#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالحج ، اٰیت 5 تا 10
}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الناس ان کنتم
فی ریب من البعث
فانا خلقنٰکم من تراب
ثم من نطفة ثم من علقة
ثم من مضغة مخلقة و غیر
مخلقة لنبین لکم ونقر فی الارحام
مانشاء الٰی اجل مسمٰی ثم نخرجکم
طفلا ثم لتبلغوااشدکم ومنکم من یتوفٰی
و منکم من یرد الٰی ارذل العمر لکیلا یعلم من
بعد علم شیئا وترالارض ھامدة فاذاانزلنا علیھا
الماء اھتزت وربت و انبتت من کل زوج بھیج 5
ذٰلک بان اللہ ھوالحق وانہ یحی الموتٰی وانہ علٰی کل
شئی قدیر 6 وان الساعة اٰتیة لا ریب فیھا وان اللہ یبعث
من فی القبور 7 ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا
ھدی ولا کتٰب منیر 8 ثانیَ عطفہٖ لیضل عن سبیل اللہ لہ فی الد
نیا خزی ونذیقہ ٗ یوم القیٰمة عذاب الحریق 9 ذٰلک بما قدمت یدٰک
وان اللہ لیس بظلام للعبید 10
اے محبت سے پیدا کیئے ہوۓ اور محبت کے لیۓ پیدا کیۓ ہوۓ انسانو ! اگر
تُمہارے دل میں اپنے مرنے کے بعد اپنے جینے کے بارے میں کوئی شک ھے تو تُم
اِس شک کو اِس لیۓ دل سے نکال دو کہ اِس سے پہلے بھی ھم نے تُم کو مِٹی سے
پیدا کر کے ایک مُدت تک مِٹی میں ٹھہرایا ھے ، پھر اُس مِٹی سے پیدا ہونے
والی تُمہاری اُس حیات کے لیۓ ھم نے اُسی مِٹی میں تُمہارے لیۓ رزقِ حیات
بھی پیدا کیا ھے ، پھر تُمہارے اِس جسم اور اُس رزق کے اِتصال سے تُمہارے
جسدِ حیات میں ایک آبی جوہرِ حیات بنایا ھے اور پھر اُس آبی جوہرِ حیات کو
تُمہارے رحمِ مادر میں پُہنچایا ھے اور وہاں پر اُس آبی جوہر کو پہلے ھم نے
گاڑھا خُون بنایا ھے اور پھر اُس گاڑھے خُون سے ھم نے ایک با شکل یا بے شکل
گوشت کا گولہ بنایا ھے اور پھر اِرتقاۓ طلب حیات کے اُس گولے کو ھم نے
ابتداۓ حیات سے اِنتہاۓ حیات تک پُہنچایا ھے تاکہ ھم تُم پر یہ اَمر واضح
کر دیں کہ ھم تَخلیق کے پہلے مرحلے میں انسانی جسم کو مِٹی سے بناتے اور
مِٹی میں ٹھہراتے ہیں اور تَخلیق کے دُوسرے مرحلے میں ھم اُس انسانی جسم کو
آبِ نطیف بناکر ایک مُدت تک رحمِ مادر میں ٹھہراتے ہیں اور وہاں سے ھم اُس
بے جان جسم کو ایک جان دار بچے کی صورت میں پیدا کر کے رحمِ مادر سے باہر
لے آتے ہیں ، پھر رحمِ مادر سے باہر لاکر ھم تُمہاری پرورش کرتے ہیں تاکہ
تُم بچپن سے سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک پُہنچو ، پھر تُم میں سے
کسی کو ھم غرضِ کھیل کی عُمر میں ہی حیاتِ موجُود سے نکال کر حیاتِ موعُود
میں داخل کر دیتے ہیں اور کسی کو ھم بے غرضی کی اُس بَدترین عُمر تک اسی
دُنیا میں رہنے دیتے ہیں جب اُس کے جسم و جان میں دُنیا کی کسی چیز کی کوئی
غرض نہیں رہتی اور ھم یہ سب اِس لیۓ کرتے ہیں تاکہ وہ جان جاۓ کہ وہ اِس
دُنیا کے بارے میں سب کُچھ جاننے کے بعد بھی کُچھ نہیں جانتا اور تُم یہ سب
کُچھ دیکھنے کے بعد سُوکھی ہوئی زمین کی اُس سُوکھی ہوئی مِٹی کو بھی
دیکھتے ہو جس پر ھم بارش برساتے ہیں تو وہ پہلے یَکا یَک پَھبک پُھول جاتی
ھے اور پھر سبزہ و گُل پیدا کرنا شروع کر دیتی ھے اور تُمہاری نظر پر یہ
سارے مَنظر اِس لیۓ اُجالے جاتے ہیں تاکہ تُم جان جاؤ کہ اللہ ہی وہ خالقِ
حق اور وہ قادرِ حق ھے جو مُردہ جانوں کو زندگی کے دائرے میں لے آتا ھے اور
زندہ جانوں کو موت کی آغوش میں لے جاتا ھے ، تخلیقِ حیات و ترتیبِ حیات کی
یہ تَدریج اِس بات کی دلیل ھے کہ قیامت کی گھڑی آنی ہی آنی ھے اور ارتقاۓ
حیات کی اِس تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ اللہ تعالٰی نے
اُس وقت اُن سب لوگوں کو اُن کی اُن قبروں سے باہر لانا ھے جو اِس وقت اپنی
قبروں میں سو رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے علم و دلیل کی اِس علامتی سُورت کی پہلی چار اٰیات میں
حالاتِ حیات و حادثاتِ حیات کی ایک قابلِ فہم و زلزلہ خیز اور ولولہ اَنگیز
