نشہ بازوں نے جہاں پاکستان کو لوٹا وہی پر پاکستانی عوام
کو بھی مفلوج اور لاچار کردیا آج ہمارے دیہاتوں سے لیکر بڑے سے بڑے شہروں
تک منشیات فروش اپنی جڑیں مضبوط کرچکے ہیں یہاں تک کہ ہمارے تعلیمی اداروں
میں بھی نشہ کی لعنت پہنچ چکی ہے لاہور کی مال روڈ سے لیکر کراچی سے خیبر
تک منشیات فروشی اپنے عروج پر ہے اہم شاہراہوں پر بڑے بڑے ہوٹل اور چھوٹے
چھوٹے چھپر ہوٹل پر بھی آپ کو منشیات با آسانی مل سکتی ہے پاکستان میں نشہ
کا کاروبار کیوں اتنی تیزی سے پھیلا اسکی بہت سی وجوہات ہیں مگر دو سب سے
بڑی اور اہم ہیں ایک تو پولیس کی سرپرستی اور دوسری محکمہ صحتکے عملہ کی
ملی بھگت ان دونوں محکموں کی آشیر باد سے منشیات فروش ہماری گلی محلوں سے
ہوتے ہوئے بڑی بڑی یونیورسٹیوں تک پہنچ گئے آج ہی کی بات ہے جی ہاں بلکل
تازہ تازہ خبر بھی ہے کہ کراچی میں منشیات فروشوں کی سرپرستی پر ایس ایس پی
کیماڑی نے ڈاکس تھانے کے ایس ایچ او سمیت 14 افسران و اہلکاروں کو معطل
کردیا ، کارروائیوں کے دوران خواتین سمیت پانچ ملزمان کو گرفتار کرکے بھاری
مقدار میں منشیات اور نقدی برآمد کرلی۔ ایس ایس پی کیماڑی فدا حسین جانوری
کے مطابق انھیں انٹیلی جنس اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ ڈاکس تھانہ منشیات
فروشوں کی سرپرستی کررہا ہے، جس پر ایس پی بلدیہ اور اے ایس پی کیماڑی کی
زیر نگرانی ٹیمیں بنا کر کارروائی کی گئی، تو پولیس اہلکاروں میں منشیات
فروشوں کی سرپرستی ثابت ہوگئی، جس پر ایس ایچ او ڈاکس آغا اسلم درانی سمیت
14 افسران و اہلکاروں کو معطل کرکے ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز
کردیا گیا ہے اب تو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پولیس منشیات
فروشوں کی سرپرست ہے لاہور میں جی ٹی روڈ پر پولیس والے خود منشیات فروخت
کرتے ہیں جبکہ محکمہ صحت کے ڈرگ انسپکٹرز بھی نشہ فروخت کرنے والوں سے اپنا
حصہ وصول کرتے ہیں لاہور کی مال روڈ کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے یہاں پر
نشہ کرنے والوں کی بھر مار ہے مال روڈ وہ جگہ ہے جہاں بہت ہی حساس نوعیت کے
دفاتر ہیں پنجاب اسمبلی ہے جہاں پر آجکل عوامی نمائندوں کا اجلاس چل رہا ہے
پورے پنجاب سے آئے ہوئے اراکین اسمبلی جب مال روڈ سے گذرتے ہونگے تو لازمی
انکی انظر فٹ پاتھ پر لیٹے ہوئے نشئی افراد پر پڑتی ہوگی مگر کیا مجال جو
کبھی کسی کے کان پر جوں تک بھی رینگی ہو یہ نوجوان ہمارا مستقبل ہے ہمارا
اثاثہ ہیں جو آج فٹ پاتھوں پر نشہ کے انجیکشن اور گولیاں کھا کر بے سدھ پڑے
ہوئے ہیں میں چیلنج کرتا ہوں تمام حکومتی اداروں کو کہ وہ پنجاب کے میڈیکل
سٹوروں پر جاکر نشہ کی کولیاں اور انجیکشن طلب کریں انہیں فورا مل جائیں گے
ان میڈیکل سٹوروں پر نشہ کی ادویات محکمہ صحت کے کارندوں کی سرپرستی میں
فروخت ہورہی ہیں ہماری نوجوان نسل ان ٹیکوں سے تباہ و برباد ہورہی ہے مجال
ہے کسی کو کوئی پراہ ہوبعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جان
بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل عقل و شعور سے پیدل ہو
جائے انہیں صرف نشہ کی طلب ہو اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے مختلف اداروں
میں بیٹھے ہوئے افراد اپنی سرپرستی میں یہ کام کرتے رہیں اور ملک میں نشہ
جیسے کاروبار کو فروغ دیں میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پنجاب نشہ کی لعنت کو
ختم کرنے کے لیے اپنی پوری کوششیں کررہی ہے ان حالات میں ایک خوش خبری بھی
آئی ہے کہ ڈرگ ایکٹ1976میں ترمیمی آرڈیننس کے بعد پہلا بڑافیصلہ سامنے آیا
ہے چیئرمین ڈرگ کورٹ محمد نوید رانا کی عدالت میں میڈیکل سٹور پر نشے کے
انجکشن کی فروخت سے متعلق کیس زیر سماعت تھا جس میں میڈیکل سٹور پر نشے کے
ا نجکشن کی فروخت پرمیڈیکل سٹور مالک محمد ارشد کو10سال قید،2کروڑ50لاکھ
جرمانیکی سزا سنادی گئی جرمانہ ادا نہ کرنیکی صورت میں مزید ایک سال قید
بھگتنا ہوگی کوالیفائیڈ پرسن عبدالوہاب کو3سال قید،5لاکھ جرمانے کی
سزا،جرمانہ ادا نہ کرنیکی صورت میں مزید 6ماہ قید ہوگی، سیل مین محمد نثار
کو 2جرم میں 7سال قی،2کروڑ 55لاکھ جرمانہ جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت
میں مزید 6ماہ قید بھگتنا ہوگی، احمد علی کو2الزامات میں10سال قید،2کروڑ
35لاکھ جرمانہ جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 1سال قید
ہوگی۔اویس رضا کو2الزمات میں 10سال قید،2کروڑ 35لاکھ جرمانے کی سزا سنائی
گئی ۔میں سمجھتا ہوں کہ منشیات کے کاروبار کو روکنے کے لیے ایسی ہی سزاؤں
پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے نہ صرف منشیات فروشوں کے خلاف سخت ایکشن ہو بلکہ
ایسے گھناؤنے کاروبار کرنے والوں کی سرپرستی کرنے والوں کو نوکری سے فارغ
کیا جائے کیونکہ ہمارے ڈرک انسپکٹر اور پولیس والے صبح سے شام تک پیسے
اکھٹے کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں اب تو ہماری پولیس کے جوانوں کی تنخواہیں
بھی بہت بہتر ہیں جبکہ انکے مقابلے میں ہماری جیلوں میں تعینات بھی پولیس
کے ہی ملازم ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ یہ جیل کے اندر رہتے ہیں اور دوسری
پولیس والے جیل سے باہر ہوتے ہیں ایک ملزم پکڑتے ہیں اور دوسرے انکی حفاظت
کرتے ہیں پکڑنے سے کہیں زیادہ انکی حفاظت کرنے والے اہم ہیں جنکی تنخواہیں
بہت ہی کم ہیں جیل میں آکر ملزم کو توبہ تائب ہوجانا چاہیے اپنے گناہوں کی
معافی مانگنی چاہیے اور باہر آکر اپنی زندگی کو اﷲ تعالی کے بتائے ہوئے
سیدھے راستہ پر گامزن کردے مگر جیلوں میں رہنے والے باہر آکر زیادہ ہوشیاری
اور چالاکی سے جرائم کی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں اسی لیے تو جیلوں کو جرائم
کی یونیورسٹیاں کہا جاتا ہے اور یہاں پر مجرموں کی نرسریاں کام کرتی ہیں یہ
نرسریاں اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک جیل کا ملازم خوشحال نہیں ہوجاتا
اس پر تفصیلی کالم پھر لکھوں گا ابھی تو صرف اتنا ہی کہ منشیات فروشوں کے
ساتھ ساتھ انکی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جائے جس طرح
سندھ پولیس نے کیا ہے ۔
|