران کے پیٹوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مسلمان ملک کے مسلمان ٹیکس گزاروں کے پیسوں کو اپنے اور اپنی عیاشی کیلئے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس کیلئے مستقل راستے نکالتے رہتے ہیں .
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422047 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More