#العلمAlil علمُ الکتاب ((( سُورَہِ طٰہٰ ، اٰیت 115 تا
127 ))) اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
عھدنا الٰی
اٰدم من قبل
فنسی ولنجد لہ
عزما 115 واذقلنا
للملٰئکة اسجدوالاٖدم
فسجدواالّا ابلیس ابٰی 116
فقلنایٰاٰدم ان ھٰذا عدولک ولزوجک
فلا یخرجنکما من الجنة فتشقٰی 117
ان لک ان لا تجوع فیھا ولاتعرٰی 118 وانک
لاتظمؤافیھا ولا تضحٰی 119 فوسوس الیہ الشیطٰن
قال یٰاٰدم ھل ادلک علٰی شجرة الخلد وملک لایبلٰی 129 فاکلا
منہا فبدت لھما سواٰتھما وطفقا یخصفٰن علیھما من ورق الجنة وعصٰی
اٰدم ربہ فغوٰی 121 ثم اجتبٰہ ربہ فتاب علیہ وھدٰی 122 قال اھبطا منھا
جمیعا بعضکم لبعض عدو فامایاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا یضل ولا
یشقٰی 123 ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا ونحشرہ یوم القیٰمة اعمٰی
124 قل رب لم حشرتنی اعمٰی وقد کنت بصیرا 125 قال کذٰلک اتتک اٰیٰتنا
فنسیتھا
وکذٰلک الیوم ننسٰی 126 وکذٰلک نجزی من اسرف و لم یؤمن باٰیٰت ربہ ولعذاب
الاٰخرة
اشد و ابقٰی 127
اور اِس بات کی تو انسانی تاریخ کی ہر ایک تحقیق سے مُکمل تصدیق ہو چکی ھے
کہ پہلے پہل ھم نے آدم سے جو پہلا وعدہ لیا تھا تو آدم نے ھم سے کیا ہوا وہ
وعدہ غیر ارادی طور پر بُھلا دیا تھا لیکن قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ آدم کی
اِس بُھول کے بعد بھی جب ھم نے فرشتوں کو آدم کی اطاعت کا حُکم دیا تھا تو
اُن سب نے ھمارے حُکم پر عمل کیا تھا سواۓ اُس ایک مایوس فرد کے کہ جس نے
آدم کے ساتھ اپنے حسد اور اپنے رَب کے ساتھ اپنی سرکشی کی بنا پر آدم کی
اطاعت سے انکار کردیا تھا اور اُس کی اِس باغیانہ روش کے بعد ھم نے آدم سے
کہا تھا کہ عھدِ رَفتہ کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تحقیق ہو چکی ھے کہ
ھماری سلطنت کا یہ مایُوس فرد تُمہاری ذات اور تُمہاری جماعت کا دُشمن ھے
اِس لیۓ تُم ہمیشہ اِس بات کا خیال رکھنا کہ یہ شخص کسی سازش کے تحت تُم کو
تُمہاری اُس آسُودہ حال و آسُودہ دل جنت سے محروم کرکے کسی مصیبت میں نہ
ڈال دے جس جنت میں ھم نے تمہیں بُھوک پیاس اور سردی و گرمی کے سارے بکھیڑوں
سے بچا کر رکھا ہوا ھے لیکن اُس مایوس شخص نے آدم اور اُس کی جماعت کو اپنے
اِس دامِ حرص میں جکڑ لیا کہ میں تمہیں اِس جنت کے اُس پُر بہار و ثمردار
درخت پر چڑھا دیتا ہوں جس کا پَھل تمہیں ابدی حیات دے دے گا اور تُم ایک
لازوال سلطنت کے مالک بن جاؤ گے ، بالآخر اُس مایوس شخص نے آدم اور اُس کی
جماعت کو اپنے دامِ حرص میں جکڑ لیا اور جب اُنہوں نے اُس کی خوشی اور اپنی
خواہش کے اُس درخت کا پَھل کھالیا تو وہ اللہ کی اُس پوشیدہ جنت کے آب و
دانے اور سردی و گرمی کے اُس خود کار نظام سے محروم ہو کر اپنے جسموں کو
اَشجارِ دُنیا کے پتوں سے چُھپانے کے لیۓ مجبور ہو گۓ ، آدم سے ایک بار پھر
وہی بُھول ہوگئی جو اِس سے پہلے بھی ایک بار ہو چکی تھی ، ہر چند کہ آدم نے
پہلے کی طرح اِس بار بھی اللہ سے رجوع کیا تھا لیکن اِس وقت آدم کے رجوع کا
