کھلاڑی اور کلاس فور ملازمین ۔ صبر و برداشت کا مادہ کہاں پر گیا


خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھلاڑی اور کلا س فور ملازم کے مابین ہونیوالے تنازعے کی بازگشت تو شائد سرکار کے ایوانوں تک نہیں پہنچی ہوگی کیونکہ لمبی ائیر کنڈیشنر گاڑیوں اوربنگلوں میں رہنے والے لوگوں کو صرف اپنے ہی کلاس کے لوگوں کی فکر ہوتی ہیں . بقول ایک رکشہ ڈرائیور ٹائپ شاعر کے"جنہوں نے عمر بھر کبھی رونا ہی نہیں کیا ہو انہیں دوسروں کی رونے کی کیا فکر ہوسکتی ہیں" یہ شعر بیشتر پشاور شہر میں پھرنے والے رکشوں پر لکھا ہوتا ہے - تین پہیوں پر چلنے والے اس گاڑی کے ڈرائیور کیا خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں.
چند دن قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں بیڈمنٹن کے ایک کھلاڑی کو جو اپنی گاڑی پاکستا ن سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر میں واقع جمنازیم لے جانا چاہتے تھے کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں سیکورٹی پر تعینات کلاس فور ملازم نے گاڑی لے جانے سے روک دیا ' جس پر توتو میں میں کی صورتحال کے بعد ویڈیو بنانے کی کوشش میں کلاس فور ملازم کی پٹائی ہوگئی ' بعد ازاں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین نے احتجاجا کام بند کیا اور دوبارہ کھلاڑی کو مار پڑ گئی ..پھر قیوم سپورٹس کمپلیکس میں پریکٹس کیلئے آنیوالے بیڈمنٹن ' اتھلیٹکس کے کھلاڑی بھی احتجاج میں شامل ہوگئے . دونوں طرف سے ایک دوسرے گروپ پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ' ہر کوئی دوسرے کو قصو ر وار ٹھہراتا رہا - کھلاڑیوں کا یہ موقف ہے کہ وہ ملک و قوم کی نمائندگی کرنے والے ہیں اس لئے انہیں فری ہینڈ دیا جائے ' ساتھ میں کلاس فور کی کیا مجال کہ ان سے کوئی پوچھ سکیں. بقول ان کھلاڑیوں کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی روزی روٹی بھی انہی کھلاڑیوں کی بل بوتے پر چلتی ہیں. دوسری طرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کا یہ موقف ہے کہ کھلاڑیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ کلاس فور سمجھ کر ان کی بے عزتی کی جائے اور وہ سیکورٹی کی ڈیوٹی انکے فرائض میں شامل ہیں اس لئے وہ پوچھ گچھ کا حق رکھتے ہیں.
دونوں طرف سے خوب گرما گرمی رہی ' اتنی گرما گرمی رہی کہ ایک طرف سے مقامی تھانے میں روزنامچہ بھی کرایا گیا لیکن ابھی تک اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا دوسری طرف ایک روز قبل کھلاڑی اتنے گرم ہوگئے تھے کہ میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لے لیا. اور سوشل میڈیا پر بھی انہوں نے دل کی بھڑاس نکال دی.ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ نے معاملے کی سنگینی کے پیش نظر فوری طور پر ملازمین کے تبادلے کردئیے تاکہ صورتحا ل نارمل ہو ' ساتھ میں جس کھلاڑی کی وجہ سے اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اس پر دو ہفتے کیلئے پابندی عائد کردی گئی کہ صورتحال نارمل ہو.
کھلاڑی پر پابندی کے عمل کو بعض لوگ عناد کامسئلہ سمجھ رہے ہیں ' حالانکہ اس معاملے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے لوگ بھی ٹرانسفر کردئیے جو اس وقوعہ کے روز موجود بھی نہیں تھے جبکہ دوسری طرف کھلاڑیوں کا غم و غصہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جارہا ہے. حالانکہ اس معاملے میں اب دونوں طرف سے خاموشی ہی بہتر ہے. لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ..
آخر یہ واقعہ کیسے پیش آیا. کیا مستقبل میں اس کی روک تھام ہوسکے گی یہ وہ سوال ہیں جس کے بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی انتظامیہ کو سوچنے کی ضرورت ہے. پہلے دن پیش آنیوالے واقعے میں کھلاڑی پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور کی بلڈنگ میں واقع انڈور جمنازیم میں جانے کیلئے کھلاڑی نے کوشش کی جس پر یہ معاملہ پیش آیا . حالانکہ پشاور میں واقع پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر میں کھیلوں کی سرگرمیاں بند پڑی ہیں لیکن انڈور ہال کھلا ہے جہاں پر ویٹ لفٹنگ کی تریبت دی جاتی ہیںکیا انڈور ہال کیلئے کسی نے اجازت دی تھی . سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ پی ایس بی پشاور سنٹر میں تمام سرگرمیاں رمضان میں بند رہی لیکن اسی انڈورز جمنازیم میں سرگرمیاں جاری ہیں اور وہ بھی کرونا کے دنوں میں ' اس بارے میں نشاندہی کے باوجود نہ تو پاکستان سپورٹس بورڈ پشاور کی انتظامیہ نے آنکھیں کھولی اور نہ یہ ڈپٹی کمشنر پشاور کو ہوش آیا ' کہ انہوں نے پورے پشاور کے انڈور سرگرمیوں کو بند کئے رکھا لیکن پی ایس بی پشاور میں واقع جمنازیم ہال میں سرگرمیاں جاری رہی ' شائد ڈپٹی کمشنر پشاور کے" پر" یہاں پر جلتے ہو. اور وہ وفاق کے زیر انتظام اس ادارے کے خلاف کاروائی کرنے سے گریزاںہے اوروزیراعلی خیبر پختونخواہ کو یہاں پر چھاپہ مار کر خود صورتحال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی پڑ جائے.
اگر پی ایس بی پشاور میں واقع جمنازیم ہال بند ہوتا تو کھلاڑی اور کلاس فور ملازم کے مابین جھگڑے کی صورتحال پیدا نہ ہوتی .نہ ہی قیوم سپورٹس کمپلیکس میں نعر ے بازی ہوتی.
ویسے آپس کی بات ہے کہ قیوم سپورٹس کمپلیکس میں آنیوالے بعض ایسے ممبران بھی ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ سرکاری گاڑیوں میں آتے ہیں اوریہاں پر کم عمر بچے ڈرائیونگ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ' بعض کالے شیشے والی گاڑیوں میں کچھ لوگ اپنے آپ کو کھلاڑی ظاہر کرکے "کالے کرتوت"کرتے ہیں . ایسے میں اگر کھلاڑیوں سے پوچھ گچھ ہوتی ہیں تو انہیں برامنانے کی ضرورت بھی نہیں. کیونکہ پوچھ گچھ سے کسی کی شان میں کمی نہیں آتی . اور وہاں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو بھی "قانون" سب کیلئے یکساں لاگو کرنا چاہئیے. بعض کوچز اپنی کار پارکنگ کے بجائے اپنے متعلقہ کورٹس میں لاتے میں جس سے بعض اوقات صورتحال کشیدہ ہوجاتی ہیں.ایسے میں تمام لوگوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ اپنی گاڑیاں پارکنگ میں کھڑی کرینگے خواہ وہ انٹرنیشنل کھلاڑی ہو یا کوچ ' تاکہ احساس کمتری اور برتری والی صورتحال پیدا نہ ہو.
سنتے تھے کہ کھیل سے کھلاڑیوں میں برداشت اورصبر پیدا ہوتی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں سے پیدا شدہ صورتحال میں جو چیز سب سے کم دیکھنے کو ملی وہ صبر او ربرداشت ہیں جو نہ تو کلاس فور ملازمین میں دیکھنے کو ملی اور نہ ہی کھلاڑیوں میں ' حالانکہ برداشت اور صبر کھلاڑیوں میں ملازمین کی بہ نسبت زیادہ ہونی چاہئیے..
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497839 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More