ملالہ کا بیان ، ٹورازم ڈیپارٹمنٹ اور لائسنس برانچ

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی مشہور ہونا ہے تو " پہ جماعت کے غل اوکڑی " یعنی علاقے کی مسجد میں اسے " پوٹی "کرنی چاہئے تاکہ پوٹی کرنے والے کو لوگ زیادہ جان سکیں. خیر یہ تو اس وقت کی بات ہے جب مساجد میں لاﺅڈ سپیکر نہیں ہوا کرتے تھے اب تو ماشاءاللہ. لاﺅڈ سپیکر بھی ہیں حالانکہ جس وقت کا یہ محاورہ ہے اس وقت لوگ گھروں میں پیشاب بھی نہیں کرتے بلکہ ایک انگوٹھے اور دو انگوٹھوں کیلئے علاقے سے باہر جایا کرتے تھے اور پھر خالی وضو کیلئے مسجد میں آیا کرتے تھے اب تو ماشاءمساجد میں ایک او ر دو کیلئے انگریزی اور انڈین کموڈ بھی بھی بن گئے ہیں مگر پھر بھی بعض لوگ " پوٹی "کئے بغیر نہیں رہتے. شائد پوٹی کرنا ان کا شیوہ ہے.یا پھر وہ اپنی فطرت سے مجبور ہیں.

آپ بھی یقینا سوچ رہے ہونگے کہ لکھنے والے کا پیٹ خراب ہے کہ مسلسل پوٹی کی باتیں لکھ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لکھنے والے کا دماغ " ہمارے ہاں پائے جانیوالے لبڑل" کی وجہ سے خراب ہوا ہے جو سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی جسے نامعلوم افراد نے سر پر چڑھا رکھا تھا بین الاقومی ادارے کے تعاون سے پاکستان کا نام بدنام کرکے چلی گئی اب تو دنیا بھر میں فنڈنگ تعلیم کے فروغ کیلئے اسے ہوتی ہیں لیکن اسکے اپنے علاقے میں جاری کردہ سکول کس حال میں ہے اور کتنی بچیوں کو تعلیم مل رہی ہیں اس بارے میں ہمارے ہاں کے " لبڑل"خاموش ہیں. سوات جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والے لڑکی نے ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو نہ تو پشتون روایات میں ہیں اور نہ ہی اسلام میں. لیکن اس نے چونکہ مشہور ہونا ہے اس لئے وہ پہلے بھی مسجد میں " پوٹی "کرکے بھاگ گئی تھی اور نامعلوم افراد اور موم بتی مافیا سمیت موم بتی آنٹیوں نے اسے سپورٹ کیا. اب وہی خاتون اپنے آپ کو ان کرنے کی خاطر ایسی باتیں کررہی ہیں-

اپنا جسم اپنی مرضی کرنے والے افراد سمیت ہمارے ہاں کے لبڑل اس لڑکی کو سپورٹ کررہے ہیں ، ا س کا دفاع سوشل میڈیا پر کیا جارہا ہے اور ایسے ایسے توجیحات پیش کی جارہی ہیں جتنی کہ ہمارے ہاں تبدیلی والی سرکار کے "یوتھیے" بھی نہیں کرپا تے.کچھ لوگوں کا یہ موقف ہے کہ میگزین نے اپنی مرضی کا بیان چھاپ دیا ہے ، متعلقہ لڑکی کے والد نے بیان دیا ہے کہ اس کی بیٹی کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے لیکن یہ کوئی ظاہر نہیں کررہا ہے کہ متعلقہ میگزین کو کیا نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ آپ نے غلط چیزیں چھاپی ہیں اور اس کی تصحیح کی جائے . یا پھر ایسا کوئی اقدام جس سے یہ ظاہر ہو کہ کہ میگزین کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے. ویسے ان لوگوں کیلئے عرض ہے جو متعلقہ لڑکی کی پوٹی کو شلوار پہنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ انگریزوں کا میگزین ہے ہمارے ہاں کے اخبارات نہیں ، جھوٹ ہم بولتے ہیں اور پھر دھڑلے سے اس جھوٹ پر کھڑے بھی ہوتے ہیں -

