معروف ادیب کے کورونا ویکسین لگوانے کا قصہ

ہمارے ایک دوست جو بچوں کے "معروف" ادیب ہیں اور مختصر کہانیاں لکھنے میں "اکمل" بھی ہیں ۔انہوں نے گذشتہ دن ایک پوسٹ لگائی کہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد سے ان کی طبیعت کچھ بوجھل بوجھل سی ہے۔وہ تو اپنی اس کیفیت کی اصل وجہ کبھی نہیں بتائیں گے مگر صاحب۔۔۔۔ہم بھی اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔اس لیے یہ معاملہ کیسے ہم سے چوک سکتا تھا۔دراصل ہوا یوں کہ اپ اور ہم سب ہر روز ہی فیس بک پر کسی نہ کسی صاحب کی کورونا وہکسین والی تصویر دیکھتے رہے ہیں۔اور یہ بھی حقیقت ہے اپنے قومی شعار اور اخلاق کے مطابق ہم دراصل ٹیکہ لگوانے والے سے زیادہ لگانے والی پر توجہ دیتے ہیں جو واقعی قابل توجہ ہوتی ہیں (پاکستانی معاشرے کے مطابق تو اس قابل توجہ ہونے کے لیے محض صنف نازک ہی ہونا کافی ہے۔ہم معصوم۔۔۔ اقبال کے شاہین ہر صورت پر گزارہ کرلیتے ہیں۔ )۔اب یہ تصاویر اصل نرسوں کی ہیں یا کسی ماڈل کو لے کر بنوائی جاتی ہیں۔یہ ہم وسوق سے نہیں کہ سکتے مگر ان ٹیکہ لگانے والی نرسوں کی تصاویر دیکھیں تو یہی خیال آیا کہ اللہ میاں یہ کون سے سرکاری اسپتال کی نرسیں ہیں جو اتنی نرم ونازک اور تر وتازہ ہیں کہ سفید کپڑوں میں بھی ظالمانہ قسم کے تیر ترکش میں رکھے قیامت ڈھا رہی ہیں۔ہم تو جب بھی کبھی بھی کسی بھی سرکاری اسپتال میں گئے ہیں۔وہ وہ صورتیں نظر آئی ہیں کہ مریض قریب المرگ ہو جائے اور اچھے خاصے تندرست بندے کی سانسیں اکھڑنے لگ جائیں۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ "ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق " کے مصداق بہت خوش شکل اور نازک اندام نرسیں مامور کی جائیں تاکہ مریض کی آدھی بیماری ویسے ہی رفع ہوجائے۔( مرزا غالب نے یہ شعر یقینا" نجی اسپتال کی نرسوں کے لیے ہی موزوں کیا ہوگا۔)یہ الگ بات ہے کہ مریض اگر ہم جیسے ہوں تو صرف اس وجہ سے سے تندرست ہوتے ہوئے بھی بیماری کا بہانہ کریں کہ نرس صاحبہ کے درشن تو جاری رہیں اور ایسا بھی عین ممکن ہے کہ نرس سے یک طرفہ عشق کے عارضے میں بھی مبتلا ہوجائیں کہ گئے تھے اسپتال کسی تکلیف سے شفا یابی کے لیے اور واپس آگئے ہیں عارضہ عشق سمیٹے ہوئے۔

۔لیکن دوستو نہ جانے یہ کونسا کلیہ ہے ، کون سا پیمانہ ہے کہ جس کے مطابق اسپتالوں سمیت ہر سرکاری محکمے چاہے وہ سرکاری ٹی وی کی نیوز اینکر ہوں یا پی آئی اے کی فضائی مزبان یا دیگر محکمے۔ہر سرکاری ادارے میں چھانٹ چھانٹ کر وہ خواتین بھرتی کی جاتی ہیں کہ جنہیں صف نازک کے بجائے صف کرخت میں شمار کرنا چاہیے۔اپنے وزن و حجم کے مطابق یہ وہ "نازک" خواتین ہوتی ہیں کہ جب وہ موٹر سائیکل پر اپنے شوہر نامدار کے ساتھ جارہی ہوتی ہیں تو دور سے یہ لگتا ہے کہ جیسے آڑی رکھی ہوئی دیگ اور اس کا ڈھکن۔۔۔اگر آپ کو ہمارے اس مشاہدے پر کچھ شک ہے تو ابھی کے ابھی اٹھیے اور قریبی نیشنل بنک تشریف لے جایے ۔آپ کو وہاں موجود خواتین کو دیکھ کر ایک دہشت ناک ماحول کا احساس ہوگا۔فورا" باہر نکل جائیں اور قریب واقع کسی بھی نجی بنک میں چلیں جائیں ۔نیشنل بنک والی ساری کدورت ختم ہوجائے گی۔نجی بنک کے عملے میں موجود خواتین کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی اور آپ مسرور ہوجائیں گے۔شاید اسی لیے ایک نجی بنک کا تو تعارفی نعرہ ہی " آپ کے دل میں ہمارا اکاونٹ" ہے ۔اب لگتا ہے کہ اس لیے ہر بنک میں اکاونٹ کھلوانا پڑے گا۔اب امید ہے کہ دوستوں کو سرکاری اور نجی محکموں کی خواتین میں فرق سمجھ آگیا ہوگا۔