دلیل سے انسان کی توجہ اِس اَمر کی طرف مبذول کرائی تھی کہ دُنیا میں آۓ دن
تُمہاری نگاہوں کے عین سامنے جو چھوٹے چھوٹے اور جو بڑے بڑے حادثاتِ موت و
حیات رُونما ہوتے رہتے ہیں قیامت کا حادثہِ موت و حیات بھی ان حادثاتِ موت
و حیات کی طرح رُونما ہونے والا ایک حادثہِ موت و حیات ہو گا لیکن وہ اِن
تمام حادثاتِ موت و حیات کے بعد رُونما ہونے والا سب سے بڑا اور سب سے آخری
حادثہِ موت و حیات ہو گا اور جس طرح دُنیا کے ہر چھوٹے اور ہر بڑے حادثے کے
بعد جُنبشِ حیات سے حرکتِ حیات کی ایک نئی دُنیا پیدا ہوجاتی ھے قیامت کا
وہ بڑا حادثہ واقع ہونے کے بعد بھی تعمیرِ حیات کی خواہش سے تصویرِ حیات کی
ایک ایسی ہی دُنیا پیدا ہو جاۓ گی جو انسان کی ایک نئی جہتِ حیات ہوگی اور
انسان بھی اُس نئی حیات کے زیرِ حیات آنے والا ایک نیا انسان ہو گا ، اِس
سُورت کی اُن پہلی چار اٰیات کے بعد موجُودہ چھ اٰیات میں بھی اُن پہلی
اٰیات کے اُسی پہلے مُجمل مضمون کو اِس مُفصل دلیل کے ساتھ پیش کیا گیا ھے
کہ اگر تُم کو اپنی موجُودہ حیات پر وارد ہونے والی یقینی موت کے بعد ملنے
والی ایک نئی اور مُتوقع حیات کے بارے میں شک ھے تو تُم اپنی موجُودہ حیات
سے پہلی اُس موت پر غور کر لو جس موت پر تُمہاری موجُودہ حیات گواہ ھے
کیونکہ تُم جانتے ہو کہ تُم اپنی موجُودہ حیات کے حلقہِ حیات میں خود بخود
داخل نہیں ہوۓ ہو بلکہ تُم کو ایک خالق کی طاقت ور ہستی نے ایک نادیدہ موت
کے دائرے سے نکال حیات کے اِس دیدہ حیات کے حلقے میں داخل کیا ھے جو اِس
بات کی دلیل ھے کہ تُمہارے جس خالق نے تُم کو اُس پہلی غیر محسوس موت کے
غیر محسوس حلقے سے نکال کر اِس محسوس حیات کے محسوس حلقے میں شامل کیا ھے
وہی خالق موجُودہ حیات پر واقع ہونے والی موت کے بعد بھی تمہیں یقیناً ایک
نئی زندگی دے گا لیکن تمہیں اپنی موجُودہ زندگی اور موجُودہ زندگی کے بعد
ملنے والی زندگی کو سمجھنے کی طرح سمجھنے کے لیۓ اپنی اُس حیاتِ ماضی پر
نظر ڈالنی ہوگی جس حیاتِ ماضی کی ابتدا میں تُم زمین کی خاک میں ملی ہوئی
وہ مُشتِ خاک تھے جس مُشتِ خاک کے ایک بے مقدار ذَرّے سے اللہ تعالٰی نے
پہلے تُمہارا وجُود بنایا ، پھر تُمہارے اِس خاکی وجُود کو سبزہ و گُل
بنایا ، پھر اُس سبزہ و گُل کو تُمہارے باپ کی خوراک بنا کر تُمہارے باپ کے
خُون میں پُہنچایا ، پھر تُمہارے وجُود کو تُمہارے باپ کے خُون میں شامل کر
کے تُم کو ایک عملِ تقطیر سے گزارا اور پھر اِس عملِ تقطیر سے گزارنے کے
بعد ایک طے شُدہ مُدت تک تُم کو تُمہاری ماں کے حیات پرور رحم میں محفوظ کر
دیا ، پھر تُم کو بچپن کی ترنگ دیکھنے دکھانے ، جوانی کی اُمنگ دیکھنے
دکھانے اور بڑھاپے کے رَنگِ بے رَنگ دیکھنے دکھانے کی ایک مُہلت دی گئی ،
پھر اِس مُہلت کے دوران جس انسان کو کھیل کُود کی خود غرض عُمر میں ہی موت
و حیات کا فہم آشنا پایا گیا تو اُس کو اُسی عُمر میں دُنیا سے عُقبٰی میں
پُہنچا دیا گیا اور جو شخص بے غرضی کی عُمر تک پُہنچ کر بھی موت و حیات کے
فہم سے بے غرض کا بے غرض رہا تو اُس کو بے غرضی و لاعلمی کے آخری لَمحے تک
فہم کی مُہلت دی گئی اور اُس مُہلت کے بعد اُس کو دُنیا سے نکال کر عُقبٰی
میں پُہنچا دیا گیا ، انسانی حیات اور ارتقاۓ حیات کا یہ سفر اِس بات کی
ایک قوی سے قوی تر دلیل ھے کہ جس طرح دُنیا کے ہر فرد اور دُنیا کی ہر قوم
پر پیدائش سے بچپن ، بچپن سے جوانی ، جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے موت کے
سارے زمانے آتے ہیں اسی طرح اِس دُنیا پر بھی پیدائش سے بچپن ، بچپن سے
جوانی ، جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے موت کے سارے زمانے آتے ہیں ، موت و
حیات کے اِنہی زمانوں کی تَمہید و تَکمیل کا نام کمالِ حیات و زوالِ حیات
اور موت و حیات کے اِنہی زمانوں کے آخری یوم کا نام یوم الحساب ھے !!
|