زندگی کی حقیقت

تحریر:کرن عصمت ماہم
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
سوال یہ ہے کہ زندگی کسے کہتے ہیں؟ زندگی فارسی زبان سے لیاگیا لفظ ہے۔مطلب اس کا حیات،جیون یا عمر ہے۔یہ تو ہوئے اس کے لغوی معنی۔ اصطلاح میں آپ اسے احساس سے مشروط کر سکتے ہیں۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی احساس کا نام ہے۔ آپ سانس لیتے ہیں،آپ درد محسوس کرتے ہیں،آپ خوش ہوتے ہیں،آپ کو بھوک لگتی ہے،پیاس لگتی ہے،آپ روتے ہیں، ہنستے ہیں، یہ سب زندہ ہونے کی علامتیں ہیں۔ آپ یہ سب باتیں محسوس کرتے ہیں اسی کا نام زندگی ہے۔ زندگی کی راہ گزار پر ہونے والے واقعات، تجربات اورمشاہدات زندگی کو تلخ یا خوشگوار بناتے ہیں۔ہر منظر اور ہر عمل اپنے اندر ایک بو قلمونی اور رنگینی رکھتا ہے اور یہ رنگینی انسانی رویے اور فکر و عمل کا مجموعہ ہے۔زندگی انسانی رویوں کے مناظر کا احوال ہے۔آنکھوں دیکھے،کانوں سنے واقعات، خود پر بیتے لمحات اور روزمرہ کے مشاہدات مل کر زندگی کو بناتے ہیں۔ انسان پر اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ زندگی دے کر اسے سب سے عظیم روشنی اور ہدایت کے سر چشمے سے فیض یاب کرنے کے لیے شروع ہی سے شادکام کیا گیا۔اسے اس سفر میں تاریکی سے نکال کر روشنی مہیا کی گئی اور پھر یہ اختیار دے دیاکہ وہ اس کا صحیح استعمال کر کے تاریکی اور کفر کے مہیب سایوں سے بچا رہے۔دراصل یہ سانسیں اسی مہلت کا نام ہیں کہ انسان دنیا میں اپنا کردار اﷲ کی دی گئی صلاحیتوں اور اختیار کو ٹھیک استعمال کرتا ہے تو پھر روشنی کا یہ سفر دنیا کی زندگی کو ہی منور نہیں کرے گابلکہ ابدی زندگی بھی روشن اور تابناک ہو گی اور نہیں کرے گا تو پھر دنیا و آخرت دونوں میں اس کے نتا ئج بھگتنے ہوں۔ گے۔ علامہ اقبالؒ نے خوب کہا:
ؔؔعمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

انسان اس زمین پر بے مقصد نہیں بھیجا گیا وہ اﷲ کا خلیفہ اور اس کا نمائندہ ہے اسے علم و اختیار کی قوت دی گئی اور ہدایت و راہنمائی بھی مہیا کی گئی تاکہ وہ زمین پر اﷲ کی مرضی کو پورا کرے۔اپنی زندگی کو بھی نور الہیٰ سے منور کرے اور دوسروں کی زندگی کو بھی اس سے روشن کرے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی بنانا اور انسانوں میں رب کی عبادت،باہم محبت و الفت اور حقوق کی پاسداری،معاشرہ میں عدل و انصاف،اخوت و رواداری اورمساوات کا فروغ اس کا مقصد اور کامیابی کا معیار ہے۔اﷲ کے نبی ﷺنے انسانوں کے لیے زندگی کا جو لائحہ عمل دیا اسکا خلاصہ یہی ہے کہ ایک طرف بندہ اپنے رب کا فرمانبردار اس کی رضا میں راضی ہو جاتا ہے۔دوسری طرف اس کی ا پنی زندگی اچھائیوں کی جستجو اور پھر ان کی برکتوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔پھر اﷲ فرماتا ہے:
ترجمہ:’’اے نفس مطمئن چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے نیک انجام سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔‘‘یہی اس عارضی زندگی کی حقیقت ہے
 

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 73135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.