سلطنتِ ملتان کے بہادر حکمران سدوزئی خاندان سے تعلق
رکھنے والے نواب مظفر خان سدوزئی 1757ء ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا
نام نواب شجاع خان سدوزئی تھا۔ان کا تعلق پٹھانوں کے مشہور قبیلے سدوزئی کی
شاخ ''خان خیل'' سے تھا۔
آپ نے شجاع آباد کے قاضی خاندان سے دینی تعلیم حاصل کی۔باطنی علوم اور تصوف
کا علم حضرت حافظ جمال اﷲ ملتانی سے حاصل کیا۔ نواب مظفر خان صوم و صلوٰۃ
کے سختی سے پابندی تھے۔ دیوان حافظ شیرازی اکثر انکے زیرِ مطالعہ رہتا تھا۔
نواب صاحب کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ لیکن بندوق سے شکار نہیں کرتے تھے صرف
باز اور تیر سے شکار کرتے تھے۔ اور اپنی خاندانی رکھ رکھاؤ کے پاسدار
تھے۔نواب مظفر خان کے بڑے افغانستان سے آکر ملتان میں آباد ہوئے تھے۔آپ کے
دادا کا نام عابد خان تھا۔نواب مظفر خان کے والد نواب شجاع خان کو نواب
زاہد خان کے بعد ملتان میں پٹھانوں نے اپنا سردار منتخب کیا۔
موجود شجاع آباد نواب مظفر خان کے والد نواب شجاع خان سدوزئی کے نام پر
آباد ہے۔ اور نواب شجاع خان کا مقبرہ آج بھی شجاع آباد میں موجود ہے۔ناظم
ملتان بنتے وقت نواب مظفر خان کی عمر 23 سال تھی۔نواب صاحب کی علمداری میں
پاکپتن، دریائے راوی کے ساتھ ساتھ تلمبہ تک اور پنجند، جلال پور پیر والا،
آدم وان،،لڈن سمیت نیلی بار کا علاقہ،دریائے چناب کے دونوں کناروں کا
علاقہ،رنگ پور تک،دریائے سندھ اور دریائے چناب کا درمیانی علاقہ یعنی سیت
پور اور علی پور، ایسے ہی مظفر گڑھ اور خان گڑھ شامل تھے۔ نواب مظفر خان نے
1794ء میں موجود شہر (مظفر گڑھ) کے مقام پر قلعہ،مسجد اور قعلے کے اندر
رہائشی مقامات بنوائے اس لیے نواب مظفر خان کی نسبت سے اس کو مظفر گڑھ کا
نام دیا گیا۔مظفر گڑھ کا مطلب مظفر کا قلعہ۔ مظفر گڑھ قلعے کے چار دروازے
بنائے گئے۔مشرق میں ملتانی دروازہ، مغرب میں بصیرہ دروازہ، شمال میں عمر
فاروق دروازہ(ریلوے ردوازہ)،جنوب میں عثمان غنی دروازہ جس کو خان گڑھی
دروازہ بھی کہتے ہیں۔
2 جون سقوطِ ملتان اور نواب مظفر خان اور انکے جانثاروں کا عظیم دن
ہے۔رنجیت سنگھ ملتان کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔
اور اپنے خواب کی تکمیل کیلیے 1802ء میں اس نے ملتان پر حملہ کیا۔ اس کی
فوج نے ملتان کا محاصرہ کیا لیکن نواب مظفر خان نے اور انکے جانثاروں نے
دشمن کے مورچے اکھاڑ دیے۔اور دشمن کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر
چار سال رنجیت سنگھ نے ملتان کی طرف منہ نہ کیا لیکن نواب کو شکست دینے کے
منصوبے میں لگا رہا۔ چار سال بعد 1806ء میں پھر رنجیت سنگھ کی فوجوں نے
ملتان پر حملہ کیا لیکن اس بار بھی ان کو شکست نصیب ہوئی۔ اگلے سال یعنی
1807ء میں اس نے پھر حملہ کیا مگر اسے پھر بھی فتح نصیب نہ ہوئی۔ اسی دوران
رنجیت سنگھ نے پیام بھیجوایا کہ ڈھائی لاکھ روپے اور پانچ سو گھوڑے ہمیں
دیے جائیں اور ملتان شہر اور قلعہ سکھوں کے حوالے کردیا جائے۔تب نواب مظفر
خان اسکے خاندان اور جانثاروں کی جان بخش دی جائے گی۔
مگر نواب مظفر خان ایک نیک اور بہادر انسان تھے۔انکی خواہش تھی وہ
قاضی،غازی اور شہید کہلائیں۔رنجیت سنگھ کو پچھلے تین حملوں میں شکست دے کر
قاضی و غازی تو بن چکے تھے۔ اب خواہش شہادت کی تھی اور اپنے لوگوں سے محبت
