چراغ راہ

تحریر: طیبہ ثناء

بھوک کی شدت سے بلکتی آنتیں اور زندگی کے امتحان اس کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ عارضی تکلیفوں کو جھیلتی ایک عام سی نہ سمجھ لڑکی کچھ ہی عرصے میں اس بھاگتی دوڑتی دنیا سے بہت کچھ سیکھ رہی تھی۔

جب بھی کوئی پریشانی آتی تو اس کو شدت سے احساس ہوتا کہ اس کا کون ہے؟ لیکن دل کے تہ خانے میں سے آواز آتی '' میں '' ہوں ناں۔۔''یعنی اللّٰہ'' ہے نا اس کا۔ اس سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے؟

آنکھوں میں امید کا دیا جب بھی بجھنے لگتا تو وہ پھر ٹوٹتی ہوئی رسی کی طرح، ’’امید‘‘؛ کا سرا پکڑ لیتی اور اپنے آپ سے ہم کلام ہوتی کہ اس کو ہار نہیں ماننی، بارہا سوچتی کہ کاش اللّٰہ نے موت کو حلال کیا ہوتا مگر پھر منفی سوچوں سے جان چھڑانے کے لئے تگ ودو بھرپور انداز میں کرتی اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو جاتی۔ اور کہتی کہ اسے زندگی کی آزمائشوں سے لڑنا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ، '' ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ ایک اور مقام پر یہ ارشاد فرماتے ہیں ''ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے''
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

اپنے پیاروں کی خوشیوں کے لئے ہر غم کو ہنس کر سہہ لینے والی لڑکی، تھک رہی تھی۔۔۔ پر اس کے والدین کا ساتھ اس کے لیئے جینے کی امنگ تھا۔ وہ دنیا سے لڑنے کی ہمت رکھتی تھی پر اپنوں سے لڑنے کا مطلب وہ اچھے سے سمجھتی تھی۔

یہ حقوق کی جنگ تھی یا پھر اچھی زندگی اور جائز خواہشات کے حصول کی جنگ۔۔۔۔مگر اسے پتا تھا، اس نے تپتی ہوئی دھوپ میں چلنا ہے جہاں شاید اس کا سایہ بھی اس کا ساتھ دینے سے کترا رہا تھا۔۔۔پر بہتر مستقبل کی خاطر زیست کے کانٹوں کو پھول سمجھ کر اپنا سفر تہہ کرنے لگی۔

اس کی زندگی میں ایسے بھی تلخ دن آئے جب اس نے بھوک کی شدت کو پاگلوں کی طرح برداشت کیا کہ اس کے کمرے میں موجود ساتھی باہر سے کھانا آرڈر کرتے تھے اور ہاسٹل کی انتظامیہ مزے مزے کے لزیز پکوان بناتی تھی اور اس کے برعکس میں ۔۔۔۔'' وہ '' ان کے کھانے کی خوشبو کو اپنے وجود میں اتار کر اپنے بھوک سے بلکتے معدے کو بھرتی تھی۔

کسی کی ترس بھری نظریں اور پھر اسی انسانیت اور ہمدردی کے اٹوٹ رشتے سے اسے تین دن بعد ایک روٹی اور تھوڑا سا آلو والا سالن دے دیا جاتا جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شکریہ کے ساتھ قبول کر لیتی تھی اور پھر اس روٹی کو تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے معدے میں ڈالتی تھی کہ پھر نہ جانے کتنے وقت بعد رزق نصیب ہو۔ منہ میں جاتا لقمہ اور بے بسی کی حد کو چھوتا ہوا آنسوؤں کا پھندا۔۔۔ اس کو بے چین کیئے دیتا اور وہی الفاظ اور ماضی قریب کے واقعات اس کی ذات کو بظاہر ہلا کر رکھ رہے تھے مگر وہ پگلی یہ اچھے سے سمجھ چکی تھی کہ یہ وقتی آزمائشیں ہیں جو اس کو مستقبل کے لیئے ایک مضبوط اعصاب والی لڑکی بنانے کے در پہ ہیں ۔
ایک کے بعد ایک مشکل اس کے ارادوں کو خاک میں نہ ملا سکی۔ تعلیم حاصل کرنے کی چاہ میں اور اپنے والدین کی امیدوں کو پورے کرنے کی کوشش اسے ہر دن نئی جینے کی امنگ دیتی کہ خزاں کا روپ دھارتی اس کی زندگی، آس کی راہ کو نہ چھوڑتی اور وہ انہیں مایوس کن وقت کی رفتار کو پیچھے دھکیلتے ہوئے جشن بہاراں کا گھیراؤ کرنے لگی کیونکہ وہ اس بات سے آشنا تھی کہ اگر اس نے ابھی ہمت ہار دی تو شاید ہی وہ کبھی اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ تبھی خاموشی کی چادر کو اوڑھ کر، صبر کے کڑوے گھونٹ پی کر اور اپنے مقصد کو اپنی نظروں کے سامنے رکھتے ہوئے ہر آگ کا دریا پار کرنے کے لیئے ذہنی طور پر تیار تھی۔

