بابا جی کی کرامات

آج ہم آپ کی خدمت میں ایک ایسا تجسس بھرا واقعہ وہ بھی کرامات سے بھرا ہو سنانا چاہیں گے یقینا آپ بھی اس واقعہ کو سن کر محظوط ہونگے ایک روز کا واقعہ ہے کہ میں اور میرا باس صبح کے وقت اپنی شاپ پر بیٹھے تھے اور اپنے کام میں مصرف تھے اچانک باہر سے ایک بزرگ چہرے پرسفید رنگ کی چھوٹی چھوٹی داڑھی،آنکھوں پر موٹا چشمہ،دونوں ہاتھوں میں مختلف اقسام کی انگوٹھیاں،پاؤں میں پلاسٹک کی چپل،آسمانی رنگ کا جبہ پہنے داخل ہوئے اور دھیمے لہجے میں کہا۔۔اسلام علیکم ۔۔ہم نے اپنا کام چھوڑ کر بابا جی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بڑے احترام کے ساتھ جواب دیا اور نہایت ادب سے بابا جی کو بیٹھنے کی دعوت دی جس پر بابا جی نے خوبصورت انداز میں مسکراتے ہوئے بیٹھنے کی بجائے سدا لگائی کہ اﷲ کے نام پر کچھ دیں ہم نے حسب توفیق بابا جی کو خیرات دی اور وہ جانے کے لئے مڑے مگر پھر اچانک رکے اور بولے کہ ہے کوئی جو بابے کو چائے پلائے لہذا ہم نے بابا کو چائے کے لئے پیسے تھما دیئے ،جیسے ہی ہم نے بابا جی کو چائے کے پیسے تھمائے تو ان کی جانب سے ہمارے لئے دعاؤں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوگیا ہم بھی خوش ہوئے اور اسی خوشی میں بابا جی کی خدمت میں ایک سو روپیہ سکہ رائج الوقت نذرانہ دینا چاہا۔۔۔باباجی نے یہ اکلوتا اور کڑک دار نوٹ لینے کی بجائے مرے دیئے ہوئے پیسوں سمیت واپس کرتے ہوئے دوبارہ دعاؤں کا نہ رکنے والا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ شیدائی اور فدا ہوگیا۔بابا جی قریب رکھے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولے مجھے پیسوں کی بھوک نہیں بیٹا میں تو صرف دعائیں دینے آیا ہوں بس مجھے چائے پلادو باس کے کانوں میں بابا جی کی چائے کی سدا سننی تھی کہ فورا مجھے بہت ہی محبت بھرے انداز میں حکم صادر کرتے ہو جلدی سے چائے اور بسکٹ لانے کا کہا میں بھی جیسے ان کے منہ سے نکلے حکم نامے کے انتظار میں ہی تھا۔ ٹی بوائے کو بلایا اس سے کہا جلدی جاؤ اور ہوٹل والے سے اچھی سی چائے اور بسکٹ لیکر آؤ اورسنو اسے کہنا کہ باس کا خاص مہمان آیا ہے دھیان رہے برتن کو اچھی طرح سے دھو کر چائے بنائے۔ اور تم بھی جلدی آنا ٹی بوائے بھاگا بھاگا ہوٹل پر گیا اور کچھ ہی دیر میں چائے اور بسکٹ لیکر آیا اور بابا جی کی خدمت میں پیش کی جب بابا جی چائے سے فارغ ہوئے تو ایک بار پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور دعائے خیر کی پھر محبت بھرے اور دھیمے لہجے سے باس کو اپنے پاس بلا کر بیٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی کاغذ کا اک چھوٹا سا ٹکڑا مانگا باباجی نے کاغذ کا ٹکڑا لپیٹ کر اپنی مٹھی میں بند کرلیا پھر کچھ پڑھنا شروع کیا کچھ دیر کے بعد مٹھی کھولی تو کاغذ کے ٹکڑے پر عربی میں کچھ عبارت نمودار ہوئی۔ جب وہ عبارت باس نے پڑھی تو بہت حیران کن اور شیدائی نظروں سے بابا جی کی طرف دیکھنے لگے اسی لمحے باس کے بڑے بھائی بھی آگئے بابا جی کے پوچھنے پر باس نے بتایا کہ یہ میرے بڑے بھائی ہیں تو بابا جی نے اسی طرح سے کاغذ کا دوسرا ٹکڑا مانگا اور بڑے بھائی کے ہاتھ میں رکھ کر مٹھی بند کرنے کو کہا کچھ دیر پڑھتے رہے اور پھر مٹھی کھلی تو تسبیح کا دانا جس پر اﷲ اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کاکا نام مبارک لکھا ہوا تھا دیکھ کر سب کے سب حیران رہ گئے اسی لمحے بابا جی نے جانے کی اجازت طلب کرتے ہوئے صوفہ سے اٹھے تو باس نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار کا نوٹ نکال کر بابا جی کو دینے کی کوشش کی مگر بابا جی نے مسکرا کر کہا کہ میں پیسے لینے نہیں دعا دینے آیا ہوں مگر باس کا اسرار جوں کا توں بڑھتا دیکھ کر بابا جی نے دوسرے کمرے میں بات کرنے کا کہا تو وہ ساتھ والے کمرے میں لے گئے اور وہاں انہیں کہا کہ تم بھول گئے ہو کہ تم کسی مزار پر منت مانگ کر آئے تھے مگر تم نے منت پوری نہیں کی اب وقت آگیا ہے کہ منت پوری کرو اتنے میں باس کمرے سے باہر آیا اور دراز سے پانچ ہزار نکال کر اندر بیٹھے بابا جی کو دئیے مگر بابا جی جو لمبا گھات لگائے بیٹھے تھے لینے سے انکار کرتے ہوئے بولے بیٹا منت ایک بکرے اور دو دیگوں کی تھی لہٰذا ان سے کام نہیں چلے گا تو باس نے پانچ ہزار اور دیئے مگر ان سے بھی بات نہ بنی اور بابا جی جلال میں اٹھ کھڑے ہوئے اور کمرے سے باہر آگئے باس جو کہ ان کی کرامات سے متاثر ہوگئے تھے ان کے پیچھے پیچھے باہر آگئے بات چلتی رہی اور کرامات کی قیمت بیس ہزار تک پہنچ گئی بابا جی نے بیس ہزار کا نذانہ بخوشی قبول کیا اور دعائیں دیتے ہوئے شاپ سے جانے میں غنیمت سمجھی اور ایسے گم ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
 

Malik Amjad
About the Author: Malik Amjad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.