تحریر۔ابو محمد حارث شاہ۔
ملک کے قومی میڈیا میں جاری خبروں کے مطابق آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی
لمیٹڈ نے ایکسپلوریٹری کنواں جندران ایکس4-، جندران ای۔ ایل بلاک بلوچستان
سے گیس کے ذخائر دریافت کر لئے ہیں۔یہاں پر او جی ڈی ڈی سی ایل بطور آپریٹر
سو فیصد حصص کی مالک ہے۔ جندران ایکس4- کنویں کی کھدائی اور ساخت کیلئے
مکمل طور او جی ڈی سی ایل کے ماہرین پرانحصارکیا گیا۔ کنویں کی کھدائی1200
میٹر تک کی گئی، یہاں سے 32/64 چوک کے ذریعے ابتدائی طو ر پر یومیہ 7.08
ملین مکعب اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ (ایم ایم ایس سی ایف ڈی) گیس کی پیداوار حاصل
ہو گی جبکہ اس ویل کا ہیڈ فلوئینگ دباو1300 پاونڈز فی مربع انچ (پی ایس
آئی) ہے۔ جندران ایکس4- کنویں کی دریافت او جی ڈی سی ایل کے ماہرین کی
شاندار منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے اس مشترکہ منصوبہ سے ملکی
ہائیڈروکاربن کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا اور ملک میں تیل اور گیس
کی طلب و رسد کے فرق کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی
تفصیل کے مطابق تیل اور گیس کے موجودہ بحران میں اہل وطن کے لئے ایک عظیم
خوش خبری ہے کہ بلوچستان میں گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں آئل اینڈ
گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل)کے ماہرین کی شاندار منصوبہ
بندی اور حکمت عملی کے نتیجے میں جندران۔4کے کنویں سے 1200میٹر تک کھدائی
کے بعد گیس برآمد ہوئی جس سے ملکی ہائیڈرو کاربن کے ذخائر میں خاطر خواہ
اضافہ ہو گا۔ یہاں سے ابتدائی طور پر یومیہ 7.08ملین مکعب کیوبک فٹ گیس
حاصل ہونے کی توقع ہے۔ اس سے ملک میں تیل اور گیس کی طلب اور رسد میں فرق
کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ او جی ڈی سی بطور آپریٹر نو دریافت کنویں
کے سو فیصد حصص کی مالک ہے اور اس کی کھدائی اور ساخت کیلئے مکمل طور پر
کمپنی کے ماہرین پر انحصار کیا گیا ہے ایسے وقت میں جب پاکستان تیل اور گیس
کی درآمد پر اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ کر رہا ہے، پھر بھی ملکی
ضروریات پوری نہیں ہوپا تیں اور مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، گیس کے نئے
ذخائر کی دریافت ایک اہم پیش رفت ہے۔ ماہرین کے مطابق بلوچستان میں اب تک
چالیس انتہائی قیمتی زیر زمین معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جو
محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ پچاس سے سو سال تک ملکی ضروریات کے لئے کافی
ہیں۔ ان میں تیل اور گیس کے علاوہ سونا، چاندی، تانبا، خام لوہا، کوئلہ،
یورینم اور اربوں ڈالر کی دوسری معدنیات بھی شامل ہیں۔ 1952ء سے گیس اور
کوئلے کی بھاری مقدار نکالی جا رہی ہے جس کا زیادہ تر فائدہ سرمایہ کار
کمپنیوں یا وفاقی حکومت کو ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے
قیمتی معدنی وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے میگا منصوبے شروع کئے جائیں اور
ان سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ صوبے کے عوام پر خرچ کیا جائے۔ اس سے
ملکی معیشت مضبوط ہو گی اور صوبے میں احساس محرومی ختم کرنے میں بھی مدد
ملے گی۔۔
ملک کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اس صوبے میں
اب تک بڑے بڑے معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور مختلف کمپنیاں صوبے کے