اس کی عزت نفس پر جو چوٹ اس کے اردگرد کے لوگوں نے لگائی تھی شاید ہی یہ گھاؤ عمر بھر بھرتا۔ وہ اپنے خول میں ہی بند ہو گئی تھی۔ سب کے سامنے مسکراہٹ لبوں پر سجا لیتی پر آنکھیں اس کی تمام کہانیاں عیاں کردیتی تھیں۔ اس کی آنکھوں کے درد کو صرف وہی سمجھ سکتے تھے جو اس کی آزمائشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس کے لیئے بہتری کی دعا کرتے تھے۔

اس نے سوچ لیا تھا، زندگی کے ان کٹھن لمحات میں سب کو ہنس کر دکھائے گی اور اپنے آنسو سب سے چھپا لے گی۔۔۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس نے ایسا کر کے دکھا دیا۔۔۔دنیا کے سامنے وہ کھلی کتاب تھی پر اب ایسا ہرگز نہیں تھا۔۔۔اب وہ لڑکی وہ نہیں رہی تھی۔

اپنے آپ کو اعصابی طور پر مضبوط کرتی اور ہر دن نئی امید سے جیتی کہ ''سب ٹھیک ہو جائے گا''۔۔۔جانتی تھی کہ یہ وقت، وقتی ہے۔۔۔پر نہیں جانتی تھی کہ ابھی امتحان اور بھی باقی ہیں۔ جن کو وہ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھتی تھی انہی لوگوں نے اسے زیست کی تلخیوں سے روشناس کروایا اور بتلایا کہ جب سانس یعنی روح زندگی کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے جسم اور روح کا رشتہ جدائی کا مزہ جکھتا ہے تو جو لوگ آپ کو اپنی زندگی کہتے ہیں درحقیقت وہ بھی کبھی نہ کبھی زندگی کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ارشاد ربانی ہے۔۔۔''کل من علیہا فان'' ہر شے فانی ہے۔۔۔ باقی رہنے والی صرف اس رب کی پاک ذات ہے۔۔ زندگی کا زندگی کے ساتھ رشتہ ایک نا ایک دن ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔۔۔ کسے معلوم؟ کہ ان آتی جاتی سانسوں کی مالا کب ٹوٹ جائے۔۔۔بہت ہی بے اعتبار شے ہے یہ زندگی۔۔۔
میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں، کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر

زندگی بھی ایک محاذ کا نام ہے، کچھ لوگ ہمت ہار جاتے ہیں اور کچھ لوگ ان لمحات میں جی کر اور ان حالات سے آنکھ سے آنکھ ملا کر حیات کی تکالیف کو باور کرواتے ہیں کہ ان کی امید کا چراغ یہ عارضی آزمائیشیں نہیں بجھا سکتی۔ مشکل وقت میں ساتھ نبھانے والے اور ساتھ ہونے کے باوجود بھی بے حسی کا مظاہرہ کرنے والوں کی اکثریت ہمارے معاشرے میں عام طور پر ہر گھر اور تقریباً ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔۔۔
منزل ان کو ملتی ہے جن کے سپنوں میں جان ہوتی ہے
پروں سے کچھ نہیں ہوتا حوصلوں سے اڑان ہوتی ہے

توکل ہی انسان کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے جواب شکوہ میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ نے ہم سبھی کو یہی درس دیا ہے کہ اللّٰہ سے مانگو اور بار بار مانگو۔ مایوسی کی چادر کو اپنے اوپر نہ تانو بلکہ اسے اتار پھینکو اور صرف امید وابستہ کر لو اپنے خالق حقیقی سے جو مختار ہے اس دو جہاں کا اور اس سے زیادہ تمہارے قریب کوئی نہیں۔ وہی سنتا ہے جانتا ہے اور لوگوں کی چالوں کو پہنچانتا ہے اور تمہیں بچا لیتا ہے شریوروں کے شر سے اپنی حکمت و فضل سے۔ شاعر مشرق کیا خوب فرماتے ہیں کہ،
سر کو پٹخ کر کیوں رو رہا ہے
ہم نے تو دینے کا وعدہ کیا ہے۔۔
ہم نے تو دینے کا وعدہ کیا ہے
ارے آ آ ادھر آ
تو پھر مانگ پھر مانگ۔۔۔
اس نے حالات سے پریشان ہو کر بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے تھے اور نہ ہی پھیلانے کی ہمت رکھتی تھی کیونکہ وہ مر تو سکتی تھی مگر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ زندگی کی آزمائشوں تلخیوں اور وقت کے تھپیڑوں نے اسے یہ سبق دیا کہ اگر کامیاب انسان بننا ہے تو اپنے مقصد کے حصول کے لئے شب و روز سخت محنت کرنا ہوگی اور وہ دن دور نہیں ہو گا جب وہ اپنی منزل کو پا لے گی۔۔۔
پیوستہ رہ شجر سے امید ِ بہار رکھ
 

Sarah Omer
About the Author: Sarah Omer Read More Articles by Sarah Omer: 15 Articles with 12574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.