بہرحال ذکر ہو رہا تھا ہمارے دوست کا جو ویکسین لگوانے کے بعد بھی بہت غمگین تھے۔ان کے دکھ کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بھی ویکسین لگانے کی خوبصورت تصاویر دیکھ رکھی تھیں۔ویسے بھی موصوف ہر اس محفل میں جہاں صنف نازک ہوں، بہت مسرور رہتے ہیں اور اب ان کی بیگم سنجیدگی سے ان میں ٹریکر لگوانے کا سوچ رہی ہیں۔ کورونا ویکسین کی اتنی خوبصورت "تصاویر" دہکھ کر اسپتال جانے سے قبل انہوں نے بھی تازہ شیو اور غسل کے بعد اپنا سب سے اچھا لباس زیب تن کیا اور بن سنور کے اسپتال جانے کے لیے نکل گئے۔ان کی تیاریوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی بیگم نے انہیں اپنی اولاد کی طرح تیار کرکے بھیجا ہے۔موصوف بن سنور کر گنگناتے ہوئے اسپتال پہنچ گئے۔ان کے آنکھوں میں ایک خوب صورت اور نازک نرس کے ہاتھوں ویکسین کا ٹکیہ لگواتے ہوئے منظر کی تصویر گھوم رہی تھی۔جسے وہ فیس بک پر لگانے کا ارادہ کرچکے تھے۔ساتھ ہی نرس کے نرم ہاتھوں کا لطیف لمس بھی ذہن میں تھا۔کیوں کہ اب وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اس حسین موقع سے محروم رہتے ہیں۔جب وہ اسپتال پہنچے تو اک لمبی قطار نظر آئی۔انہوں نے آنکھیں مل کر دیکھا کہ کہیں وہ غلطی سے یوٹیلیٹی اسٹور یا کسی سستے آٹے وغیرہ کے اسٹال پر تو نہیں آگئے ہیں کیوں یہ لمبی قطاریں وہیں کا شیوہ ہیں۔لیکن انہیں آس پاس پھیلی ہوئی گندگی اور ہر طرف پان اور گٹکےکی پیک کے نقش و نگار دیکھ کر یقین آگیا کہ وہ سرکاری اسپتال ہی پہنچے ہیں۔پھر ان کی یہ پریشانی بھی بجا تھی کہ ہماری قوم اتنی ذمہ دار اور باشعور کیسے ہوگئی کہ ویکسین کے لیے اتنی بڑی تعداد میں نکل آئی ہے۔لیکن جلد ہی ان پر یہ عقدہ کھل گیا کہ یہ دراصل سرکار کے ڈنڈے کا نتیجہ ہے کہ نجی اور سرکاری اداروں میں اگلی تنخواہ ویکسین لگوانے سے مشروط ہے۔اسی لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں۔مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق وہ بھی قطار کا حصہ بن گئے جو جوں کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔قطار میں لگنا ہم پاکستانیوں کے لیے سب سے زیادہ کوفت کا باعث ہے۔اسی وجہ سے وہ بھی بیزار سے تھے لیکن ایک امید بھی تھی ۔"آنے والی خوشیوں کا احساس بھی ہے، ہر انسان کے پاس یہی اک آس تو ہے"۔۔ بس اسی شعر کی امید سے بندھے وہ پیوستہ شجر تھے کہ جلد ہی ایک حسین ملاقات متوقع ہے۔ان خیالات اور خواتین کی قدرے دور لگی قطار کی طرف سے آتی کچھ ٹھنڈی اور حسین ہواوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ان کی باری آہی گئی۔ان کے دل کی ڈھڑکن کچھ بڑھ گئی تھی ۔شوق نظارہ کو تعبیر ملنے والی تھی۔جیسے کوئی شدید کنوارہ حجلہ عروسی میں داخل ہورہا ہو بالکل اسی کیفیت میں وہ ٹیکے والے کمرے میں داخل ہوئے ۔"جس طرف آنکھ اٹھاوں تیری تصویراں ہیں" کا ورد لب پر لیے جوں ہی انہوں نے ٹیکہ لگانے والی نرس کی طرف دیکھا تو پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی اور شدت غم کی وجہ سے کرسی پر ڈھے گئے۔ویکسین کا ٹیکہ لگانے سے قبل انہیں گلوکوز کی ڈرپ لگانی پڑ گئی۔اس کے بعد جب کچھ ان کی جان میں جان آئی تو سامنے وہی عمر رسیدہ اور زنانہ جیل اور ہوسٹل کے وارڈن جیسی شکل والی نرس کھڑی تھی جو روح ہی کو نکال دے اور قلب کو پھاڑ دے۔(اطہر خان جیدی مرحوم تو اس معاملے میں بہت خوش قسمت رہے ہیں کہ جن کو پڑوسنیں بھی وہ ملی تھیں جو روح کو تڑپاتی تھیں اور قلب کو گرماتی تھیں )اس مردم مار نرس کی نظروں میں یہی پیغام واضح تھا کہ مجھے کام بتاو ۔۔میں کس کو کھاوں۔اس کے ہاتھ میں موجود ٹیکے کی سرنج انہیں وہ تیر نظر آرہا تھا کہ جس سے انہیں شہید کیا جانا تھا۔ہائے ان کی قسمت کہ کہاں وہ نظروں کے تیر سے گھائل ہونے چلے تھے اور اب سرنج کے بھالے سے قتل کیے جارہے تھے۔انہوں نے بہت سہم کر اس کی طرف دیکھا مگر اس نرس نے جو شاید پچیس سال قبل کسی کی آنکھ کا نور ہو اور کسی کے دل کا قرار ہو( یہ ہمارا قیاس تھا مگر عمارت کے کھنڈرات سے صاف نظر آرہا تھا کہ کبھی بھی ایسا کچھ نہیں رہا ہوگا)۔

