بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
الحمد اللہ بحیثیت ایک مسلمان ہم سب کاایمان ہے کہ قرآن پاک ہمارے رب کا
سچا کلام ہے ۔اور قرآن پاک قیامت تک کے آنے والے تمام لوگوں کے لئے رہنمائی
بھی ہے ۔
اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن پاک صرف دین کے لئے رہنمائی ہے بلکہ قرآن پاک میں
ہمارے دنیاوی معاملات کی بھی رہنمائی ہے۔
اسی طرح سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں بھی ہمارے لئے دینی اور اور
دنیاوی معاملات میں قدم قدم پررہنمائی ہے۔
ہمارے معاشرے کے کچھ” دنیاوی پڑھے لکھے “حضرات اس دھوکہ میں مبتلا ہوتے ہیں
کہ دین اور دنیا علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں ۔
ان کی غلط فہمی کی پہلی دلیل تو یہ ہے کہ قرآن پاک میں دنیاوی معاملات کی
بھی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔اور احادیث پاک میں تو دنیاوی معاملات بہت ہی
تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔اخلاقیات ،لین دین ،وراثت ،رہن سہن ،حقوق
العباد،عورتوں ،پڑوسیوں،رشتہ داروں کے حقوق سے لے کر حکومتی معاملات تک
اورامراء( حکمرانوں)کے حقوق سے لے کر عام رعایا کے حقوق تک ، حتیٰ کہ
اٹھنا،بیٹھنا ،سونا ، جاگنا، چلنا، پھرنا، کھانا پیناوغیرہ وغیرہ کہیں
مختصر تو کہیں تفصیلی ارشادات موجود ہیں۔
پھر یہ ”دنیاوی پڑھے لکھے حضرات “کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دین اور دنیا علیحدہ
علیحدہ معاملات ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہونے کی کیا وجوہات ہیں ؟اور
لوگ قرآن اور سنت پر ایمان رکھنے کے باوجود قرآن اور سنت کے بتائے ہوئے
راستوں سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی عقل و فہم سے یا دیگردنیا(خاص
طور پر مغربی دنیا) کے طور طریقوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے انفرادی
سے لے کر اجتماعی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوششوں میں سرگرداں رہتے ہیں ؟؟؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے حضرات کا بلکہ تقریباہم سب کاہی سب سے بڑا مسئلہ
یہ ہے کہ ہم زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ الحمد اللہ ہمارا قرآن پاک پر ایمان
ہے اوراحادیث پاک پر ایمان ہے۔
لیکن عملی طور پر ہمارا معاملہ بہت زیادہ کمزور ہے۔
ایمان صرف زبان سے کہہ لینے کا ہی نام نہیں بلکہ اپنے عمل سے کر دکھانے کا
بھی نام ہے ۔
ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لغت میں” ایمان“ کہتے ہیں صرف سچا مان
لینے کو۔۔۔یعنی ”ایمان“ دل سے” یقین “لانے کو کہتے ہیں ۔
مثال کے طور پر اگر کوئی آپ کو کوئی کہے کہ تیس فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا
دیں اورپچاس ہزار روپے لے لیں۔
تو آپ یہ کام ہرگز نہیں کریں گے کیوں کہ آپ کو سو فیصد” یقین “ہے کہ تیس فٹ
کی بلند ی سے چھلانگ لگانا ہماری جان بھی لے سکتا ہے اور اگر بالفرض جان بچ
بھی جائے لیکن ہاتھ پیر ٹوٹ جانے یقینی ہے۔
تو تیس فٹ کی بلندی سے آپ کا چھلانگ نہ لگانے میں رکاوٹ کا سبب آپ کا سو
فیصد” یقین“ ہوتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس (مثال کے طور پر) احادیث پاک میں رشوت لینے اور دینے والے
کو جہنمی فرمایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں یہ برائی عام
ہے۔
تو دوسری طرف ایسے ہی(جو پچاس ہزار کے لئے تیس فٹ کی بلندی سے چھلانگ نہیں
لگاسکتا)کسی شخص کا کسی سے چند روپے یا چند ہزار روپے رشوت لینا اس بات کی
دلیل ہے کہ اس کا قرآن اور سنت پر ایمان کمزور ہے۔
اور یہ بات آپ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ تیس فٹ کی بلندی سے گر ہاتھ پیر
ٹوٹناجہنم کی اس آگ میں جلنے سے ہزاروں گنا ہلکا ہے جس آگ کے لئے رب کا
فرمان ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا
وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ الخ التحریم 6 پارہ 28
(ترجمہ :اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچاﺅ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو
اس آگ سے جس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے )
(اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین)
لیکن اس کے باوجود ایک شخص ایسا کوئی کام پچاس ہزار کے لئے بھی نہیں کرتا
جس میں معمولی ہی تکلیف کا( لیکن دل سے) سو فیصد”یقین“ ہو۔ مگر وہی شخص ایک
ایسا کام با آسانی کر گذرتا ہے جس کا نفع بہت معمولی ہوتا ہے جبکہ اس کی سز
اہزاروں گنا زیادہ دردناک بتائی گئی ہے ۔
یہ حال تقریبا ہم سب کا ہی ہے ۔ تقریباہم سب کا ہی ایمان کمزور ہے۔
یہ ہماری سب سے پہلی اور سب سے بڑی بنیادی کوتاہی ہے۔ جو ہم سب کے انفرادی