مختلف علاقوں میں یہ کام جاری رکھی ہوئے ہیں۔
2017 میں بھی بلوچستان کے تین اضلاع میں زیر زمین گیس کے بڑے ذخائر کو تلاش
کیا گیا تھا جسے اب بروئے کار لانے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جا رہے
ہیں۔مزید تفصیلات کے مطابق اس وقت بلوچستان کے اضلاع ’’خاران، ژوب، شیرانی،
کوہلو، بارکھان پشین‘‘ میں گیس کی تلاش کے حوالے سے کافی مثبت پیش رفت ہو
رہی ہے۔زرائع کے مطابق ضلع خاران اور کوہلو،بارکھان سے گیس کے زیر زمین
ذخائر کی تلاش کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے۔
''خاران میں بہت مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔تلاش کے بعد پی پی ایل کو بہت بڑے گیس
کے ذخائر ملے ہیں،امید کی جارہی ہے کہ خاران میں بھی بڑی کامیابی ہو گی،
کوہلو بارکھان میں بڑے ذخائر کی تصدیق ہوئی ہے ان ذخائر پر جلد کام شروع
کیے جانے کی توقع ہے۔
او جی ڈی سی ایل کے زرائع کا کہنا تھا کہ ضلع جھل مگسی میں زیر زمین گیس کے
ذخائر تلاش کرنے کے بعد اب وہاں گیس کو صاف کرنے کا پلانٹ لگا دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جیسے ہی سوئی سدرن کمپنی پائپ لائن بچھا لے گی، وہاں سے
گیس قومی پائپ لائن میں شامل ہو جائے گی جب کہ اس کے علاوہ ضلع لسبیلہ میں
بھی گیس کے ذخائر تلاش کیے جائیں گے۔
حکام کے مطابق ضلع پشین کے علاقے بوستان میں گیس زخائر کی تلاش کا کام مکمل
کر لیا گیا ہے، زرائع نے مزید بتایا کہا کہ صوبے کے جن علاقوں سے گیس نکالی
جا رہی ہے، سُپریم کورٹ کے حکم کے مطابق صوبے کے 26 اضلاع میں او جی ڈی سی
سماجی بہبود کے مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کر رہی ہے جس سے مقامی
لوگوں کو کافی فائدہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ قدرتی ذخائر کی تلاش کے لیے صوبائی حکومت
مختلف کمپنیوں سے معاہدے کرے گی۔
''ہمارے جتنے بھی معدنی ذرائع ہیں ہم اُن کی تلاش کریں گے اور کو شش کر
ینگے کہ اُس کے لیے بھی (کوشش کریں گے) کہ مختلف کمپنیوں یا ممالک کے ساتھ
مشتر کہ سرمایہ کاری کی جائے اور قدرتی وسائل کے ذخائر مزید تلاش کیے
جاسکیں، تو آمدنی میں اضافے کے بغیر صوبہ بلوچستان کے اخراجات کو پورا کرنے
کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے اس حوالے سے اسمبلی میں قانون سازی بھی کی
جائے گی''۔یاد رہے کہ بلوچستان میں 1952ء میں ضلع ڈیرہ بگٹی کے مختلف
علاقوں میں گیس کے زیر زمین ذخائر دریافت ہوئے تھے جہاں سے گیس نکالنے کے
لیے نوے سے زائد ٹیوب ویل لگائے گئے تھے۔
تاہم صوبے میں بدامنی کے واقعات کے بعد ان میں دو درجن سے زائد ٹیوب ویل کو
بارودی مواد اور دیسی ساختہ بم (ائی ای ڈی) تباہ کیا گیا اور گیس کو صاف
کرنے والے پلانٹ پر بھی کئی بار حملہ کیا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس کی بدولت جہاں
ملک کے بعض علاقوں میں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی وہیں بلوچستان کا
95 فیصد علاقے اب بھی اس سہولت سے محروم ہے۔
ناقدین کے بقول صوبے کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی مبینہ بدعنوانی اور
ناقص طرز حکمرانی کے باعث گیس کی اربوں کی آمدن اس پسماندہ صوبے کے عوام کا
معیار زندگی بلند کرنے کا باعث نہیں بن سکی، بلکہ قیمتی وسائل کے حامل صوبے
میں غربت کی شرح 74 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔تاہم اب اس بات کی امید کی جا
سکتی ہے کہ صوبے کے حالات بہتری کی طرف مائل ہوں گے
|