اس نرس نے اپنے فرائص کی انجام دہی کے لیے ان کا بازو یو ں جکڑا کے جیسے مرغی فروش مرغی ذبح کرتے ہوئے اس کی گردن دبوچتا ہے۔ان کی اس حرکت سے اس کی تمام انگلیاں ان کے بازو میں پیوست ہو گئیں۔طرفہ تماشا یہ کہ اس نے بھی لڑکی بالیوں کی طرح ناخن بڑھا رکھے تھے۔اب ہمارے دوست کی حالت یہ تھی کہ ایک ٹیکہ انہیں کورنا ویکسین کا لگ رہا تھا اور پانچ ناخنوں کے ٹیکے اللہ جانے کس گناہ ناکردہ کے لگ رہے تھے۔موصوف کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ جیسے انہیں کورونا ویکسین کا نہیں زہر کا ٹیکہ لگا یا گیا ہو۔اپنی تمناوں کا خون ہونے کے ساتھ انہیں ناخنوں کی جلن اور نرس کی شکل کا خوف بھی تکلیف دے رہا تھا۔اپنے ارمانوں کی لاش وہ اپنے کندھوں پر اٹھائے باہر نکل آئے۔بامشکل تمام گھر تک پہنچے ۔ابھی ٹھیک سے بیٹھے بھی نہیں تھے کہ گھر کے وائی فائی کے سگنلز ملنے کی وجہ سے فیس بک وغیرہ کے پیغامات آنے شروع ہو گئے۔جنہیں دیکھ کر انہیں اپنی بے بسی پر رونا ہی آگیا کہ زیادہ تر پیغامات کورونا ویکسین لگوانے والے اصحاب کے تھے کہ جن میں ہر طرف ہی حسین اور چنچل نرسیں دکھائی دے رہی تھیں۔یہ رقیق القلب مناظر دیکھ کر انہوں نے موبائل فون ایک طرف پٹخا اور کہنے لگے۔۔۔میں نہیں مانتا۔۔۔میں نہیں مانتا۔۔پھر جب کچھ دیر بعد ان کی بیگم نے ان کےاوسان بحال کیے تو انہوں نے فیس بک پر وہ پوسٹ لگادی جس کی وجہ سے یہ تحریر معروض وجود میں آسکی ہے۔
 

Arif Majeed Arif
About the Author: Arif Majeed Arif Read More Articles by Arif Majeed Arif: 8 Articles with 5849 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.