تھی۔دائرہ دین پناہ کا نواب عبدالصمد رنجیت سنگھ سے ہاتھ ملا چکا تھا۔اور
ایسے ہی قصور کے نواب قطب الدین نے بھی رنجیت سنگھ کا ساتھ دیا اور رنجیت
نے اس کو اپنا وکیل بنا کر نواب مظفر خان کے پاس بھیجا۔جب نواب قطب الدین
مظفر خان کے پاس پہنچا تو نواب صاحب نے تاریخی الفاظ کہے
''ملتان میری یا میرے باپ دادا کی ملکیت نہیں۔یہ اسلامی مملکت ہے،اور میں
اس کا نگہبان اور پاسبان ہوں۔پاسبان کا کام حفاظتِ مال میں اپنی جان دینا
ہوتا ہے۔ملتان کسی کو نہیں مل سکتا۔ملتان کی چابیاں میرے پیٹ میں ہیں،اب جو
اس پیٹ کو پھاڑے گا وہ ملتان کا مالک ہوگا''۔نواب قطب الدین نے نواب مظفر
خان کا یہ جواب رنجیت سنگھ کو سنایا۔
1813ء، 1816ء، 1817ء، میں رنجیت سنگھ نے یکے بعد دیگرے حملے کیے لیکن شکست
اسکا مقدر بنی۔نواب مظفر خان اور اس کے بیٹوں یہاں تک کے بیٹی بھی اس جنگ
کا حصہ رہی۔نواب مظفر خان کے سات بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔نواز خان، ممتاز
خان، شہباز خان،اعزاز خان،حق نواز خان، سرفراز خان،ذولفقار خان اور بیٹی
بھاگ بھری بخت بھری۔رنجیت سنگھ پچھلے سات حملوں میں منہ کی کھا چکا تھا۔
اور بھاری شکست کا سامنا کرچکا تھا۔رنجیت سنگھ کو شکست قبول نہ تھی اس نے
پھر سے 1818ء میں پچیس ہزار فوجیوں کا نیا لشکر تیار کیا اور ملتان کی طرف
روانہ کردیا۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے آتے ہی عید گاہ اور حضوری باغ کی طرف سے
قلعے کا گھیراؤ کیا۔اس بار اس نے اپنے خاص خاص جرنیل سردار بھی لشکر کے
ساتھ روانہ کیے۔دیوان مصر چند، سردار شام سنگھ، جعفر جنگ اور سردار دیسا
سنگھ کے علاوہ ہری سنگھ نلوہ جیسے تجربہ کار اور شاطر جرنیل بھیجے۔ حملے
شروع ہوئے فصیلِ شہر پر شدید گولہ باری کی گئی جس کے سبب فصیل دو جگہوں سے
ٹوٹ گئی لیکن نواب مظفر خان نے دشمن کا بہادری سے مقابلہ کیا اور سکھوں کو
اس راستے سے نہ آنے دیا۔نواب صاحب کے پاس صرف دو ہزار جوان تھے جو کہ رنجیت
سنگھ کے پچیس ہزار جنگجو کے مقابلے کے میں کم تھے۔ لیکن پھر بھی جذبہ شہادت
اور جذبہ ایمانی سے لڑتے رہے۔ایک ماہ گزر گیا لیکن نہ رنجیت سنگھ کو فتح
ہوئی نہ نواب مظفر خان نے ہتھیار ڈالے نہ ہی کوئی پیش کش قبول کی۔ رنجیت
سنگھ کے 1800 فوجی مارے گئے لیکن ابھی انکو تعداد کا نشہ تھا۔اب رنجیت سنگھ
نے چال چلی لوگوں کو رشوت اور انعام کے ذریعے قلعے سے فرار کروانا شروع
کردیا۔باقی نواب مظفر خان کے ساتھ تین چار سو جانباز رہ گئیتھے۔رنجیت سنگھ
نے ایک بڑے حملے کی تیاری شروع کردی۔آخر کار ایک بھر پور حملہ کیا گیا
سینکڑوں توپوں کے منہ کھول دیے گئے۔ہر سو توپوں کی دھوں اندھار تھی۔
2 جون 1818ء کو سکھوں نے قعلے کی دیواروں کو عبور کرلیا۔نواب مظفر خان اور
اسکے فرزند اور جانثار اب بھی اسی بہادری کے لڑتے رہے۔
لڑتے لڑتے مظفر خان اور اسکے بیٹوں نے جام شہادت نوش کیا۔دو بیٹے سرفراز
خان اور ذولفقار خان کو رنجیت سنگھ اپنے ساتھ لے گیا۔
شجاع و ابنِ شجاع حاجی
امیرِ ملتان زہے مظفر
بروز میدان بر تیغ و بازو
چہ حملہ آورد چوں غضنفر
چوں سر خرو شد بسوئے جنت
بگفت رضوان بیا مظفر
2 جون کو ہم ان بہادر اور وطن کے وفاداروں کو سلام پیش کرتے ہیں۔اور انکو
انکی جان نچھاوری پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔۔
|