وہ وقت گزر چکا تھا جو آدم کی جان و جنت دونوں کو بچاسکتا تھا اِس لیۓ اللہ
تعالٰی نے فرمایا کہ تُم سارے لوگ چونکہ اِس اَمن کی جگہ پر بَد امنی پیدا
کر کے ایک دُوسرے کے دُشمن بن چکے اِس لیۓ تُم سارے لوگ جنت کی اِس بلندی
سے اُتر کر زمین کی پستی میں بَس جاؤ اور آج کے بعد تُمہاری زمین کی پستی
سے اُٹھ کر جنت کی اِس بلندی پر آنے کی یہی ایک راہ باقی رہ گئی ھے کہ زمین
پر جب کبھی بھی تُمہارے پاس میرا کوئی پیغامِ ھدایت آۓ تو میرے اُس پیغامِ
ھدایت پر عمل کیا جاۓ ، تُم میں سے جو شخص میرے پیغامِ ھدایت پر عمل کرے گا
تو اُس کو اِس در بدری سے بچالیا جائے گا اور جو شخص حرصِ دُنیا کے لیۓ
اَندھا ہو کر میرے اُس پیغام سے انحراف کرے گا تو وہ قیامت کے روز جب زندہ
ہو کر میدانِ محشر کی طرف جاۓ گا تو اُسی اَندھے پَن کے ساتھ جاۓ گا اور
اُس وقت وہ کہے گا کہ بارِ اِلٰہ ! میں تیری دُنیا میں تو اَندھا نہیں تھا
تو پھر آج مُجھے اندھا کر کے زمین سے باہر کیوں لایا گیا ھے ، اُس وقت اُس
کو اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ مایُوس کُن جواب دیا جاۓ گا کہ دُنیا میں جب
تُمہارے پاس میری اٰیات اور ھدایات آئی تھیں تو تُم نے میری اُن تمام اٰیات
و ھدایت کو فراموش کر دیا تھا اور جب تُم میرے پاس آۓ ہو تو میں نے بھی تُم
کو فراموش کر دیا ھے کیونکہ حد سے گزرنے اور اپنے رب کی اٰیات و ھدایات سے
انکار کرنے والے لوگوں کو ھم دُنیا میں تو اُن کی قلیل زندگی کے مطابق ایک
قلیل سزا دیتے ہیں لیکن جب وہ دُنیا سے نکل کر آخرت میں آجاتے ہیں تو پھر
ھم اُن کو آخرت کی طویل زندگی کے مطابق بہت ہی سخت اور بہت ہی طویل سزا
دیتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے آغازِ کلام میں ھم یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اِس سُورت کا
موضوعِ سُخن خیر و شر کی وہ اَزلی و اَبدی جنگ ھے جو خیر و شر کے درمیان
روزِ اَزل سے جاری ھے اور روزِ اَبد تک کے لیۓ جاری ھے ، خیر و شر کی اِس
اَزلی و اَبدی جنگ اور نتائجِ جنگ کے بارے میں اللہ تعالٰی کی یہ اَزلی و
اَبدی کتاب یہ شہادت دیتی ھے کہ خیر روزِ اَزل سے روزِ اَبد تک ایک اَمرِ
حق اور شر روزِ اِزل سے روزِ اَبد تک ایک اَمرِ باطل ھے اِس لیۓ انسانی
تاریخ میں اَمرِ حق روزِ اَزل سے اَب تک ہمیشہ ہی فتح یاب اور اَمرِ باطل
روزِ اَزل سے اَب تک ہمیشہ ہی شکست یاب ہوتا رہا ھے ، قُرآنِ کریم نے حق و
باطل کی اِس جنگ کے بارے اپنے اِس دعوے کے حق میں انسانی تاریخ سے جو پہلی
دلیل اور پہلی تمثیل پیش کی ھے وہ فرعون و مُوسٰی کے درمیان ایک محدُود
زمانے سے ایک محدُود زمانے تک برپا ہونے والی اَمرِ حق کی وہ جنگ ھے جس میں
مُوسٰی علیہ السلام حق کے داعی ہونے کی بنا پر فتح یاب ہوۓ تھے اور فرعون
باطل کا مُدعی ہونے کی بنا پر شکست یاب ہوا تھا اور قُرآنِ کریم نے اپنے
اِس دعوے کے حق میں اپنی دُوسری دلیل اور دُوسری تمثیل کے طور پر آدم و
ابلیس کی اُس جنگ کو پیش کیا ھے جو روزِ اَزل سے روزِ ابد تک جاری ھے اور
آدم و ابلیس کی اِس جنگ سے یہ بتانا مقصود ھے کہ جس طرح زمان و مکان کی ایک