مسائل سے لے کر اجتماعی مسائل تک کی ”جڑ “ہے۔
ہم قرآن اور سنت پرزبانی ایمان تو لاتے ہیں لیکن ہمارے ایمان کی کمزوری کی
وجہ سے ہماراقرآن اور سنت پرایمان لانا ہمارے عمل میں نظر نہیں آتا۔
ہمارے ملک میں یہ بات عام بھی ہے اور مشاہدہ میں بھی ہے کہ ہم مسلمان آپس
میں لڑتے ہیں ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں، امانت میں خیانت کرتے ہیں اور
کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف فلاں ملک کو دیکھو کہ غیر مسلم ہیں اور ان لوگوں میں یہ
برائیاں نہیں ہیں اور وہ لوگ کتنی ترقی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔۔۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مغربی دنیا یا دیگر
غیر مسلم ممالک میں لوگ اپنے قوانین اور ضابطوں پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں
۔جبکہ ہمارے ملک میں ضابطوں اور ملکی قوانین پرعمل کرنے کا شدید فقدان ہے ۔
یا دوسری طرف ہمارے ملک میں فراڈ اوردھوکہ دہی ،وعدہ خلافی عام ہے ۔ جبکہ
مغربی ممالک میں لوگ فراڈ،دھوکہ دہی سے اجتناب اور اپنے وعدے کی پاسداری
پوری کرتے نظر آتے ہیں۔
انہی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی مغربی دنیا کے
بنائے ہوئے نظام کی کامیابی کی نشانی ہے؟ اوریہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی
پالیسی مرتب کرنے والے یا قانون سازی کرنے والے یاملکی مسائل کے حل کے لئے
تجاویز پیش کرنے والے اور لائحہ عمل بنانے والے اور ان لائحہ عمل پر عملی
اقدامات کرنے والے ذمہ دار اور دانشوروغیرہ جن کی اکثریت امریکہ اور یورپ
کی نہ جانے کس کس یونیورسٹی کے” اعلیٰ تعلیم یافتہ“ ہوتے ہیں۔۔۔۔ یہ حضرات
ملکی مسائل کے حل کے لئے اپنی تمام تر کوششیں ،تمام تر اقدامات صرف اور صرف
اپنی غیر ملکی” اعلیٰ تعلیم“ کی روشنی میں اور مغربی دنیا کے بنائے ہوئے
نظام اور لائحہ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اور اسی طرح ہمارے ملک کے تجزیہ نگار،کالم نگار اور تبصرے کرنے والے حضرات
بھی جب میڈیا پر پاکستان کو درپیش شدید مسائل پر بات چیت کرتے ہیں یا جو
کچھ بھی لکھتے ہیں یا کوئی تبصرہ کرتے ہیں ،تو اکثرحضرات اپنی ”اعلیٰ
تعلیم“یا اپنے ان تجربوں جو مغربی کالم نگاروں ،یا مغرب کے نظام کو دیکھ
دیکھ کر حاصل ہوا ہوتا ہے،ان حضرات کا بنیادی نکتہ نظراپنی انہی تعلیم اور
تجربہ کی روشنی پر مبنی ہوتا ہے ۔
جس کی وجہ سے ہمارے عوام جب ان کالم نگاروں کو پڑھتے ہیں یا میڈیا پر بات
چیت کرتے دیکھتے ہیں...... تو عوام بھی ان حضرات کی ”اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ
قابلیت “کو دیکھتے ہوئے اور دوسری طرف اپنے مشاہدے میں بھی مغربی ممالک کی
تیزی سے ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ان کالم نگار،تجزیہ نگار اور تبصرے
نگاروں سے متاثر ہوجاتے ہیں .......کہ واقعی ہمارے فلاں مسئلہ کا حل فلاں
پالیسی میں ہے........ اور فلاں آرڈینینس میں ترامیم میں ہے .......یا فلاں
قانون سازی میں ہے .......یا فلاں ادارے کی کوتاہیاں ہیںوغیرہ وغیرہ۔
لیکن معزز قارئین کرام ۔۔۔۔۔ یہ سب دھوکہ ہے کہ مغربی دنیا یا غیر مسلم
ممالک کے لوگ اپنے دل و دماغ پر بڑی حد تک کنٹرول رکھتے ہیں۔ (یعنی ایسا
نہیں کہ ان کا نفس اتنا خوبصورت اور مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور
جذبات کو ملکی مفادات پر قربان کرکے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور فراڈ
دھوکہ سے اجتناب برتتے ہیں اور اچھا برتاﺅ کرنے والے ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں یہ
بات ذہن میں رکھیے گا کہ اکثریت کی بات ہو رہی ہے ۔کیوں کہ ہمارے ملک میں
بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قوانین کی پاسداری کرتے ہیں ،اور دھوکہ فراڈ سے
اجتناب کرتے ہیں ،اور دوسری طرف مغرب میں بھی لوگ فراڈ اور دھوکہ دہی میں
مبتلا ہوتے ہیں اور ملکی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں ہیں)۔
اور غیر مسلم دنیا کے پالیسی مرتب کرنے والے زیادہ عقل رکھنے والے ہیں جو
اپنے اپنے ممالک میں کامیاب پالیسیز مرتب کرکے دنیا میں تیزی سے ترقیوں کی
منازل طے کرتے ہیں اور غیر مسلم ممالک کی ترقیوں کا راز ان کی کامیاب
پالیسیز اور اُن کے بنائے ہوئے نظام میں چھپا ہے۔
پھر غیر مسلموں کے کثرت مال و متاع اور تیزی سے ترقیاں حاصل کرنے کا کیا
راز ہے؟
یہ جاننے کے لئے اس سلسلہ کے اگلے حصہ کا مطالعہ فرمانا نہ بھولیے۔
آپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی
کوتاہی نظر آئے تو ہمیں ضرور نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کر لیں
۔جزاک اللہ
۔۔۔۔۔سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔ |