دنیائے ادب کے ممتازاور انمول لکھاری محمد فاروق عزمی

انسان بظاہر تو سب ایک ہی جیسے نظر آتے ہیں لیکن جب ان کی تحریروں کو پڑھنے ،سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے، تب پتہ چلتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے اور وہ کتنا اچھا لکھاری ہے ۔اس وقت میں ایک ایسے لکھاری کو متعارف کرنے کی جستجو کررہا ہوں ،جو دیکھنے میں تو انتہائی سادہ اور پروقار دکھائی دیتے ہیں لیکن جب ان کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں تو ان کے قلم سے نکلا ہوا ہر ہر لفظ اپنی معنویت اور خوبصورتی کی کہانی خود سناتا نظر آتا ہے ۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ وہ میرے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں۔ ان کی رہائش شاہ تاج کالونی جبکہ میری رہائش ایک عام سی بستی "قادری کالونی" میں ہے ۔جو والٹن روڈ اور ڈیفنس کے درمیان میں واقع ہے ۔جناب فاروق عزمی 27سال دیار غیر یعنی متحدہ عرب امارات میں قیام کرنے کے بعد چند سال پہلے ہی پاکستان تشریف لائے ہیں۔ عمومی طور پر حالات حاضرہ پر ہی ان کے کالم"روزنامہ خبریں"میں باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں اور قارئین سے پذیرائی حاصل کررہے ہیں۔ جبکہ ان کے تفصیل مضامین ، شہزاد چودھری کی ادارت میں شائع ہونے والے مقبول عام میگزین "مارگلہ نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد " میں تسلسل سے شائع ہوتے ہیں ۔ اس مقبول ترین جریدے میں ان کے کتابوں پر تبصرے بھی اکثر نظر نواز ہوتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہمارے دوست ہیں اور ان کی دوستی پر ہمیں بلاشبہ ناز ہے ۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ جناب محمد فاروق عزمی تحریر و تالیف کی دنیا میں اس قدر مقبول ہیں کہ ان کی تینوں کتابیں ،دنیائے ادب میں مقبولیت کی معراج پر نظر آتی ہیں ۔ان کا دل دکھی انسانیت کی محبت سے لبریز ہے،وہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر نہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کی تحریریں مسلمانوں کے مسائل اور پریشانیوں کا ہمیشہ اجاگر کرتی نظر آتی ہیں ۔ وہ جس موضوع پر بھی لکھنا چاہتے ہیں ،اپنے قلم کو حکم دیتے ہیں اور وہ قلم سیاہی خشک کیے بغیر کچھ اس رفتار سے چلتا ہے کہ ایک نہیں ،دو نہیں، ماشا اﷲ تین کتابیں ( سانحہ احمد پور شرقیہ ، مسلمانوں کی قتل گاہ ....برما، رقص بسمل )لکھی جا چکی ہیں ۔آیئے ان کی تینوں کتابوں کا مختصر جائزہ لیں ۔

"سانحہ احمد پور شرقیہ " محمد فاروق عزمی کی پہلی کتاب ہے ۔ فاروق عزمی عرض مصنف میں لکھتے ہیں "کہ-:اﷲ رب العزت نے مجھے ایسا دل عطا کیا ہے جو دوسروں کو دکھ اور تکلیف میں دیکھ کربے اختیار تڑپ اٹھتا ہے ۔سانحہ احمد پور شرقیہ ایسا دردناک اور المناک واقعہ ہے کہ میں پہروں ان کرب ناک مناظر کا تصور کرکے لرزتا رہاہوں کہ کس طرح آنا فانا زندہ لوگ راکھ کا ڈھیر بن گئے اور ان کی شناخت تک ممکن نہ ہوسکی۔ آگ نے کس طرح ان کو جلایا ہوگا ۔وہ کس قدر اذیت اور کرب سے گزر کر موت کے منہ میں چلے گئے ۔اسی خیال اور تصور نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ۔"

سانحہ احمد پور شرقیہ کے حوالے سے مصنف کے جذبات اپنی جگہ قابل قدر ہیں کیونکہ وہ ایک حساس دل کے مالک ہیں جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ تصور کرکے آنسو بہاتے ہیں لیکن اس حقیقت سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے میں سانحہ احمد پور شرقیہ جیسے کتنے ہی واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن نہ آئل ٹینکروں کو الٹنے سے روکا جا سکا ہے اور نہ لوگوں کو روکا جا سکا کہ وہ بالٹیاں لے کر ایسے خطرناک مقام پر نہ جائیں جہاں ٹینکر سے تیل دھار کی شکل میں بہہ رہا ہو۔جھنگ شہر میں بھی ایسا ہی ایک سانحہ رونما ہوا تھا جہاں ایک آئل ٹینکر سے تیل لیک ہونے لگا تو لوگ تیل حاصل کرنے کے لیے برتنوں کو اٹھائے موقع پر پہنچ گئے اور جس کو جتنا تیل میسر آیا وہ بھرا ہوا برتن لے کر اپنے اپنے گھروں کو کچھ اس طرح جاپہنچے کہ تیل قطروں کی صورت میں ان کے گھروں تک زمین پر گرتا چلا گیا ۔پھر سانحہ احمد پور شرقیہ کی طرح وہاں بھی ایک سگریٹ نوش شخص تماشا دیکھنے آیا اور کچھ دیر تک تو وہ کش لگا تا رہا پھر جب سگریٹ ختم ہونے کے قریب تھا تو اس نے سگریٹ کا سلگتا ہوا ٹکڑا اس جگہ پھینک دیا جہاں زمین پر تیل پھیلا ہوا تھا ۔ سگریٹ کا سلگتا ہوا ٹکڑا گرنے کی دیر تھی کہ آگ نے نہ صرف وہاں جمع ہونے والے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ان میں سے کوئی بھی بھاگ نہ سکا ، بلکہ جس جس گھر میں بالٹیوں اور برتنوں میں بھر کر تیل لایا گیا تھا،تیزی سے پھیلتی ہوئی آگ ان گھروں تک پہنچ گئی ۔ پھر ایک ایسا کہرام مچا کہ خدا کی پناہ ۔ گھروں کے ساتھ ساتھ وہ تمام افرادزندہ جل گئے جو اس وقت گھروں پر موجود تھے۔ چند منٹوں میں سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن گیا ۔سانحہ احمد پور شرقیہ بھی اس سے ملتا جلتا سانحہ ہی تھا جہاں ایک سگریٹ نوش کی حماقت کی وجہ سے بیشمارزندہ لوگ جل گئے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم جانی و مالی نقصان بھی اٹھاتے ہیں اور بہت جلد ایسے حادثات کو فراموش کرکے نئے سانحات کا سامنا کرنے کے لیے تیا ر ہوجاتے ہیں۔سبق ہم پھر بھی حاصل نہیں کرتے ۔ اﷲ ہم پر رحم فرمائے ۔سگریٹ نوش ہر اس جگہ کھڑے ہوکر سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتے دکھائی دیتے ہیں جہاں پٹرول سے بھری بائیک یا گاڑی کھڑی ہے،اکثر لوگ تو ڈرائیونگ کے دوران بھی اپنا شوق پورا کرنا نہیں بھولتے۔

...............
ان کی دوسری کتاب کا نام "مسلمانوں کی قتل گاہ ........برما " ہے۔بظاہر یہ کتاب برماکے مسلمانوں پر بیتی جانے والی ظلم کی داستانوں کا ایسا مجموعہ ہے، جسے پڑھ کر کوئی بھی باضمیر انسان خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ انسان اس قدر بھی سنگ دل ہوسکتا ہے کہ روہنگیامسلمان بچوں ، عورتوں اور مردوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے ہیں ،جن کے بارے میں پڑھ کر بھی انسان خون کے آنسو رونے لگتا ہے ۔ محسن پاکستان اور پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں(نشان امتیاز اینڈ بار ،ہلال امتیاز) اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں فاروق عزمی نے برمی مسلمانوں کے درد ناک اور تشویش ناک حالات کا انتہائی عرق ریزی سے جائزہ لیا ہے کہ کہ یہ کتاب، دنیا کے منصفوں اور امن آشتی کے دعویداروں کے لیے آئینہ تمثال ہے۔ میانماری اور روہنگیائی مسلمان لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوچکے ہیں اور ہزاروں مسلمان بچے عورتیں اور مرد شہادت سے سرفراز ہوچکے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان مزید لکھتے ہیں کہاں ہے کپل وستوکا شہزادہ سدھارتھ گوتم ؟ جس نے انسان دوستی کے لیے تخت وتاج چھوڑا اور سادھو سنت ہوا اور راستی کا نروان پایا ۔آج اس کے دیس کے باسیوں کو برما کے مسلمان اقلیت کے جلتے ہوئے لاشے کیوں نظر نہیں آتے ؟۔ اور گوتم کے اوتار دلائی لامہ کے وہ الفاظ کیوں سنائی نہیں دیتے ،جس میں لامہ نے میانماری حکومت اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کا قتل عام بند کرایا جائے ۔

...................
مصنف کی تیسری کتاب" رقص بسمل" ہے ، اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں فاروق صاحب لکھتے ہیں کہ" میرے چاروں طرف وحشتیں ناچتی ہیں ،میری روح زخمی ہے ۔ میں غموں ،دکھوں اور محرومیوں کی ایک فائل، داخل دفتر کرتا ہوں تو ایک نئی آگ ، ایک نیا نشتر ، ایک نئی چھبن ، ایک نیا زخم میرے دامن گیر ہوجاتا ہے، بدن کے قفس میں احساس ،زخمی پرندے کی طرح تڑپنے لگتی ہے ۔سو میں زیست کے تانوں بانوں میں الجھ کر رہ جاتاہوں ۔ مجھے پاکستان سے والہانہ محبت ہے، یہ محبت مجھے توڑ کر رکھ دیتی ہے ۔میرے اند ر باہر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ رہا ہے ، اور میں بکھرتا چلا جاتا ہوں ۔ یہ اداسیاں ،پریشانیاں اور اضطراب اپنے "وطن " کے لیے ہیں ۔میرے چاروں طرف، غربت ، بے روزگاری ، بے برکتی ، ناانصافی ، دکھ درد اور محرومیاں پھیلی ہوئی ہیں ۔میں جب اپنے اردگرد ظلم و ستم ،جبر و زیادتی ، کمزوروں کا استحصال ، دھونس دھاندلی ،رشوت ،کرپشن اور بے راہ روی دیکھتا ہوں تو میری بے چینی میں حد درجہ اضافہ ہوجاتا ہے۔پھر یہ اداسیاں ،اضطراب اور دکھ میرے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں ،اس تکلیف دہ رقص کا دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ حتی کہ یہ دائرہ مجھے اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور میں الفاظ کے گھنگھرو باندھ کر اس رقص میں شامل ہوجاتا ہوں ۔میرے قلم سے جو الفاظ تھرکتے ہیں انہی لفظوں کا نام" رقص بسمل "ہے ۔ "

پاکستان میں بے شمار مسائل ہیں جن پر لکھنا ہر اس قلمکار پر لازم ہے جو وطن سے محبت کا دعوی رکھتا ہے۔"رقص بسمل "میری ان تحریروں کا مجموعہ ہے۔جو روزنامہ خبریں کے علاوہ مختلف اخبارات ،رسائل اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوتی رہی ہیں۔کتاب میں شامل ایک باب"کتابوں پر تبصرے" کے عنوان سے ہے۔جناب خالد اے مجید اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ جدید اردو لغت "فیروز اللغات "میں "رقص بسمل "کا مطلب ، ذبح کیے ہوئے جانور کا پھڑکنا ہے۔جبکہ مولوی سید احمد دہلوی نے "بسمل " کو بسم اﷲ ،اﷲ اکبر کہہ کر قربان کیا ہوا جانور ،گھائل ،مجروح ،زخمی ،عاشق مفتوں ،مبتلا ،مضطر، مشغوف محبت کے معنوں میں بیان کیا گیا ہے۔

جہاں تک کتاب "رقص بسمل " کا تعلق ہے اس کے ابتداء میں بطور خاص درود پاک کے حوالے چند احادیثیں اور واقعات جو درج کیے گئے ہیں۔ انہیں پڑھنے والے کے دل میں نبی کریم ﷺ کی محبت کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے ایسا روشن ہو گا جس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑے گی ۔اس حوالے سے میں چند واقعات کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔محمد فاروق عزمی ایک واقعے کا ذکر کچھ اسطرح کرتے ہیں -:حضرت ابراہیم نفسی ؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو آپ ﷺ مجھ سے ناراض نظر آئے۔میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور بوسہ لے کر پوچھا۔ اے اﷲ کے نبی ﷺ کیا ہم لوگ اصحاب سنت اور اہل سنت و جماعت میں نہیں ہیں تو آپ ﷺ نے مسکرا دیا اور فرمایا جب تم درود لکھتے ہو تو سلام کیوں نہیں لکھتے ؟چنانچہ اس کے بعد میں پورا درود وسلام لکھنے لگا۔(القول البدیع)

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھنے سے غافل تھا، ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ رسول اﷲ رﷺ نے اس کی جانب سے اپنا رخ انور پھیر لیا ۔خواب میں ہی اس شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا ۔یا رسول اﷲ ﷺ آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟ فرمایا نہیں ۔ اس شخص نے پھرا ستفسارکیا کہ آپ ﷺ نے نہ تو میری طرف نگا ہ التفات فرمائی اور نہ ہی مجھ سے کلام فرمایا۔آپﷺ نے فرمایا، میں تجھے نہیں جانتا ۔اس شخص نے عرض کیا حضور ﷺ میرے ماں باپ بھی آپ ﷺ پر قربان ہوں ،میں آپ کا امتی ہوں ۔آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے کبھی مجھ پر درود و سلام بھیجا ۔؟ خواب کا یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امت کی پہچان کثرت سے درود و سلام پڑھنے کے حوالے سے ہے ۔اس کے ساتھ ہی اس شخص کی آنکھ کھل گئی پھر اس نے خود پر لازم کرلیا کہ وہ روزانہ کثرت سے درود و سلام پڑھ کر آپ ﷺ کی بارگاہ رسالت میں بھیجے گا۔

ایک اور سبق آموز واقعے کا ذکر جناب فاروق عزمی کچھ اس طرح کرتے ہیں -:جب انگریزوں نے اسپین کو فتح کرنا چاہا تو انہوں نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہاں ایک جاسوس بھیجا ۔ جاسوس جب وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ آٹھ دس سال کی ایک بچی ہاتھ میں غلیل لیے مغموم صورت بنائے بیٹھی ہے ۔جاسوس نے اس بچی سے پوچھا بیٹی کیا بات ہے، آپ اتنی غمگین کیوں ہیں ؟ بچی نے جواب دیا میں ہر روز اس غلیل سے شکار کھیلتی ہوں تو کوئی نہ کوئی پرندہ شکار کرلیتی ہوں ۔آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ میں کوئی پرندہ شکار نہیں کرسکی ۔سوچ رہی ہوں مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ جاسوس وہیں سے واپس لوٹ آیا اور بتایا کہ اگر آپ اس وقت حملہ کرینگے تو منہ کی کھائیں گے کیونکہ جس ملک کی ایک کم سن بچی کے یہ خیالات ہیں تو بڑوں کے خیالات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ۔بہت سوچ بچار کے بعدانگریزوں نے وہاں گانے بجانے والے طائفے بھیجنے شروع کردیئے۔پانچ سال بعد انگریزوں نے اسی جاسوس کو پھر حالات کا جائزہ لینے کے لیے دوبارہ اسپین بھیجا ۔جاسوس جب وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک فوجی جوان اپنی تلوار ایک طرف رکھ کے ہاتھ میں گلاب کا پھول لیے سمندر کے کنارے اداس بیٹھا ہے ۔جاسوس نے اس فوجی سے پوچھا بیٹا کیا بات ہے آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟فوجی نے جواب دیا میری گرل فرینڈ نے 9بجے آنے کا وعدہ کیا تھا ۔اب ساڑھے نو ہونے والے ہیں وہ ابھی تک نہیں آئی ، اسی وجہ سے پریشان ہوں ۔ جاسوس وہیں سے واپس ہو لیا اور اہل وطن سے کہا کہ اب حملہ کردو تو اسپین فتح کرلو گے ۔انگریزوں نے اسپین پر حملہ کیا اور اسے فتح کرلیا ۔فاروق عزمی مزید لکھتے ہیں کہ یورپین ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر اسلامی ممالک پر قابض ہوکر غلبہ و تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں سے قرآن پاک اور ان کے نبی محمد ﷺ کی محبت کو نکا لنا ہوگا۔

قصہ مختصر جناب فاروق عزمی کی تینوں کتابیں اپنے تحریری مواد اور واقعاتی تاریخ کے اعتبارسے مسلم امہ کے سوئے ہوئے ضمیرکو جھنجھوڑ رہی ہیں ۔اگر وادی کشمیر میں بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں پر نت نئے مظالم ڈھا رہی ہے ،اگر برمی مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا ہے ،ان کے بچوں کو اذیت ناک موت سے ہمکنار کیا جا رہا ہے ، اگر بھارتی مسلمانوں پربھارت کے انتہا ء پسند ہندووں نے عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے اور مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں، اگر مسلمانوں کے قبلہ اول "بیت المقدس"میں نماز پڑھنے والے فلسطینی مسلمانوں پر یہودی پولیس اور فوج بے دریغ مظالم ڈھا رہی ہے تو اس کی وجہ کچھ اور نہیں ، مسلمان حکمرانوں اور عوام کی غیرت ملی کا جنازہ نکل چکا ہے ۔چند لاکھ آبادی پر مشتمل اسرائیل اگر ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر حاوی دکھائی دے رہا ہے تواس کی وجہ وہی ہے جو فاروق عزمی نے اسپین کی انگریزوں کے ہاتھوں فتوحات میں بتائی ہے ۔ بہرکیف فاروق عزمی کی تینوں کتابیں ہی اپنی مثال آپ ہیں ۔بطورخاس ہماری نوجوان نسل کے لیے یہ تینوں کتابیں مشعل راہ ہیں ۔اﷲ تعالی محمد فاروق عزمی کو صحت اور ایمان والی زندگی عطا فرمائے اور وہ مزید ایسی اچھی اور سبق آموز کتابیں اور مضامین لکھتے رہیں اور مسلمانوں کے مردہ ضمیرکو بیدار کرنے کی جستجو کرتے رہیں ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 785978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.