جھوٹ پر یاد آیا . صوبائی حکومت نے زیادہ تر ڈیپارٹمنٹ آن لائن کردئیے ہیں مگر کچھ ڈیپارٹمنٹس کی آن لائن کارکردگی بس اتنی سی ہے کہ تصاویر ان کی اپ ڈیٹ ہوتی ہیں لیکن ڈیٹا سارا پرانا ڈالا جاتا ہے شائد آن لائن ڈیٹا ڈالنا محکمو ں کے اہلکاروں کی بس کی بات نہ ہو.یا پھر وہ مینوئل طریقے سے کام نکالنا جانتے ہوں. ویسے مینوئل طریقے سے بہت ساروں کے فائدے بھی ہیں. مینوئل طریقے سے کام نکالنے والے میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے پاس اضافی ڈیپارٹمنٹ ٹورازم اتھارٹی بھی ہے جن کی ویب سائٹ تو آن لائن ہے مگر ا س پر ڈیٹا موجود ہی نہیں جبکہ جو میگزین ڈالے گئے ہیں وہ 2017 کے ہی ہیں ایسے میں ٹورسٹ اور ٹورازم سیکٹر کتنی ترقی کرے گا یہ تو واقفان حال ہی کو پتہ ہوگا- یہ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس کے متعدد پراجیکٹ صوبے بھر میں چل رہے ہیںمگر رشتہ داروں میں پھنسے اس ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی اتنی ہمت نہیں کہ اس ڈیپارٹمنٹ کے پریس ریلیز جاری کریں کہ کرونا کے باعث کتنا نقصان ہوا، کتنی بہتری آئی ، اب کیا ہورہا ہے ، میڈیا کو آگاہ کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ، حالانکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں میڈیا کے نام پر کئی افراد تنخواہیں لے رہے ہیں ان میں کنسلٹنٹ سے لیکر میڈیا مینجر تک شامل ہیں لیکن ان کی ڈیوٹی ..اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھنا شائد کسی کی ہمت ہی نہیں. یہی وجہ ہے کہ اب اس ڈیپارٹمنٹ میں زیادہ تر "ضم ہونیوالے " اضلاع میں ایک مخصوص ضلع کے لوگ زیادہ ہیں. جو ہر چیز سنبھالے ہوئے ہیں.

سنبھالا تو ڈپٹی کمشنر پشاور کے دفتر میں لائسنس برانچ کے کلرکوں نے پورا دفتر تھا جو اب ان کی معطلی کے بعد تین ہفتے گزرنے کے بعد بھی خالی ہی ہے.. گذشتہ دنوں وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے ڈپٹی کمشنر پشاور کے دفتر میں لائسنس برانچ پر چھاپہ مارا تھا اور تین سو روپے کی بجائے ایک ہزار روپے لینے والے افراد معطل کردئیے تھے وزیراعلی خیبر پختونخواہ کا اقدام قابل تحسین ہے لیکن یہ کلرک اور دیگر اہلکار کیا پورے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو سنبھالے ہوئے تھے کہ سارا نزلہ کلرکوں پر گرگیا اور کیا کلرک یہ سارا مال اپنے جیبوں میں لیکر جاتے تھے کیا اوپر والوں کوحصہ نہیں ملتا تھا. اس بارے میں تو کچھ بھی نہیں ہوا . ہاں ایک نقصان یہ ہوا کہ تقریبا تین ہفتے گزر گئے ابھی تک اس لائسنس برانچ میں نے اہلکار تعینات نہیں کئے گئے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر پشاور کو بھوکے ننگے عوام کا کتنا احساس ہے . ویسے وزیراعلی صاحب! آپ عوامی نمائندے ہیں آپ سے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ لائسنس برانچ کب کام شروع کردے گا کیونکہ ڈپٹی کمشنر تو بادشاہ آدمی ہے ان سے پوچھنے کی ہمت کسی میں نہیں.. اللہ آپ کا بھلا کرے بہت سارے لوگوں نے ہزاروں روپے دئیے ہیں کہ ان کا لائسنس بن جائے اب اگر یہ برانچ اسی طرح بند رہا تو پھر وہ لوگ جنہوں نے پیسے مخصوص لوگوں کو دئیے ہیں سے جھگڑوں پر اتر آئے ہیں کہ پیسہ واپس نکالو. لائسنس نہیں بنا سکتے.. اس لئے وزیراعلی صاحب.. آپ ہی کچھ کریں..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498812 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More