قلیل مُدتی جنگ میں مُوسٰی فتح یاب اور فرعون شکست یاب ہوا ھے اسی طرح زمان
و مکان کی اِس طویل مُدتی جنگ میں بھی آدم نے حق کا نمائندہ ہونے کی بنا پر
لازماً کامیاب و کامران ہونا ھے اور ابلیس نے باطل کا نمائندہ ہونے کی بنا
پر لازماً ناکام و نامراد ہونا ھے ، قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں آدم ،
جنتِ آدم اور جماعتِ آدم کا جہاں جہاں پر بھی ذکر ہوا ھے وہاں پر ھم نے آدم
و جنتِ آدم اور جماعتِ آدم پر اُس مقام کے محدُود سیاق و سباق میں رہ کر
ایک محدُود سی گفتگو کی ھے لیکن سُورةُالبقرة اور سُورةُ الاَعراف کے دونوں
مقامات پر ھم نے آدم و جنتِ آدم اور جماعتِ آدم کے بارے میں وہ مفصل گفتگو
بھی کی ھے جس کے اعادہ و تکرار کی یہاں ضرورت نہیں ھے لیکن قُرآنِ کریم نے
اِس سُورت کی اِن اٰیات میں آدم و جنتِ آدم اور جماعتِ آدم کا جو ذکر کیا
ھے اُس ذکر میں قُرآنِ کریم نے اِس اَمر کو واضح کیا ھے کہ آدم سے اپنے
سیاسی و معاشرتی فیصلے کرنے میں دو بار خطا ہوئی ھے جس کے باعث ابلیس کو
بھی آدم کے خلاف اپنی تلبیس کا دو بار موقع ملا ھے ، آدم سے پہلی خطا اُس
وقت سرزد ہوئی تھی جب اُس نے اپنی سیادت و قیادت کا حلف نہیں اُٹھایا تھا
اور اُس کو اُس وقت آنے والے خطرات کے بارے میں جو بتادیا گیا تھا وہ اُس
کو بُھول گیا تھا اور آدم نے اپنے دُشمن ابلیس کے بھرے میں آکر دُوسری خطا
اُس وقت کی تھی جب وہ اپنی سیادت و قیادت کا حلف اُٹھانے کے بعد اللہ
تعالٰی کی عطا کردہ اُس جنت میں موجُود تھا جس جنت سے ابلیس اُس کو نکلوانا
چاہتا تھا اور اِسی دُوسری خطا کے بعد آدم کو اپنی جماعت سمیت جنت بدر ہونا
پڑا تھا ، قُرآنِ کریم نے آدم کا جہاں جہاں پر بھی جو ذکر کیا ھے عُلماۓ
تفسیر نے اُس سے آدم علیہ السلام کی ذات کی مُراد لی ھے اور مُحولہ بالا
خطا کو بھی اُسی آدمِ نبی کے ساتھ منسوب کیا ھے لیکن قُرآنِ کریم جب
مُطلقاً آدم کا لفظ استعمال کرتا ھے تو اُس آدم سے کہیں کہیں پر تو یقیناً
وہی فردِ آدم مُراد ہوتا ھے جو اللہ تعالٰی کا ایک نبی ھے لیکن اکثر مقامات
پر آدم سے قُرآن کی مُراد وہ جنسِ آدم ہوتی ھے جس میں جنسِ آدم کا ہر فرد
شامل ہوتا ھے اِس لیۓ گمان غالب یہ ھے کہ قُرآنِ کریم میں خطا کے حوالے سے
جس آدم کا ذکر ہوا ھے اُس سے قُرآن کی مُراد وہ جنسِ آدم ھے جس میں جنسِ
آدم کا ہر فرد شامل ھے لیکن اُس آدم سے قُرآن کی مُراد جنسِ آدم کا وہ فرد
نہیں ھے جو اللہ تعالٰی کا ایک نبی ھے ، رہا یہ سوال کہ اگر اِس سے آدم نبی
مُراد نہیں ھے تو پھر آدم کی توبہ کو کس خانے میں رکھا جاۓ گا تو ھم عرض
کریں گے کہ جنسِ آدم کی خطا پر جو توبہ کی جاتی ھے وہ توبہ بھی اُس زمانے
کا نبی ہی کرتا ھے کیونکہ نبی ہی خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کا واحد
ذریعہ ہوتا ھے ، اہلِ علم حضرات یہ غلطی عادتا کرتے ہیں اور اِس لیۓ کرتے
ہیں کہ اُن کے ذہنوں پر روایات نے آدم و زوجہ آدم اور ابلیس و شیطان کے چار
نام اِس طرح ثبت کیۓ ہوۓ ہیں کہ اُن کو اُن چار ناموں کے سوا کُچھ اور نظر
ہی نہیں آتا !!
|