ملالہ یوسف زئی کابیان مغربی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا
ہے
برٹش فیشن میگزین ”vogue“ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے ملالہ یوسف زئی نے یہ
انکشاف کیا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں اس کیلئے تو
پاٹنرشپ ہی کافی ہے اور اس کیلئے شادی کے کاغذات پردستخط کرنے کی کیاضرورت
ہے؟ کہنے کامقصد یہ ہے کہ شادی کے جنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہی اس کیلئے
تو ایک پارٹنر یا بوائے فرینڈ ہی کافی ہے۔
انکا یہ بیان مغربی تہذیب و تمدن اور گند ی سوچ کی عکاسی کرتاہے کیونکہ وہ
لوگ اس نظریہ کے قائل ہیں کہ ”جب تازہ دودھ دروازے پر دستیاب ہو تو پھر گھر
میں بھینس رکھنے کی کیا ضرورت ہے‘۔‘یہ بیان فحاشی اورزناکاری کی کھلے عام
دعوت دینے کے مترادف ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف ہے۔
دین اسلام شادی کرکے گھربار بسانے اور خاندان کی تعلیم و تربیت کرکے ایک
اچھا معاشرہ وجو د میں لانے پر زور دیتاہے اور زناکاری او ر عارضی جنسی
تعلقات رکھنے والے کو عذاب خداوندی کی وعید سناتا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی آزاد خیال خواتین کا ایک گروہ ایسا
ہے کہ جو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتی ہیں اور مادر پدر آزاد تہذیب کو
فروغ دینے کی کوشش کرتی ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کو ملک میں
پذیرائی نہیں ملی کیونکہ یہاں پردہ دار،شرم و حیاء اور اسلامی تعلیمات پر
چلنے والی خواتین بھی موجود ہیں جو انکے خلاف ہیں۔
لہٰذا ایک مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والی ملالہ کا یہ بیان انتہائی شرمناک
ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اسے چاہئیے کہ وہ ا س بیان پر اللہ
کے حضور توبہ تائب ہو اور اسلامی تعلیمات پر چلنے کا عہدکرے
|